Nai Baat:
2025-02-12@07:03:25 GMT

سنجیدہ کاوشوں کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

سنجیدہ کاوشوں کی ضرورت

معاشی بحالی کی جدوجہدمیں کامیابی کے لیے لازم ہے کہ برآمدات میں اضافہ اوردرآمدات میں کمی لائی جائے اِس حوالے سے حکومتی کاوشیں جزوی طور پر کامیابی سے ہمکنارہوتی نظر آتی ہیں لیکن فوری توجہ کے متقاضی کئی ایسے پہلو ہیں جو ہنوزنظر انداز ہو رہے ہیں اگر ہم نے معاشی بحالی کا سنگِ میل طے کرنا ہے تو جامع حکمتِ عملی اختیار کرنا ہو گی۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایسے ممالک جن کا شمارہمارے قریبی دوست ممالک میں ہوتا ہے اُن سے بھی تجارتی توازن ہمارے حق میں نہیں بلکہ خسارہ ہے مثال کے طورپر ترکیہ جسے ہم اپنا قریبی اور بااعتماددوست ملک تصورکرتے ہےں اُس کے ساتھ بھی تجارتی توازن پاکستان کے حق میں نہیں ظاہرہے انفرادی کی بجائے حکومتی سطح پرہی مراعات کے حوالے سے گفتگوثمربارثابت ہوسکتی ہے آج بارہ فروری کو صدر رجب طیب اردوان اسلام آباد کے دوروزہ دورے پر ہیں تو حکومت کوچاہیے کہ دو طرفہ تعلقات سمیت باہمی تجارت جیسے پہلوﺅں پربھی سنجیدہ بات چیت کرے تاکہ اہم منصوبوں کے ذریعے تعاون کا فروغ اور مشترکہ اقدامات سے تجارت کو وسعت حاصل ہو۔
پاکستانی قیادت کچھ زیادہ ہی چین پر فریفتہ ہے تجارت سمیت ہر حوالے سے چین فائدے میں نظرآتا ہے وہ دنیا کے مہنگے ترین قرضے دیکر پاکستان کو جکڑنے میں مصروف ہے نیز مہنگا اور غیر معیاری سامان بھی پاکستان کوفروخت کررہا ہے اِس کے لیے چینی کمپنیوں کوہمارے بدعنوان عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے لیکن چین کو پاکستانی مال کی فروخت میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے طرفہ تماشہ یہ کہ چینی قرضہ ستائیس ارب ڈالر کے ہندے کو چھونے لگا ہے جوکہ نہایت تشویشناک امرہے کیونکہ آمدن کومدِ نظر رکھیں تو ادائیگی کی سکت کم ہوتی جارہی ہے اِس مشکل ترین صورتحال میں چینی کردارنظرانداز نہیں کیا جا سکتاکیونکہ چین کو برآمدات بڑھائے بغیر ہمارے پاس ایسے ذرائع نہیں کہ ستائیس ارب ڈالرجیسی بڑی رقم کی ادائیگی کر سکےں پاکستانی قیادت کو چاہیے کہ چین سے مزید مہنگے قرضے لینے سے گریزکرے اور برآمدات میں اضافے پر توجہ دے تاکہ قرضوں کا انبار کم ہو اور معاشی وتجارتی سرگرمیوں میں بہتری آئے۔
وسطی ایشیائی ریاستیں سنجیدہ کوششوں سے پاکستانی مال کی بہترین منڈی ثابت ہو سکتی ہیں افسوسناک امرتو یہ ہے کہ یہاں بھی تجارتی توازن پاکستان کے حق میں نہیں بلکہ خسارہ بڑھتا جارہا ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں مگر اِس حقیقت کو مکمل طورپر جھٹلانا بھی ممکن نہیں کہ پاکستانی مال کومحصولات سمیت پیچیدہ راہداری جیسی رکاٹوں کا سامنا ہے جنھیں دورکرنا کچھ زیادہ مشکل نہیںحکومتی توجہ سے وسطی ایشیائی ریاستوں کو برآمدات میں اضافہ ممکن ہے مگر شرط یہ ہے کہ حکومت دعوﺅں پر انحصار چھوڑ کر عملی اقدامات پر توجہ دے اورمحصولات کم کرانے کے ساتھ محفوظ و آسان راہداری یقینی بنائے ۔
امریکہ ایسا ملک ہے جوپاکستانی مال کی بڑی منڈی اور تجارتی توازن بھی پاکستان کے حق میں ہے جو گیارہ ارب ڈالرکے لگ بھگ ہے مگر ٹرمپ انتطامیہ درآمدات پر محصولات بڑھانے کی روش پر گامزن ہے اب جبکہ امریکہ کو پاکستان کی کچھ زیادہ ضرورت نہیں رہی اور دونوں ممالک کے تعلقات سردمہری کا شکارہیںتو اندیشہ ہے کہ کسی وقت بھی یہ تجارتی منافع بخش منڈی چھن سکتی ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ حکومت ایسی نوبت آنے سے قبل ہی ایسے اقدامات اُٹھائے کہ پاکستانی مال محصولات کی زَد میں آنے سے محفوظ رہے اِس کے لیے بہترین حکمتِ عملی یہ ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ سے دوطرفہ روابط بڑھائے جائیں چین ہماری دفاعی اور مالی ضرورت سہی لیکن ایک بڑی عالمی اور دفاعی طاقت امریکہ سے بھی بہتر تعلقات ہماری ضرورت ہیں ۔
