میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یو ایس ایڈ کرپٹ ادارہ ہے، اگر جج کہے کہ ہم کسی عمل کا جائزہ نہیں لے سکتے تو یہ ملک کیلئے افسوسناک ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ جو عدالت کہے کہ صدر یا کوئی عہدیدار معاملات کا جائزہ نہیں لے سکتا تو وہ ملک ہی نہیں ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومتی اخراجات میں کٹوتی کے معاملے پر ججوں کی جانب سے مخالفت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امید ہے کہ جج مجھے وہ کرنے دیں گے، جس کے لیے عوام نے مجھے منتخب کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مختلف ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے، اس موقع پر ایلون مسک بھی ان کے ہمراہ تھے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ بہت بڑے پیمانے پر دھوکہ دیا جا رہا ہے، جج ہمیں فراڈ کا پتہ چلانے سے کیسے روک سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں ہمیشہ عدلیہ کے فیصلے پر عمل کرتا ہوں، عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کریں تو معاملے میں تاخیر ہوتی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یو ایس ایڈ کرپٹ ادارہ ہے، اگر جج کہے کہ ہم کسی عمل کا جائزہ نہیں لے سکتے تو یہ ملک کے لیے افسوس ناک ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ جو عدالت کہے کہ صدر یا کوئی عہدیدار معاملات کا جائزہ نہیں لے سکتا تو وہ ملک ہی نہیں ہوگا۔ ایلون مسک حکومتی استعداد کار سے متعلق محکمے کا دفاع کرنے ٹرمپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے، انہوں نے کہا کہ محکمہ خزانہ میں ادائیگی کے نظام میں خرابیاں دور کریں گے۔ فلسطینیوں کو فنڈنگ سے متعلق بیان جھوٹا ثابت کرنے پر مسک نے صحافیوں سے کہا کہ میری کہی ہوئی کچھ چیزیں ٹھیک ہوسکتی ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کا جائزہ نہیں لے امریکی صدر نے کہا کہ

پڑھیں:

پارلیمان کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار ہے، حسن رضا پاشا

اسلام آباد:

ماہر قانون حسن رضا پاشا کا کہنا ہے کہ بار ایسوسی ایشنز کے علاوہ بار کونسل بھی ہے، اس میں مین پاکستان بار کونسل ہے جو پورے پاکستان کے وکلا برادری کی نمائندہ ہے۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمارا اصولی موقف ہے کہ پارلیمان کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار ہے انھوں نے وہ اختیار استعمال کیا اور اسی کے تحت یہ آگے سارا پراسیس اور امپلی مینٹیشن ہو رہی ہے۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ میں یہ سمجھتا ہوں اور آپ کو بھی اس کا ادراک یقیناً ہو گا کہ بار ایسوسی ایشنز اس ملک کے ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوشنز ہیں، اب اگر آپ نے کچھ کرنا ہے تو کیا طریقہ کار ہے؟ یقینی طور پراپنے منتخب نمائندوں سے بات کریں، سپریم کورٹ بار ہے،پاکستان بار کونسل ہے۔ 

ماہر قانون ریاست علی آزاد نے کہا کہ وکلا ایکشن کمیٹی کو آپ چھوڑ دیں وہ جس کی ہے اور جن کے نام آپ نے گنوائے ہیں، اس کی تو میں سب سے پہلے یہ وضاحت کر دوں کہ یہ بذات خود میں اپنی ذات کی بات کر رہا ہوں کہ میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ شہر ہم نے بند نہیں کیا، حکومت نے کیا ہے، اگر ہمارے ساتھ لوگ نہیں تھے تو آپ نے پورے ریڈ زون کو کارڈن آف کیوں کیا؟، وہاں پر چڑیا کو پر مارنے کی اجازت نہیں تھی، پانچ صوبائی بار کونسلیں ہیں جن میں سے تین ایک سائڈ پر ہیں تو اکثریت کس طرف ہے؟۔ 

ماہر قانون رانا احسان احمد نے کہا کہ دو چیزیں بڑی امپورٹنٹ ہیں ایک امپورٹنٹ یہ ہے کہ کیا پاکستان کی پارلیمنٹ کی جو ایمنڈمنٹس جو ہیں وہ پارلیمنٹ واپس نہ لے یا سپریم کورٹ آف پاکستان فیصلہ نہ کرے یہ لا آف دی لینڈ ہے اور کونسٹیٹیوشن کا حصہ ہے، اسے ہمیں ہر صورت ماننا پڑے گا، چاہے ہم ایز اے ہائیکورٹ کے جج ہیں، سپریم کورٹ کے جج ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان ہیں یا اس کے بعد یہ ہے کہ سیٹیزن آف پاکستان ہیں، ہاں کنسرنز ہو سکتے ہیں اور وہ کنسرنز صرف اور صرف جو ہے بار ایسوسی ایشنز کے یا سول سوسائٹی کے ہو سکتے ہیں وہ ججز کے کنسرنز نہیں ہو سکتے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ اور ایلون مسک کی میڈیا سے گفتگو، ٹیکس کی رقم کا غلط استعمال اور کرپشن پر تنقید
  • غزہ کا کنٹرول اور کینیڈا کو ریاست بنانے میں سنجیدہ ہوں، ٹرمپ
  • پارلیمان کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار ہے، حسن رضا پاشا
  • ایران پر بمباری کے بجائے اس سے جوہری معاہدہ کو ترجیح دونگا، ٹرمپ
  • کے پی کے حکومت امن وامان قائم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے
  • فلسطینیوں کو بیدخل کرنے کی سازشیں ناکام بنا دینگے، حماس
  • پاکستان کوئی مشن نہیں بھیجا: آئی ایم ایف
  • بن سلمان ٹرمپ کی امیدوں پر پورے نہیں اتر سکتے
  • امریکی صدر کا یو ایس ایڈ بند کرنے کا حکم