سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی: پس منظر اور پیش منظر
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
سپریم کورٹ میں عام طور پر ہائیکورٹ سے ہی جج لیے جاتے ہیں۔ آئین کی دفعہ 177، ذیلی 2، شق بی کی رو سے ہائیکورٹ میں 15 سال وکالت کا تجربہ رکھنے والے کسی وکیل کو بھی براہِ راست سپریم کورٹ کا جج بنایا جاسکتا ہے لیکن تاحال ایسا ہوا نہیں ہے۔
سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد کا تعین قانون سازی کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ پچھلے سال تک یہ تعداد 17 تھی جسے قانون میں ترمیم کرکے 34 کردیا گیا ہے۔ 10 فروری کو جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ کےلیے 6 مستقل ججوں اور ایک قائم مقام جج کے نام منظور کیے ہیں جسے ’کورٹ پیکنگ‘ کا نام دیا جارہا ہے۔ اس معاملے کی حقیقت سمجھنے کےلیے ماضی میں جھانکنا ضروری ہے کیونکہ موجودہ صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی ہے۔
ججوں کی تعیناتی کا اصل طریقِ کار1973ء کے اصل آئین کی دفعہ 177 میں طے کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی صدر کریں گے جبکہ سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کی تعیناتی صدر چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے۔ دوسری طرف چونکہ آئین نے دفعہ 48 میں تصریح کی تھی کہ صدر وزیرِ اعظم کے مشورے کا پابند ہے، اس لیے عموماً تعیناتیوں میں اہم کردار وزیرِ اعظم کا ہوتا تھا۔ 1996ء میں الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے نے چیف جسٹس آف پاکستان کےلیے سینیارٹی کا اصول طے کیا اور دیگر ججوں کی تعیناتی میں چیف جسٹس کی رائے کو بنیادی حیثیت دے دی۔
18 ویں اور 19 ویں ترامیم کے بعد2010ء میں 18 ویں ترمیم نے چیف جسٹس کے لیے سینیارٹی کے اصول کو آئین کے متن کا حصہ بنادیا اور دیگر ججوں کی تعیناتی کےلیے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کے ادارے تخلیق کیے۔ اب نامزدگی جوڈیشل کمیشن سے آنی تھی جس کی توثیق پارلیمانی کمیٹی نے کرنی تھی۔ پارلیمانی کمیٹی کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جوڈیشل کمیشن کے نامزد کردہ نام کو تین چوتھائی اکثریت سے مسترد کرسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیر سے متعلق 3 اہم قانونی سوالات
اس مؤخر الذکر شق کو وکلا کی تنظیموں نے عدلیہ کی آزادی پر حملہ تصور کرتے ہوئے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے جو فیصلہ دیا، اس نے 2011ء میں پارلیمان کو 19 ویں ترمیم منظور کرنے پر مجبور کیا جس کے بعد پارلیمانی کمیٹی پر لازم کیا گیا کہ وہ جوڈیشل کمیشن کی نامزدگی کی توثیق نہ کرنے کی تحریری وجوہات پیش کرے۔ اس کے بعد پارلیمانی کمیٹی نے ایک آدھ بار کسی نامزدگی کو روکنے کی کوشش کی، تو اسے سپریم کورٹ نے دیگر فیصلوں کے ذریعے غیر مؤثر کردیا اور یوں پارلیمانی کمیٹی کی حیثیت محض ایک ربر سٹیمپ کی ہوگئی۔
جوڈیشل کمیشن رولز اور چیف جسٹس کا کردار2010ء میں جوڈیشل کمیشن نے جو رولز بنائے، ان میں مرکزی حیثیت چیف جسٹس کو دے دی ۔ اس کے بعد جوڈیشل کمیشن پابند ہوگیا کہ وہ انھی ناموں پر غور کرے جو چیف جسٹس نے پیش کیے ہوں۔ چنانچہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی مرضی ہوئی تو ہائیکورٹ آف سندھ کے سینیئر ججوں کو نظر انداز کرکے جونیئر جج جسٹس منیب اختر کو نامزد کیا اور وہ سپریم کورٹ کے جج بن گئے۔ پھر چیف جسٹس گلزار احمد کی مرضی ہوئی تو ہائی کورٹ آف سندھ اور لاہور ہائیکورٹ کے سینیئر ججوں کو نظر انداز کرکے جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کا جج بنادیا۔ اسی طرح چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی مرضی ہوئی تو ہائیکورٹ آف سندھ اور لاہور ہائیکورٹ کے سینیئر ججوں کو نظر انداز کرکے جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید کو سپریم کورٹ کا جج بنادیا۔
