Nai Baat:
2025-04-15@06:34:40 GMT

سنجیدہ کاوشوں کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

سنجیدہ کاوشوں کی ضرورت

معاشی بحالی کی جدوجہدمیں کامیابی کے لیے لازم ہے کہ برآمدات میں اضافہ اوردرآمدات میں کمی لائی جائے اِس حوالے سے حکومتی کاوشیں جزوی طور پر کامیابی سے ہمکنارہوتی نظر آتی ہیں لیکن فوری توجہ کے متقاضی کئی ایسے پہلو ہیں جو ہنوزنظر انداز ہو رہے ہیں اگر ہم نے معاشی بحالی کا سنگِ میل طے کرنا ہے تو جامع حکمتِ عملی اختیار کرنا ہو گی۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایسے ممالک جن کا شمارہمارے قریبی دوست ممالک میں ہوتا ہے اُن سے بھی تجارتی توازن ہمارے حق میں نہیں بلکہ خسارہ ہے مثال کے طورپر ترکیہ جسے ہم اپنا قریبی اور بااعتماددوست ملک تصورکرتے ہےں اُس کے ساتھ بھی تجارتی توازن پاکستان کے حق میں نہیں ظاہرہے انفرادی کی بجائے حکومتی سطح پرہی مراعات کے حوالے سے گفتگوثمربارثابت ہوسکتی ہے آج بارہ فروری کو صدر رجب طیب اردوان اسلام آباد کے دوروزہ دورے پر ہیں تو حکومت کوچاہیے کہ دو طرفہ تعلقات سمیت باہمی تجارت جیسے پہلوﺅں پربھی سنجیدہ بات چیت کرے تاکہ اہم منصوبوں کے ذریعے تعاون کا فروغ اور مشترکہ اقدامات سے تجارت کو وسعت حاصل ہو۔
پاکستانی قیادت کچھ زیادہ ہی چین پر فریفتہ ہے تجارت سمیت ہر حوالے سے چین فائدے میں نظرآتا ہے وہ دنیا کے مہنگے ترین قرضے دیکر پاکستان کو جکڑنے میں مصروف ہے نیز مہنگا اور غیر معیاری سامان بھی پاکستان کوفروخت کررہا ہے اِس کے لیے چینی کمپنیوں کوہمارے بدعنوان عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے لیکن چین کو پاکستانی مال کی فروخت میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے طرفہ تماشہ یہ کہ چینی قرضہ ستائیس ارب ڈالر کے ہندے کو چھونے لگا ہے جوکہ نہایت تشویشناک امرہے کیونکہ آمدن کومدِ نظر رکھیں تو ادائیگی کی سکت کم ہوتی جارہی ہے اِس مشکل ترین صورتحال میں چینی کردارنظرانداز نہیں کیا جا سکتاکیونکہ چین کو برآمدات بڑھائے بغیر ہمارے پاس ایسے ذرائع نہیں کہ ستائیس ارب ڈالرجیسی بڑی رقم کی ادائیگی کر سکےں پاکستانی قیادت کو چاہیے کہ چین سے مزید مہنگے قرضے لینے سے گریزکرے اور برآمدات میں اضافے پر توجہ دے تاکہ قرضوں کا انبار کم ہو اور معاشی وتجارتی سرگرمیوں میں بہتری آئے۔
وسطی ایشیائی ریاستیں سنجیدہ کوششوں سے پاکستانی مال کی بہترین منڈی ثابت ہو سکتی ہیں افسوسناک امرتو یہ ہے کہ یہاں بھی تجارتی توازن پاکستان کے حق میں نہیں بلکہ خسارہ بڑھتا جارہا ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں مگر اِس حقیقت کو مکمل طورپر جھٹلانا بھی ممکن نہیں کہ پاکستانی مال کومحصولات سمیت پیچیدہ راہداری جیسی رکاٹوں کا سامنا ہے جنھیں دورکرنا کچھ زیادہ مشکل نہیںحکومتی توجہ سے وسطی ایشیائی ریاستوں کو برآمدات میں اضافہ ممکن ہے مگر شرط یہ ہے کہ حکومت دعوﺅں پر انحصار چھوڑ کر عملی اقدامات پر توجہ دے اورمحصولات کم کرانے کے ساتھ محفوظ و آسان راہداری یقینی بنائے ۔
امریکہ ایسا ملک ہے جوپاکستانی مال کی بڑی منڈی اور تجارتی توازن بھی پاکستان کے حق میں ہے جو گیارہ ارب ڈالرکے لگ بھگ ہے مگر ٹرمپ انتطامیہ درآمدات پر محصولات بڑھانے کی روش پر گامزن ہے اب جبکہ امریکہ کو پاکستان کی کچھ زیادہ ضرورت نہیں رہی اور دونوں ممالک کے تعلقات سردمہری کا شکارہیںتو اندیشہ ہے کہ کسی وقت بھی یہ تجارتی منافع بخش منڈی چھن سکتی ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ حکومت ایسی نوبت آنے سے قبل ہی ایسے اقدامات اُٹھائے کہ پاکستانی مال محصولات کی زَد میں آنے سے محفوظ رہے اِس کے لیے بہترین حکمتِ عملی یہ ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ سے دوطرفہ روابط بڑھائے جائیں چین ہماری دفاعی اور مالی ضرورت سہی لیکن ایک بڑی عالمی اور دفاعی طاقت امریکہ سے بھی بہتر تعلقات ہماری ضرورت ہیں ۔