یورپی یونین بھی پاکستان کی ایک ایسی اہم تجارتی شراکت دار ہے جہاں پاکستانی مصنوعات پر عائد محصولات میں نرمی ہے کیونکہ پاکستان کو Generalized Scheme of Preference )جی ایس پی پلس )کا درجہ حاصل ہے یہ درجہ تبھی بحال رہ سکتا ہے جب پاکستان بنیادی انسانی حقوق،ماحولیاتی تحفظ اور گُڈ گورننس سے متعلق ستائیس بین الا قوامی کنونشنز کی پاسداری کرے جن ممالک کو یورپی یونین نے جی ایس پی پلس کا درجہ دے رکھاہے ان کی مسلسل نگرانی بھی کرتی ہے ویسے تو اکتوبر2023 میں پاکستان کو اِس حوالے سے حاصل مراعات میں 31 دسمبر2027 تک توسیع کردی گئی تھی جس کے نتیجے میں یورپی یونین کو ٹیکسٹائل برآمدات میں 108 فیصداضافہ دیکھنے میں آیا مگریورپی یونین کے وفدکا حالیہ دورہ پاکستان کچھ زیادہ خوشگوار نہیںرہاوفدنے فوجی عدالتوں اور انسانی حقوق سمیت کچھ دیگر کنونشنز پر عملدرآمد نہ ہونے کی بناپر تحفظات کا اظہار کیا اِس صورتحال کے ذمہ دارپی ٹی آئی کے مغربی ممالک میں متحرک عہدیدار بھی ہیں جنھوں نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کاشورمچایا ہماری زیادہ ٹیکسٹائل مصنوعات امریکہ اور یورپی یونین میں شامل ممالک کوبرآمد کی جا تی ہےں یورپی یونین کی طرف سے تحفظات کا اظہاراب صنعتی شعبے کے لیے سخت پریشانی کا باعث ہے جرمن ٹیکسٹائل میلے میں پاکستانی برآمدکنندگان کو غیر معمولی آرڈر بھی ملے لیکن اگر حاصل ترجیحی درجہ ختم ہو تا ہے تو پاکستانی مصنوعات بھی محصولات کی زَد میں آجائیں گی ایسی صورتحال تجارتی حوالے سے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے یورپی یونین کے تحفظات بروقت دور کرنے سے ترجیحی درجہ برقراررکھا جا سکتا ہے وگرنہ فائدہ مند تجارتی منڈیاں کھونے سے معاشی بحالی کی جدوجہد رائگاں جا سکتی ہے مہنگی بجلی سے پہلے ہی پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے یورپی یونین کی حاصل منڈی چھن جانے کا جھٹکامعاشی بحالی کی حکومتی جدوجہد کوبُری طرح متاثر کر سکتاہے۔
پاکستان کاچاول کی عالمی برآمد میںاہم حصہ ہے لیکن باسمتی چاول کی شناخت کے حوالے سے پاکستان کا بھارت سے مقابلہ ہے حکومتی کاوشوں سے یورپ میں بھارت باسمتی چاول کوصرف اپنی شناخت ثابت کرنے میں ناکام ہوچکا لیکن اب بھی بھارتی لابی سرگرم ِعمل ہے اِس میں کچھ ہمارے منافع خور تاجراُس کاکام آسان کررہے ہیںجو وعدے کے مطابق معیاری جنس برآمد کرنے کا وعدہ پورا نہیں کرتے ضرورت اِس امر کی ہے کہ بھارتی چالوں کو بروقت ناکام بنانے کے ساتھ نئی منڈیاں بھی تلاش کی جائیں اورجو تاجرملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں کو سزا دینے کے لیے مناسب قانون سازی سے ہی تجارتی مقابلہ کیاجاسکتا ہے خوش قسمتی سے بنگلہ دیش جو چاول کا ایک اہم خریدار ہے اُس کی منڈی تک پاکستان کو رسائی حاصل ہو چکی جوکسی حدتک خوش آئندہے معاشی بحالی کے خواب کوپوراکرناہے تو برآمدی پیداوار بڑھانے کے ساتھ نئی تجارتی منڈیوں کی طرف پیش قدمی جاری رکھنا ہوگی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: تجارتی توازن پاکستانی مال برآمدات میں معاشی بحالی یورپی یونین پاکستان کو کچھ زیادہ حوالے سے یہ ہے کہ سکتی ہے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

