Nai Baat:
2025-04-15@09:20:21 GMT

فضائی آلودگی، تجاوزات اور بورڈ توڑ مہم

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

فضائی آلودگی، تجاوزات اور بورڈ توڑ مہم

پاکستان میں فنانشل اینڈ سوشل ریسرچ کے ایک بڑے ادارے اپسوس کے سربراہ بابر ستار صاحب سے کچھ عرصہ قبل ملاقات نہایت دلچسپ اور معلومات افزا تھی۔ جدید دور میں لوگوں کا پراڈکٹس سے لے کر حکومتوں سے متعلق سوچنے سمجھنے اور رد عمل ظاہر کرنے کا کیا طریقہ کار ہے، اس کو سمجھنے اور جاننے کے لئے ریسرچ کے ایسے ادارے بخوبی کام کر رہے ہیں۔ مختصرمگرجامع ملاقات میں بہت سے موضوعات سمیت فضائی آلودگی خصوصاً سموگ سے متعلق گفتگو کے دوران بابر ستار صاحب کی جانب سے تجاوزات کو بھی آلودگی کی وجہ قرار دینا دلچسپی سے خالی نہ تھا۔ سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سڑکوں پرپٹرول سے چلنے والی وہیکلز ناقص فیول اور کمزور انجن کی وجہ سے آلودگی میں 70 فیصدکی حصہ دارہیں۔ مزید انڈسٹریل دھواں 63 فیصد،جلا کر فضلہ تلف کرنے سے 37 فیصد، اینٹوں کے بھٹوں سے 31 فیصد، فصلیں جلانے سے 30 فیصد، 11 فیصد کنسٹرکشن کے پھیلا¶ اور14 فیصد دیگر وجوہات شامل ہیں۔ اس میں سب سے بڑی وجہ گاڑیوں سے نکلنے والا زہریلادھواں ہے۔ اس کو ٹھیک کرنے کے دو طریقے ہیں۔ گاڑیوں میں ڈالا جانے والا فیول اپ گریڈ کیا جائے۔ گاڑیوں کومخصوص مدت کے بعد سڑکوں پرچلنے کی اجازت نہ دی جائے اوران کی فٹنس کے قوانین پر سختی سے عمل درآمدکرایاجائے۔ دوسرا تجاوزات کا خاتمہ، جو آج کا موضوع بھی ہے۔ تجاوزات پورے پاکستان کامسئلہ ہے۔ بلکہ مسئلے سے زیادہ ایک رویہ ہے۔ ہمارامزاج ہے کہ ہمیں قانون شکنی پسند ہے۔ اسی سروے کے مطابق 44 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ لوگوں کاعدم تعاون اور قانون پر عملدرآمد نہ کرنا صاف ماحول کے لئے رکاوٹ ہے۔ گذشتہ چندبرسوں سے اکتوبر اور نومبر پنجاب میں خصوصاً لاہور اور دیگربڑے شہروں میں سموگ سے نظام زندگی درہم برہم ہو جاتا ہے۔ بچوں کی تعلیم، دفتر یا شاپنگ کے لئے آنا جانا یا سماجی تقریبات میں شرکت کا عمل سکڑ کر رہ جاتا ہے۔ صحت کے مسائل الگ سے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ویسے تو 10 میں سے 8 پاکستانی فضائی آلودگی کے سبب سانس سے جڑی کسی نہ کسی بیماری کا سامنا کرتے ہیں۔ لیکن اس برس پنجاب کے شہروں لاہور، ملتان، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور راولپنڈی میں 100 فیصد لوگوں کواس کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں 68 فیصد لوگوں کو کھانسی، 66 فیصد لوگوں کو فلو، 37 فیصد لوگوں کو سانس لینے میں دشواری، 29فیصد لوگوں کو آنکھوں میں جلن، 4 فیصد کو بخار اور 9 فیصد کو دیگر بیماریوں کی شکایت رہی۔ ان دو مہینوں میں خوب شور مچتا ہے، ٹی وی شوز کئے جاتے ہیں، سوشل میڈیا پر حکومت کوذمہ دار ٹھرایا جاتا ہے۔ دسمبر میں موسم قدرے صاف اور بعد میں بہتر ہو جاتا ہے۔ حکومت بھی دبا¶ سے نکل آتی ہے عوام بھی بھول جاتے ہیں کہ کوئی جان لیوا مسئلہ در پیش آیا تھا۔ لیکن اس بار پنجاب حکومت نے تجاوزات کے خاتمے کے لئے باقاعدہ کمر کس لی ہے۔ پنجاب میں پیرا (پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی) نے باقاعدہ کام شروع کردیا ہے۔اس کی سربراہی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز خود کر رہی ہیں۔اس اتھارٹی کا ایک مقصد شہروں کی گلیوں،بازاروں اور سڑکوں پر ٹریفک کے بہا¶ میں بہتری اور پیدل چلنے والوں کے لئے آسانی پیدا کرنا ہے۔ لاہور کے بڑے بازاروں میں دکانوں کے آگے اس قدرانکروچمنٹ ہو چکی تھی کہ پیدل آدمی کا گزرنا محال تھا۔ لیکن اس وقت اندرون لاہور کے بازاروں کی صورتحال بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔آپ ہال روڈ، بیڈن روڈ،برانڈرتھ روڈ سے باآسانی اپنی گاڑی پر گزر سکتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے ڈیٹا کے مطابق پنجاب کی کل وہیکلز کا 32فیصد صرف لاہورمیں موجود ہے۔ ٹریفک کے بہا¶ کو کنٹرول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ قوانین پرہرصورت عملدرآمدکرایاجائے۔ انکروچمنٹ اور ٹریفک کنٹرول نہ ہونے کے باعث سست رفتارگاڑیاں اپنا سفر دوگنے وقت میں طے کرتی ہیں اور فضا میں زیادہ کاربن چھوڑکر آلودگی کا سبب بن رہی ہیں۔ اس سلسلے میں لاہور کی سب سے مصروف فیروز پور روڈ پر موٹرسائیکل والوں کے لئے الگ لین بنا دی گئی ہے جبکہ تین اور چار پہیے والی سواریوں کے لئے الگ سڑک مختص ہے تاکہ ٹریفک کا بہا¶ بنا رہے۔ دیکھا جائے تو یہ ایک مثبت قدم ہے جسے کچھ لوگ سوشل میڈیا پر غلط اندازمیں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سپیڈ لمٹ کی پابندی نہ کرنے اور غلط اوورٹیکنگ کی وجہ سے اِکا دُکا لوگوں کو حادثات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن جتنی جلدی نیا ڈسپلن قبول کر لیں گے صورتحال مثبت ہوجائے گی۔ اسی ذیل میں پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی نے مارکیٹوں اور گلیوں میں دکانوں پر آویزاں بورڈز پربھی آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ اتھارٹی اس ضمن میں لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں دکانوں پر لگے بورڈز کو گراکر ایک ہی ڈیزائن، سائز اور ایک جیسی لکھائی کے بورڈ لگوا کر یونیفارمیٹی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شاید سنگل شاپ اونرکے لئے یہ صورتحال اتنی پریشان کن نہ ہو۔ لیکن ٹیئر ون ریٹل سیکٹر(برانڈز) کےلئے یہ صورتحال نہایت مشکل اور پریشانی کا باعث بن چکی ہے۔ ہر برانڈ کا سائن بورڈ ایک الگ پہچان اور نمائندگی رکھتا ہے۔کسی بھی کسٹمرکے لئے ایک مارکیٹ میں اپنے مطلوبہ برانڈ کو اس کے سائن بورڈ کے ذریعے پہچاننا آسان جبکہ ایک جیسے بورڈزمیں تلاش کرنا دشوار ہے۔
دوسرالاکھوں روپے کی مالیت کے بورڈز کو توڑنے کا عمل ٹیکس کمپلائینٹ بزنسز کے کئے نہایت تکلیف کا باعث ہے۔ چھوٹے شہروں میں برانڈز شاپ کے آگے لگی ٹف ٹائلزکو انکروچمنٹ کے نام پر بلڈوز کرنے کے بعد خالی چھوڑ دینے کی شکایات الگ ہیں۔ یا تو حکومت اس کو پہلے سے بہتر کرے ورنہ انھیں بلڈوزکرنے سے گریز کرے۔ یہ فیصلہ اور ذمہ داری، پیرا اور مقامی ڈپٹی کمشنر کی ہے کہ وہ شہر کی خوبصورتی کو کیسے برقرار رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں آرگنائزڈ ریٹیل کی نمائندہ تنظیم چین اسٹور ایسوسی ایشن حکومت کی معاونت کے لئے تیار ہے۔ چین اسٹورایسوسی ایشن کے چیئرمین اسفندیار فرخ کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر متوازی طور پر ماحول دوست پالیسیزکے نفاذ اورکاروبار کے فروغ کے لئے تیار ہیں۔ جبکہ اس تنظیم میں شامل برانڈز پہلے ہی ماحول دوست اقدامات کررہے ہیں جیسا کہ پلاسٹک کی جگہ کپڑے یا کاغذکے بیگز، ایفیشنٹ انرجی لائٹس اور سولرانرجی کااستعمال۔ پنجاب حکومت کی تازہ مہم میں تماتر کمپلائنسز کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے نئے بورڈز تیار کئے جا سکتے ہیں۔ اسلئے پنجاب حکومت کو چاہئے کہ ٹیئر ون(برانڈز) کے بورڈ توڑنے سے قبل مشاورتی عمل مکمل کر لے تاکہ کاروبار دوست پالیسیوں کا تسلسل قائم رہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: جاتا ہے کے لئے