مزید پڑھیے: 26 ویں ترمیم کے بعد اصل مسئلہ: چیف جسٹس کی تعیناتی
ان تعیناتیوں کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ ان میں تقریباً سب نے چیف جسٹس آف پاکستان بننا تھا اور یوں 2018ء سے 2032ء تک بندوبست کردیا گیا۔ درمیان میں صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مسئلہ ہونا تھا، باقی راستہ صاف تھا اور اگر معاملہ اسی طرح چلتا جیسا کہ سوچا گیا تھا تو چیف جسٹس بندیال سے شروع ہونے والے ’سلسلۃ الذہب‘ (golden chain) جسٹس شاہد وحید پر ختم ہونا تھا جن کو 65 سال کی عمر تک پہنچنے پر 24 دسمبر 2031ء کو ریٹائر ہونا تھا۔ اسی معاملے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ بعض ججوں کو سپریم کورٹ ذرا تاخیر سے لایا گیا حالانکہ وہ دیگر ججوں سے سینیئر تھے اور یوں ان کے چیف جسٹس آف پاکستان بننے کا امکان نہیں رہا۔
26 ویں ترمیم کا مخمصہاس پس منظر میں جب پچھلے سال پارلیمان نے 26 ویں ترمیم منظور کی تو اس نے ججوں کی تعیناتی کا نظام ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ اس ترمیم کے بعد جیوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کی دوئی ختم کرکے ان کو ایک ادارہ بنادیا گیا۔ اس نوتشکیل شدہ کمیشن کی ساخت یوں رکھی گئی کہ عام حالات میں اس کی اکثریت حکومت کے پاس رہے۔ اگرچہ یہ امکان موجود ہے کہ کمیشن میں موجود جج اور اپوزیشن کے ارکان متحد ہوں تو اکثریت ان کے پاس آجائے لیکن ابھی تک ایسا ہوا نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ ایک سنگین آئینی بحران کے دہانے پر
10 فروری کے اجلاس میں کمیشن کے 4 ارکان نے بائیکاٹ کیا جن میں سے 2 کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا (بیرسٹر گوہر علی خان اور سینیٹر علی ظفر) جبکہ 2 جج تھے (جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر) جبکہ باقی 9 ارکان نے کارروائی جاری رکھی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر نامزدگی پر 2 ارکان (جسٹس جمال خان مندوخیل اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین ایڈووکیٹ سپریم کورٹ) نے اختلاف کیا جبکہ 7 ارکان نے اس نامزدگی کے حق میں ووٹ دیا۔ اگر دیگر 4 ارکان نے بائیکاٹ نہ کیا ہوتا تو مخالفت کرنے والے 6 ارکان ہوتے۔ ایسے میں اگر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی بھی ان کے ساتھ ہوتے تو یہ نامزدگی نہ ہوپاتی۔ چیف جسٹس کے متعلق ان کے مخالفین کے مفروضے اپنی جگہ لیکن اس امکان کا انکار کیسے کیا جاسکتا ہے؟ بہرحال موجودہ صورتحال میں اگر کمیشن میں حکومت کا پلڑا بھاری ہے تو اس کی بڑی وجہ کمیشن میں موجود ججوں کا اختلاف ہے۔
یہ بھی پڑھیے: 190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان کے خلاف فیصلے کی اصل نوعیت