یورپی یونین بھی پاکستان کی ایک ایسی اہم تجارتی شراکت دار ہے جہاں پاکستانی مصنوعات پر عائد محصولات میں نرمی ہے کیونکہ پاکستان کو Generalized Scheme of Preference )جی ایس پی پلس )کا درجہ حاصل ہے یہ درجہ تبھی بحال رہ سکتا ہے جب پاکستان بنیادی انسانی حقوق،ماحولیاتی تحفظ اور گُڈ گورننس سے متعلق ستائیس بین الا قوامی کنونشنز کی پاسداری کرے جن ممالک کو یورپی یونین نے جی ایس پی پلس کا درجہ دے رکھاہے ان کی مسلسل نگرانی بھی کرتی ہے ویسے تو اکتوبر2023 میں پاکستان کو اِس حوالے سے حاصل مراعات میں 31 دسمبر2027 تک توسیع کردی گئی تھی جس کے نتیجے میں یورپی یونین کو ٹیکسٹائل برآمدات میں 108 فیصداضافہ دیکھنے میں آیا مگریورپی یونین کے وفدکا حالیہ دورہ پاکستان کچھ زیادہ خوشگوار نہیںرہاوفدنے فوجی عدالتوں اور انسانی حقوق سمیت کچھ دیگر کنونشنز پر عملدرآمد نہ ہونے کی بناپر تحفظات کا اظہار کیا اِس صورتحال کے ذمہ دارپی ٹی آئی کے مغربی ممالک میں متحرک عہدیدار بھی ہیں جنھوں نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کاشورمچایا ہماری زیادہ ٹیکسٹائل مصنوعات امریکہ اور یورپی یونین میں شامل ممالک کوبرآمد کی جا تی ہےں یورپی یونین کی طرف سے تحفظات کا اظہاراب صنعتی شعبے کے لیے سخت پریشانی کا باعث ہے جرمن ٹیکسٹائل میلے میں پاکستانی برآمدکنندگان کو غیر معمولی آرڈر بھی ملے لیکن اگر حاصل ترجیحی درجہ ختم ہو تا ہے تو پاکستانی مصنوعات بھی محصولات کی زَد میں آجائیں گی ایسی صورتحال تجارتی حوالے سے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے یورپی یونین کے تحفظات بروقت دور کرنے سے ترجیحی درجہ برقراررکھا جا سکتا ہے وگرنہ فائدہ مند تجارتی منڈیاں کھونے سے معاشی بحالی کی جدوجہد رائگاں جا سکتی ہے مہنگی بجلی سے پہلے ہی پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے یورپی یونین کی حاصل منڈی چھن جانے کا جھٹکامعاشی بحالی کی حکومتی جدوجہد کوبُری طرح متاثر کر سکتاہے۔
پاکستان کاچاول کی عالمی برآمد میںاہم حصہ ہے لیکن باسمتی چاول کی شناخت کے حوالے سے پاکستان کا بھارت سے مقابلہ ہے حکومتی کاوشوں سے یورپ میں بھارت باسمتی چاول کوصرف اپنی شناخت ثابت کرنے میں ناکام ہوچکا لیکن اب بھی بھارتی لابی سرگرم ِعمل ہے اِس میں کچھ ہمارے منافع خور تاجراُس کاکام آسان کررہے ہیںجو وعدے کے مطابق معیاری جنس برآمد کرنے کا وعدہ پورا نہیں کرتے ضرورت اِس امر کی ہے کہ بھارتی چالوں کو بروقت ناکام بنانے کے ساتھ نئی منڈیاں بھی تلاش کی جائیں اورجو تاجرملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں کو سزا دینے کے لیے مناسب قانون سازی سے ہی تجارتی مقابلہ کیاجاسکتا ہے خوش قسمتی سے بنگلہ دیش جو چاول کا ایک اہم خریدار ہے اُس کی منڈی تک پاکستان کو رسائی حاصل ہو چکی جوکسی حدتک خوش آئندہے معاشی بحالی کے خواب کوپوراکرناہے تو برآمدی پیداوار بڑھانے کے ساتھ نئی تجارتی منڈیوں کی طرف پیش قدمی جاری رکھنا ہوگی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: تجارتی توازن پاکستانی مال برآمدات میں معاشی بحالی یورپی یونین پاکستان کو کچھ زیادہ حوالے سے یہ ہے کہ سکتی ہے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