پڑھیں:

پشاور، امتحانی مرکز میں طلبہ کو نقل فراہم کرنے میں پورا عملہ ملوث، تاحیات نااہل کردیا گیا

کمشنر پشاور ڈویژن چیئرمین پشاور تعلیمی بورڈ ریاض خان محسود نے اسسٹنٹ کمشنر پشاور کی رپورٹ پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور دو ممتحنین  کو فوری طور پر فارغ کر کے ان کے خلاف انکوائری اور تاحیات امتحانی ڈیوٹی کے لیے بلیک لسٹ قرار دے کر ای اینڈ دی رولز کے تحت احکامات جاری کیے۔ اسلام ٹائمز۔ پشاور میں زریاب کالونی کے امتحانی مرکز میں طلبہ کو نقل کی فراہمی اور نقل میں معاونت کرنے پر سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور دو ممتحنین کو ڈیوٹی سے فارغ کر کے بورڈ ڈیوٹی کے لیے تاحیات نااہل کر دیا گیا ہے۔ قائم قام کمشنر پشاور اور چیئرمین بورڈ ریاض محسود کی جانب سے سخت احکامات جاری کردیے گئے ہیں۔ میٹرک کے امتحان میں شفافیت برقرار رکھنے، نقل کی روک تھام اور طلبہ کو سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے اسسٹنٹ کمشنر پشاور شہروز مفتی نے چیئرمین پشاور تعلیمی بورڈ کو رپورٹ کرتے ہوئے بتایا کہ 12 اپریل کو ان کے اچانک دورے کے دوران علاقہ زریاب کالونی میں قائم رائل اسکول میں طلبہ سرعام نقل کرتے ہوئے پائے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈیوٹی پر مامور امتحانی عملہ اور اسکول انتظامیہ مل کر طلبہ کو نقل میں مدد فراہم کررہے تھے اور اس موقع پر طلبہ سے پاکٹ گائیڈز اور دیگر مواد برآمد کیا گیا۔ کمشنر پشاور ڈویژن چیئرمین پشاور تعلیمی بورڈ ریاض خان محسود نے اسسٹنٹ کمشنر پشاور کی رپورٹ پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور دو ممتحنین  کو فوری طور پر فارغ کر کے ان کے خلاف انکوائری اور تاحیات امتحانی ڈیوٹی کے لیے بلیک لسٹ قرار دے کر ای اینڈ دی رولز کے تحت احکامات جاری کیے۔ انہوں نے تعلیمی بورڈ انتظامیہ کو فوری طور پر متبادل امتحانی عملہ مذکورہ امتحانی ہال میں تعینات کرنے کے احکامات جاری کیے۔ ریاض خان محسود نے نے واضح کیا کہ نقل کی روک تھام کے سلسلے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی اور خلاف ورزی کرنے والے سخت ترین تادیبی کارروائی کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھیں۔

متعلقہ مضامین

  • حاجی کیمپ کے اردگرد تجاوزات کی بھرمار، روڈ بند، ٹریفک جام معمول 
  • فتنے کےساتھ کوئی ڈیل نہیں ہوسکتی، حکومت کسی اصول پر کمپرومائز نہیں کرے گی، اسحاق ڈار
  • بھارت میں وقف قوانین کے خلاف ملک گیر تحریک
  • مودی حکومت نے”وقف بورڈ“ کو پوسٹ آفس میں تبدیل کر دیا ہے ، اویسی
  • حکومت کسی اصول پر کمپرؤمائز نہیں کرے گی،نائب وزیراعظم اسحاق ڈار
  •  مراکز صحت آؤٹ سورس نہیں کرنے دینگے: حافظ نعیم 
  • جہاز رانی میں مضر ماحول گیسوں کا اخراج کم کرنے پر تاریخی معاہدہ طے
  •  وزیراعلی پنجاب خاتون ہیں، انھیں احتجاج کرنے والی خواتین کا کیوں خیال نہیں؟ حافظ نعیم الرحمن 
  • پشاور، امتحانی مرکز میں طلبہ کو نقل فراہم کرنے میں پورا عملہ ملوث، تاحیات نااہل کردیا گیا
  • بورڈنگ پاس اور چیک ان کا خاتمہ؟ عالمی فضائی سفر کی انڈسٹری میں بڑی تبدیلیوں کا امکان