Jasarat News:
2025-02-12@04:17:47 GMT

خط لکھیں گے چاہے کچھ مطلب نہ ہو

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

خط لکھیں گے چاہے کچھ مطلب نہ ہو

اب تو موبائل اور انٹرنیٹ نے خط لکھنے کی روایت تقریباً ختم کردی ہے لیکن ایک زمانہ تھا جب اپنے احباب اور محبوب شخصیات سے رابطے کا واحد ذریعہ خط ہوا کرتا تھا۔ ڈاک کا محکمہ بھی بہت عرصے بعد وجود میں آیا اور خط کی ترسیل آسان ہوگئی ورنہ ایک زمانہ وہ بھی گزرا ہے جب لوگ خط مکتوب الیہ تک پہنچانے کے لیے نامہ بر یا قاصد کی خدمات حاصل کرتے تھے۔ وہ خط منزلِ مقصود تک پہنچاتا بھی تھا اور وہاں سے جواب بھی لے کر آتا تھا۔ اسی لیے غالبؔ نے کہا ہے کہ

قاصد کے آتے آتے خط اِک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں کیا وہ لکھیں گے جواب میں

نامہ بر یا قاصد کے ہاتھ خط بھیجنے میں بہت خدشات تھے، یہ بھی ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں نامہ بر خط دینے کے بجائے خود دوستی کی پینگیں بڑھا بیٹھے اور قاصد کے بجائے رقیب کا روپ نہ اختیار کرلے۔ میر تقی میر کو شاید ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا اسی لیے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ

کچھ خلل راہ میں ہوا اے میرؔ
نامہ بر کب سے لے گیا ہے خط

اللہ بھلا کرے محکمہ ٔ ڈاک کا جس نے ظہور پزیر ہو کر یہ مشکل آسان کردی اور خط بھیجنے اور وصول کرنے والے کے درمیان براہِ راست رابطہ آسان بنادیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مشاہیر ِ علم و ادب نے بھی خط نگاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور اردو نثر میں ایک نئی صنف ِ ادب کا اضافہ کیا ہے۔ خطوطِ غالب کو اس حوالے سے فوقیت حاصل ہے۔ مرزا غالبؔ پٹے پٹائے رستے پر چلنے کے قائل نہ تھے وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جب میں نے ڈاڑھی رکھی تو سر منڈا دیا جبکہ عام چلن سے مختلف نظر آئوں، اسی طرح جب انہوں نے اپنے احباب کو خط لکھنے کا شغل اختیار کیا تو اسے مکالمے اور بات چیت کی زبان بنادیا۔ خط کو ’’آدھی ملاقات‘‘ کہتے ہیں لیکن غالب آدھی ملاقات کے قائل نہ تھے۔ انہوں نے اسے پوری ملاقات کا درجہ دے دیا۔ آپ ’’خطوط غالب‘‘ پڑھیے آپ کو اندازہ ہوگا کہ مرزا خط نہیں لکھ رہے بلکہ مخاطب کو سامنے بٹھا کر اس سے باتیں کررہے ہیں اور اپنی بذلہ سنجی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ان کے بعد بعض ادیبوں نے غالب کے طرز کو اپنانے کی کوشش کی۔ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔

مولانا ابوالکلام آزاد کا معاملہ بھی غالبؔ سے مختلف نہ تھا وہ بھی عام روش پر چلنے کے خلاف تھے۔ مولانا آزاد جیل میں نظر بند تھے تو انہوں نے وہاں وقت گزاری کے لیے اپنے عزیز دوست کو خط لکھنے کا شغل اختیار کرلیا۔ یہ خطوط پابندیوں کے سبب اپنی منزل پر تو نہ پہنچ سکے لیکن بعد میں ’’غبارِ خاطر‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہو کر ادبی دنیا میں تہلکا مچادیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ’’غبارِ خاطر‘‘ کی مرصع نثر نے شاعری کو مات دے دی اور ہم جیسے کم سواد اِسے مدتوں سرہانے رکھ کر سوتے رہے۔ ظاہر ہے کہ ایک زمانے میں ٹیلی فون کی سہولت بھی میسر نہ تھی اور عام و خاص سبھی ایک دوسرے سے رابطے کے لیے خط لکھنے پر مجبور تھے۔ مشاہیر علم و ادب نے اپنے ہم عصروں کو جو خطوط لکھے وہ علمی و ادبی حوالہ بن گئے اور آج بھی ان کی تاریخی اہمیت برقرار ہے۔ مثلاً علامہ اقبال نے لندن میں مقیم محمد علی جناح کو جو خطوط لکھے وہ تحریک پاکستان کے حوالے سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان خطوط کے نتیجے ہی میں جناح صاحب ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ ہوئے اور قائداعظم کہلائے۔ علامہ اقبال کی اپنے ہم عصر شاعر اکبر الہ آبادی سے بھی بڑی دوستی تھی ان دونوں کی خط و کتابت بھی بہت مشہور ہے۔

ہمارے دور میں سید مودودیؒ کے خطوط کا بہت چرچا ہے۔ سید صاحب اپنی بے پناہ علمی مصروفیات کے باوجود ہر خط کا جواب ضرور دیتے تھے۔ آخری برسوں میں یہ کام معاون خصوصی ملک غلام علی کے سپرد تھا۔ وہ سید صاحب کی طرف سے جواب لکھتے اور وہ اس پر نظرثانی کرکے سپرد ڈاک کردیتے۔ تاہم سید مودودی کے قلم سے لکھے گئے خطوط کا ایک ڈھیر ہے جسے مختلف لوگوں نے مرتب کیا ہے۔ مکاتب کے ان مجموعوں کی تعداد دس کے قریب بنتی ہے۔ آخری مجموعہ ’’مکاتب سید مودودی‘‘ کے زیر عنوان پروفیسر نور ور جان نے مرتب کیا ہے اور ادارہ معارف اسلامی منصورہ نے اسے چھاپا ہے۔ سید مودودی اردو نثر نگاری میں اپنی مثال نہیں رکھتے۔ خطوط بھی ان کی انشا پر دازی کا بہترین نمونہ ہیں ان میں تحریک آزادی ہو، تحریک پاکستان، برطانوی ہند کے اہم حالات و واقعات، معاصر شخصیتوں کا تعارف اور بہت سے مباحث سمٹ آئے ہیں۔ خطوط نگاری میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا نام بھی آتا ہے جو ہمارے عہد کے نامور اسلامی اسکالر تھے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد پیرس چلے گئے اور وہیں سیرت رسولؐ پر معرکے کی کتابیں تحریر کیں۔ ان کی زندگی سادگی اور نفاست کا نادر نمونہ تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے دوست محمد طفیل مقیم پیرس کے نام جو خطوط ارسال کیے انہیں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی مرحوم نے مرتب کیا ہے اور زبان و بیان کے اعتبار سے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ غالب نے کہا تھا

خط لکھیں گے چاہے کچھ مطلب نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے!

لیکن وہ زمانہ گیا جب لوگ بغیر کسی مطلب کے خط لکھا کرتے تھے۔ اب تو لوگ بغیر مطلب کے سلام بھی نہیں کرتے۔ اِن دنوں عمران خان کے ایک خط کا بڑا چرچا ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ خط آرمی چیف سید عاصم منیر کے نام لکھا ہے۔ تاہم سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کو یہ خط موصول نہیں ہوا۔ جناب عرفان صدیقی نے اس پر یہ مطلع ارشاد فرمایا ہے کہ خط موصول ہو بھی جائے تو اس کا نہ جواب دیا جائے گا نہ اس کی وصولی کی رسید بھیجی جائے گی۔ خط کا متن عمران خان کی جانب سے جاری نہیں کیا گیا لیکن سوشل میڈیا پر اس کی خوب تشہیر ہوچکی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خان صاحب نے گورننس کے بارے میں کچھ گلے شکوے کیے ہیں اور کچھ مشورے دیے ہیں۔ چونکہ یہ ساری باتیں سیاسی نوعیت کی ہیں اس لیے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ آرمی چیف اس خط کا جواب دینے کے پابند نہیں ہیں وہ آئین کے تحت اٹھائے گئے حلف کے مطابق سیاست سے قطعی طور پر لاتعلق ہیں۔ یہ بات وہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کے ساتھ ایک ملاقات میں بھی کہہ چکے ہیں۔ عمران خان آرمی چیف کو سیاست میں گھسیٹنا چاہتے ہیں جبکہ وہ سختی کے ساتھ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اسے ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ البتہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ

یہ تماشا دکھائے گا کیا سین
پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

بعض ستم ظریف عمران خان کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ غالبؔ کے اسی قول پر عمل کریں جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے یعنی

’’خط لکھیں گے چاہے کچھ مطلب نہ ہو‘‘

خان صاحب خط لکھتے رہیں اور مطلب سے غرض نہ رکھیں۔ مطلب نکالنے والے خود نکال لیں گے۔ آخر سوشل میڈیا کس مرض کی دوا ہے!

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ا رمی چیف انہوں نے خط لکھنے رہے ہیں ہیں اور ہے کہ ا کیا ہے

پڑھیں:

قائد حزب اختلاف شبلی فراز کے چیئرمین سینیٹ کو خطوط

   فائل فوٹو۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے چیئرمین سینیٹ کو 2 خط لکھ دیے۔ پہلے خط میں شبلی فراز نے ثانیہ نشتر کے استعفے کو منظور نہ کرنے پر سوال اٹھایا، دوسرا خط سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر لکھا۔ 

شبلی فراز کے خط کے متن کے مطابق سینیٹ کا 346واں سیشن 13 فروری کو طلب کیا گیا ہے، گزشتہ سیشن میں اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے گئے تھے لیکن عمل نہ ہوا، پنجاب حکومت کی جانب سے پروڈکشن آرڈر کی تکمیل پر تعاون نہیں کیا گیا۔ 

خط کے متن کے مطابق شبلی فراز نے کہا کہ اعجاز چوہدری کا یہ حق ہے کہ انہیں سینیٹ سیشن میں لایا جائے، پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سمیت ان کی سیشن میں شرکت یقینی بنائی جائے۔

یہ بھی پڑھیے کے پی کو سینیٹ میں 1 سال سے نمائندگی نہیں دی گئی: شبلی فراز حکومت 4 ماہ کی مہمان، رعایت یا بھیک نہیں مانگ رہے، شبلی فراز

انھوں نے مزید کہا کہ ثانیہ نشتر مارچ 2021ء میں خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی ٹکٹ پر سینیٹر بنیں، ثانیہ نشتر نے 18 ستمبر 2024 کو سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ دیا۔ 

شبلی فراز کے خط کے مطابق حیرت انگیز طور پر ثانیہ نشتر کے مستعفی ہونے کا نوٹیفکیشن ابھی تک جاری نہیں کیا گیا، پانچ ماہ گزرنے کے باوجود ثانیہ نشتر کی نشست کو خالی قرار نہیں دیا گیا۔ 

دوسری جانب سینیٹر محمد قاسم کی نشست کو خالی قرار دے دیا گیا۔ شبلی فراز کے خط کے مطابق پوچھنا چاہتا ہوں کہ ثانیہ نشتر کی نشست خالی کیوں نہ قرار دی گئی۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کے خطوط کاپیغام پہنچ گیا کہ فوج اور پی ٹی آئی میں کوئی خلیج نہیں ہونی چاہیئے
  • قائد حزب اختلاف شبلی فراز کے چیئرمین سینیٹ کو خطوط
  • انتہا پسند قابض ذہنیت فلسطینی علاقوں کا مطلب نہیں سمجھ رہی، سعودی عرب
  • پاکستان کی تاریخ میں سیاسی مراسلت کا اثر