ایک سال میں یواے ای اور پاکستان کا تجارتی حجم 10ارب ڈالر سے تجاوز

ابوظہبی(نیوز ڈیسک)متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر فیصل نیاز ترمزی نے پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان مضبوط تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو اجاگر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 2023-24 کے دوران دوطرفہ تجارت 10.9 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی۔متحدہ عرب امارات کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں فیصل ترمزی نے کہا، “پاکستان کی برآمدات میں 41.06 فیصد اضافہ ہوا جو 2.08 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں، جبکہ متحدہ عرب امارات سے درآمدات میں 14.45 فیصد کمی واقع ہوئی، جس کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں 28.28 فیصد کمی آئی۔”انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستانی کارکنوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم 2024 میں 6.7 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں اور 2025 میں سات ارب ڈالرز سے تجاوز کرنے کی توقع ہے۔سفیر ترمزی نے پاکستان کے ٹیلی کام، بینکنگ، رئیل اسٹیٹ اور پورٹ ڈویلپمنٹ کے شعبوں میں متحدہ عرب امارات کی نمایاں سرمایہ کاری کا اعتراف کیا۔ انہوں نے خاص طور پر ابوظہبی پورٹس اور ڈی پی ورلڈ کے کراچی پورٹ کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے معاہدوں کا ذکر کیا۔پاکستان کی اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “اس نے پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ پرکشش اور قابل رسائی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔”متحدہ عرب امارات میں مقیم 1.5 ملین مضبوط پاکستانی ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “آپ کا تعاون ہمارے دونوں ممالک کے درمیان ایک اہم پل ہے۔”سفیر نے پاکستانیوں پر زور دیا کہ وہ متحدہ عرب امارات کے قوانین کی پاسداری کریں اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ترسیلات زر کے سرکاری ذرائع استعمال کریں۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کا جمہوری طرزِ حکمرانی پر پختہ یقین ہے: اعظم نذیر تارڑ
  • حکومت نے معاشی استحکام حاصل کر لیا، جو منزل نہیں بلکہ ترقی کی بنیاد ہے، وزیر خزانہ
  • غیرمنصفانہ تجارتی رویے پر کوئی ملک ٹیرف سے نہیں بچے گا، ٹرمپ
  • الیکٹرانکس پر امریکی ٹیرف سے بچنا ممکن نہیں، ٹرمپ کی چین کو تنبیہ
  • امریکہ کے ٹیرف پر پاکستان کا محتاط رویہ، جوابی اقدام کا امکان رد
  • پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں، وفاقی وزیر سردار یوسف
  • نئی نہروں کا معاملہ سنجیدہ ہے، تحفظات سن کر فیصلہ کیا جائے، علامہ ساجد نقوی
  • پاکستان کے واحد اداکار جن کے دو ڈراموں نے یوٹیوب پر حیران کن سنگ میل عبور کرلیا
  • ایک سال میں یواے ای اور پاکستان کا تجارتی حجم 10ارب ڈالر سے تجاوز
  • پاکستانی پروڈکٹس کو عالمی منڈیوں تک رسائی دینا وقت کی اہم ضرورت ہے، وفاقی وزیر خزانہ