اسرائیلی وزیراعظم کا بیان اشتعال انگیز، غیر سنجیدہ اور ناقابل قبول ہے، اسحاق ڈار

اسلام آباد سے جاری اپنے ایک بیان میں ڈپٹی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے فلسطینی کاز کے غیر متزلزل عزم کو غلط رنگ دینا افسوسناک ہے۔ فلسطینی عوام کا 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق آزاد ریاست کا حق مسلمہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان نے اسرائیلی وزیراعظم کے غیر ذمہ دارانہ بیان کی مذمت کی ہے۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کا بیان اشتعال انگیز، غیر سنجیدہ اور ناقابل قبول ہے۔ اسلام آباد سے جاری اپنے ایک بیان میں ڈپٹی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور آزاد ریاست کے جائز حق کی حمایت کرتا ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے فلسطینی کاز کے غیر متزلزل عزم کو غلط رنگ دینا افسوسناک ہے۔ فلسطینی عوام کا 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق آزاد ریاست کا حق مسلمہ ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ القدس الشریف فلسطین کا دارالحکومت ہے اور رہے گا۔ فلسطینیوں کی بےدخلی کی کوئی بھی تجویز عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور عالمی انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ناقابل قبول ہے۔ دریں اثناء ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ پاکستان فلسطینیوں کے حقوق کیلئے عالمی برادری سے مل کر کام کرتا رہے گا۔ ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان عالمی برادری کے ساتھ اسرائیلی وزیراعظم کے اشتعال انگیز بیان کی مذمت کرتا ہے، عالمی برادری اسرائیل کو امن عمل کو نقصان پہنچانے کی مسلسل کوششوں پر جوابدہ ٹھہرائے۔

متعلقہ مضامین

  •  عالمی منڈی میں باسمتی چاول پر حق ملکیت پاکستان جیت گیا، بھارت کو شکست
  • غزہ کا کنٹرول اور کینیڈا کو ریاست بنانے میں سنجیدہ ہوں، ٹرمپ
  • سوشل میڈیا کو سنجیدہ لینا چاہیے؟
  • غزہ کو خریدنے اور اس کی ملکیت حاصل کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہیں. ڈونلڈ ٹرمپ
  • ماورا حسین کی بھارتی فلم”صنم تیری قسم” کا دوبارہ ریلیز پر شاندار کم بیک
  • پریم یونین کی کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلی
  • اسرائیلی وزیراعظم کا بیان اشتعال انگیز، غیر سنجیدہ اور ناقابل قبول ہے، اسحاق ڈار
  • اسرائیلی وزیراعظم کا بیان اشتعال انگیز، غیر سنجیدہ اور ناقابل قبول ہے، پاکستان
  • ماورا حسین کی بھارتی فلمصنم تیری قسم کا دوبارہ ریلیز پر شاندار کم بیک