اس وجہ سے میری ناقص رائے میں ججوں کی تعیناتی کے معاملے میں کمیشن کی ساخت میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، نہ ہی حکومت کا پلڑا بھاری ہونے سے لازماً عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑتی ہے، بالخصوص جبکہ اصل آئین میں اس معاملے کو صرف صدر، وزیرِ اعظم اور چیف جسٹس کی حد تک محدود رکھا گیا تھا۔ البتہ 26 ویں ترمیم کے بعد بننے والے آئینی بینچ کی تشکیل کےلیے کمیشن کے اختیار پر یقیناً اعتراض کیا جاسکتا ہے لیکن اس پہلو کو ہم 26 ویں ترمیم پر بحث تک مؤخر کردیتے ہیں اور سپریم کورٹ میں ایک اور تعیناتی پر بات کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں قائم مقام جج کی تعیناتیکمیشن نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ میں قائم مقام جج کے طور پر تعینات کرنے کی بھی منظوری دی۔ آئین کی دفعہ 181 کے تحت سپریم کورٹ میں خالی اسامی پر ہائیکورٹ کے کسی جج کی بطورِ قائم مقام جج تعیناتی کی جاسکتی ہے۔ کمیشن کے اجلاس میں یہ تجویز چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے دی جسے تمام موجود (9) ارکان نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ اس تجویز کا سبب یہ ذکر کیا گیا کہ سپریم کورٹ میں ٹیکس سے متعلق مقدمات کی بڑی تعداد زیرِ التوا ہے اور جسٹس میاں گل کو ان امور میں مہارت حاصل ہے۔
مزید پڑھیں: ایک انسان کی زندگی بچانے کےلیے کتنی رقم صرف کرنی چاہیے؟
سوال یہ ہے کہ جسٹس میاں گل کو مستقل جج بنانے کے بجائے قائم مقام جج کیوں بنایا گیا؟ قائم مقام جج کو ضرورت پوری ہونے پر واپس ہائیکورٹ میں بھیجا جاسکتا ہے اور وہاں اس کی سینیارٹی اور دیگر مراعات محفوظ رہتی ہیں۔ تاہم سپریم کورٹ میں بطورِ مستقل جج اس کی تعیناتی کےلیے الگ سے کمیشن کی جانب سے نامزدگی اور باقی قانونی تقاضے پورے کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ماضی میں قائم مقام ججوں کی تعیناتی کی 5 مثالیں ملتی ہیں جن میں 2 جنرل ضیاء الحق کے مارشل کے دور کی ہیں (جسٹس ایم ایس ایچ قریشی اور جسٹس میاں برہان الدین خان) اور 3 محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور کی ہیں (جسٹس محمد منیر خان، جسٹس میر ہزار خان کھوسو اور جسٹس مختار احمد جونیجو)۔ ان میں صرف ایک جج (جسٹس جونیجو) کو بعد میں سپریم کورٹ کا مستقل جج بنایا گیا۔ تو کیا جسٹس میاں گل کے سر پر (ہائیکورٹ میں واپسی) کی تلوار لٹکتی رہے گی؟ اس صورت میں کیا وہ آزادانہ فیصلے دے سکیں گے؟
بعض لوگوں کی رائے میں اس قائم مقام تعیناتی کا سبب یہ ہے کہ ان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس نہ بننے دیا جائے۔ تاہم یہ رائے درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ 26 ویں ترمیم کے ذریعے طے کیا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کے 3 سینیئر ججوں میں کسی ایک کو چیف جسٹس بنایا جائے گا (26 ویں ترمیم سے قبل بھی پچھلے سال اس اصول پر لاہور ہائیکورٹ میں تیسرے نمبر پر جسٹس عالیہ نیلم کو چیف جسٹس بنایا گیا تھا)۔ اس لیے خواہ جسٹس میاں گل اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہی رہتے، اور خواہ تیسرے سینیئر جج کے طور پر ان کا نام بھی زیرِ غور آتا، ان کی جگہ پہلے نمبر پر موجود جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کو چیف جسٹس بنایا جاسکتا تھا۔ تو کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ جسٹس میاں گل کو جسٹس ڈوگر کی بہ نسبت بہتر امیدوار سمجھا جارہا ہے اور اس وجہ سے ان کو مقابلے سے باہر کیا جارہا ہے؟ یا جسٹس میاں گل کو بعد میں سپریم کورٹ کا مستقل جج بنایا جائے گا، تو ان کے لیے سپریم کورٹ میں طویل عرصہ کام کرنے کا (2035ء تک) موقع بھی ہوگا اور شاید چیف جسٹس آف پاکستان بھی بن سکیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو ان کو ابھی سے مستقل جج کیوں نہیں بنایا گیا؟
