اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سینیارٹی تبدیلی کے خلاف پریزینٹیشنز مسترد کر دی گئی۔ جوڈیشل کمیشن نے 6 ججوں کی بطور سپریم کورٹ ججز ناموں کی منظوری دے دی ہے۔ اجلاس کی صدارت چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے کی جبکہ جسٹس منیب اور جسٹس منصور شاہ نے اجلاس موخر کرنے کا مطالبہ کیا جسے کمیشن کے ممبران کی اکثریت نے مسترد کر دیا۔ جسٹس منیب، جسٹس منصور، بیرسٹر گوہر علی اور علی ظفر نے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی درخواست پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی بطور ایکٹنگ جج سپریم کورٹ تقرری آرٹیکل 181کے تحت کی گئی۔ گویا عدالتی معاملات اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد تشکیل پانے والی آئینی عدالت قائم بھی ہو چکی اور فعال بھی ہے۔ جوڈیشل کمیشن اپنا کام بھی کر رہا ہے۔ پی ٹی آئی پارلیمان کو مانتی ہی نہیں ہے لیکن اس کے تمام اجلاسوں میں اس کے نمائندے شریک ہوتے ہیں، حاضری لگاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر ہلہ گلہ کرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں اور بائیکاٹ کرتے ہیں لیکن اپنی تنخواہیں، ٹی اے بلز وغیرہ ضرور وصول کرتے ہیں۔ وہ 26ویں ترمیم کو نہیں مانتے حالانکہ ترمیم کے لئے قائم کردہ قائمہ کمیٹی میں پی ٹی آئی ممبران شامل تھے۔ کمیٹی کے دس میں سے نو اجلاسوں میں شریک بھی رہے۔ دسویں اجلاس میں غیر حاضر ہوئے تاکہ ترمیم کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا جا سکے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا پھر اس کے بعد جب آئینی ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن اور آئینی بینچ بنا تو اس کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے رہے ہیں۔ سب کچھ نہ ماننے کے ساتھ ساتھ تمام سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ صرف انتشار و افتراق پھیلانے کے لئے۔ پی ٹی آئی کی ساری سیاست میں نہ مانوں کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے تشکیل پائی ہے۔ 1996ءمیں تحریک انصاف کے قیام سے لے کر 2011ءمیں اسٹیبلشمنٹ کے گود لئے جانے تک، عمران خان تنقید ہی نہیں طعن و تشنیع کے گل کھلاتے رہے۔ ہر بات پر تنقید، ہر ادارے پر نشتر زنی، ان کی ہی ادائیں ہماری مقتدرہ کو بھا گئیں اور انہوں نے عمران خان اور اس کی پارٹی کو گود لیا پھر 2018ءمیں اسے اقتدار کے ایوانوں میں داخل کیا۔ 2022ءتک عمران خان اور اس کے حواریوں دواریوں نے ملک کا جو حشر کیا وہ اب ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد، عمران خان اور ان کی پارٹی نے ملک میں انتشار و افتراق کی نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ اسلام آباد اور لاہور پر حملہ آور ہونے کی کئی کاوشیں کی جا چکی ہیں۔ فروری 2024ءکے انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواران کو کامیابی ملی، ووٹ بھی ملے، پاپولر ووٹوں کو پی ٹی آئی اپنی حماقتوں اور عاقبت نااندیشوں کے باعث الیکٹورل ووٹوں میں تبدیل نہیں کر سکے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی اب بھی سڑکوں پر ہے۔ حکومتی کارکردگی یہ ہے کہ گزرے پارلیمانی سال کے دوران پی ٹی آئی نے جتنی دفعہ بھی انتشار پھیلانے کی کوشش کی، حکومت نے اسے بری طرح ناکام بنایا۔ پی ٹی آئی کی آخری بال اور آخری کال بھی ناکام ہوئی۔ پھر بشریٰ بیگم کو لانچ کرکے بھی دیکھ لیا، کچھ نہیں ہوا۔ آخری مرتبہ 8فروری کو یوم سیاہ منانے کا اعلان بھی ناکام نظر آیا۔ پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست ناکام ہو چکی ہے۔ ریاست نے اس انتشاری ٹولے کی ہوا نکال دی ہے، ٹرمپ کارڈ بھی ناکام ہو چکا ہے، اب خط و کتابت کی باتیں شروع ہو چکی ہیں۔ پی ٹی آئی کو بات چیت کے ذریعے، مذاکرات کے ذریعے معاملات درست کرنے اور قومی سیاست کے مرکزی دھارے میں آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ پی ٹی آئی پہاڑوں سے نیچے اتر بھی آئی تھی لیکن پھر نامعلوم وجوہات کے باعث مذاکراتی میز چھوڑ کر کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی وہ دوبارہ پہاڑوں پر چڑھ گئی۔ اب صورتحال ایسے لگ رہی ہے کہ پی ٹی آئی اپوزیشن کے مقام علیہ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ احتجاج، احتجاج اور نعرے بازی کی صدائیں دیتے دیتے تھک چکی ہے۔ ریاست بڑی یکسوئی کے ساتھ ملکی و قومی تعمیر و ترقی کے عمل کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔ سیاسی استحکام کی کاوشیں بھی جاری ہیں۔ سفارتی محاذ پر بڑی تندہی کے ساتھ معاملات آگے بڑھائے جا رہے ہیں۔ چین کے علاوہ نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ انگیجمنٹ کی کاوشیں کی جا رہی ہیں۔ نئے امریکی صدر نے طالبان حکومت سے چھوڑے گئے امریکی ہتھیاروں کی واپسی کا جو مطالبہ کیا ہے اس سے پاکستان کی اہمیت بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ظاہر ہے جب امریکہ ایک بار پھر طالبان کے ساتھ معاملات و مذاکرات شروع کرے گا تو پاکستان ایسے ہی اہم قرار پائے گا جیسے دوحہ مذاکرات میں پاکستان انتہائی اہم عنصر تھا۔ امریکیوں کی افغانستان سے گلو خلاصی کرانے میں پاکستان نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں بھی پاکستان فرنٹ لائن سٹیٹ تھا۔ اسی طرح ٹرمپ انتظامیہ کے اعلان کے بعد پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان اگر یکسوئی اور ہنرمندی کے ساتھ معاملات طے کرتا ہے تو ہم فائدے حاصل کر سکیں گے۔ امریکہ ہمارا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر بھی ہے۔ ہمارے فوجی معاملات بھی خاصی حد تک امریکہ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہم جن عالمی زری و مالیاتی اداروں کے مرہون منت ہیں ان پر امریکی کنٹرول ہے۔ ایسے میں ہم اگر امریکی انتظامیہ کی ترجیحی لسٹ میں آتے ہیں تو یقینا فائدے میں رہیں گے۔ ہم ابھی تک اس قابل نہیں ہوئے ہیں کہ امریکہ کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں یا امریکہ کو ناراض کریں۔ بھلائی اسی میں ہے کہ ابھرتے ہوئے امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہنرمندی اور چابکدستی کا مظاہرہ کریں۔ اس وقت حکومت و مقتدرہ یک جان و دو قالب کے طور پر پاکستان کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہیں۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور اسی میں پاکستان کا مفاد پوشیدہ ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: میں پاکستان پی ٹی آئی ترمیم کے کے ساتھ کے بعد
پڑھیں:
آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر مشتمل آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے. جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔یہ بات انہوں نے دبئی میں ورلڈ گورنمنٹس سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔انہوں ںے کہا کہ یہ سمٹ انسانیت کے بہتر مستقبل کے چیلنجز اور مواقع کے لیے اجتماعی غور کا موثر فورم ہے. 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر مشتمل آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ غزہ میں نسل کشی کے دوران 50 ہزار فلسطینی شہید ہوئے. فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے .جس میں آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت القدس شریف ہو، پائیدار امن صرف دو ریاستی حل سے ممکن ہے۔انہوں نے کہا کہ سات دہائیوں کے دوران پاکستانی قوم کو بے شمار چینلنجز کا سامنا رہا. ہمارا اڑان پاکستان منصوبہ قومی اقتصادی تبدیلی کا منصوبہ ہے جو پاکستان کی معاشی ترقی اور معاشی نمو میں اضافے کا باعث بنے گا۔