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتیآگے سب سے اہم مسئلہ یہ درپیش ہوگا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس کون ہوں گے؟ آئین کی رو سے سب سے سینیئر جج کو قائم مقام چیف جسٹس بنانا لازم ہے۔ چند دن قبل لاہور ہائیکورٹ سے تبادلے پر آئے ہوئے جسٹس ڈوگر اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہلے سے موجود 7 ججوں (بشمول جسٹس میاں گل) سے سینیئر ہیں، اگر ہائیکورٹ کے ججوں کی سینیارٹی کو ان کے بطور ایڈیشنل جج ہائیکورٹ تعیناتی کی تاریخ سے شمار کیا جائے، جیسا کہ سپریم کورٹ نے کئی فیصلوں میں طے کیا ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے: جسٹس محمد فرخ عرفان خان بنام وفاقِ پاکستان (پی ایل ڈی 2019 سپریم کورٹ 509)۔
یہ بھی پڑھیں: کیا غیر منصفانہ قانون کی پابندی لازم ہے؟
اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہلے سے موجود 5 ججوں نے جسٹس ڈوگر کی سینیارٹی پر اعتراض کیا جسے چیف جسٹس عامر فاروق نے مسترد کردیا ہے لیکن یہ مسئلہ یقیناً بڑی جنگ کی طرف جائے گا۔ اگر یہ معاملہ اندرونی طور پر حل نہ ہوا اور مقدمے تک بات گئی تو جب تک 26 ویں ترمیم موجود ہے، سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت صرف آئینی بنچ ہی کرسکے گا اور اس آئینی بینچ کی تشکیل جوڈیشل کمیشن ہی کرسکے گا۔
گویا انگریزی محاورے کے مطابق: واپس پہلے خانے میں!
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
26 ویں ترمیم کا مخمصہ اسلام آباد ہائیکورٹ چیف جسٹس ججز تعیناتی طریقہ کار جوڈیشل کمیشن اور چیف جسٹس سپریم کورٹ ججز کی تعیناتی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 26 ویں ترمیم کا مخمصہ اسلام ا باد ہائیکورٹ چیف جسٹس ججز تعیناتی طریقہ کار جوڈیشل کمیشن اور چیف جسٹس سپریم کورٹ ججز کی تعیناتی اسلام آباد ہائیکورٹ چیف جسٹس آف پاکستان پارلیمانی کمیٹی ججوں کی تعیناتی جسٹس میاں گل کو لاہور ہائیکورٹ سپریم کورٹ میں کو سپریم کورٹ کہ سپریم کورٹ سپریم کورٹ کے سپریم کورٹ کا جوڈیشل کمیشن ہائیکورٹ میں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی کے چیف جسٹس جاسکتا ہے دیگر ججوں ویں ترمیم بنایا گیا کے طور پر ترمیم کے کمیشن کی ارکان نے کمیشن کے اور جسٹس ججوں کو دیا گیا گیا تھا کیا گیا آئین کی کے بعد طے کیا یہ بھی گیا کہ
پڑھیں:
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے جوڈیشل کمیشن اجلاس کا بائیکاٹ کردیا
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ایک طرف سپریم کورٹ کے اطراف وکلا کی جانب سے ججز کی تعیناتی اور چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے تو تو دوسری جانب سپریم کورٹ کے اندر چیف جسٹس کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس جاری ہے، جس میں سپریم کورٹ میں 8 نئے ججز کی تعیناتی کے حوالے سے غور کیا جا رہا ہے۔ جبکہ دو ججز نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہے۔
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں سپریم کورٹ میں آٹھ نئے ججز کی تعیناتی پر غور ہو رہا ہے اور تمام ہائیکورٹس کے چیف جسٹس سمیت سینئر ججز کے ناموں پر بھی تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق دو ججز جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے جوڈیشل کمیشن اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ بلڈنگ اور اس کے اطراف سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ ڈی آئی جی سیکیورٹی علی رضا کی سربراہی میں سیکیورٹی امور کی نگرانی کی جا رہی ہے۔