Express News:
2025-02-12@01:26:19 GMT

ایک قابلِ فخر ادارے کا دورہ

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

ملک کے کچھ ادارے ایسے ہیں جو بلاشبہ پوری قوم کے لیے وقار اور افتخار کا موجب ہیں، انھیں دیکھ کر پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں، دل کھِل اٹھتا ہے اور سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔

کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ اور پاکستان ملٹری اکیڈیمی کاکول پاکستان آرمی کے ایسے ہی قابلِ فخر ادارے ہیں جن کا پورے ایشیا میں کوئی مقابلہ نہیں۔ اسٹاف کالج کوئٹہ میں گیسٹ اسپیکر کے طور پر کئی بار جاچکا ہوں، وہ ادارہ اپنے ڈسپلن اور تربیت کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے دنیا کے چند چوٹی کے اداروں میں شمار کیا جاتا ہے، چند سال پہلے مجھے وہاں فکرِ اقبال کے موضوع پر لیکچر کے لیے مدعو کیا گیا تھا، جب میں نے اسٹاف کالج کے کمانڈنٹ (لیفٹیننٹ جنرل رینک کے افسر جو بعد میں مزید اہم عہدوں پر بھی فائز رہے) سے پوچھا کہ آپ نے اس اہم موضوع پر لیکچر کے لیے کسی یونیورسٹی پروفیسرکے بجائے مجھے کیوں بلایا ہے تو انھوں نے کہا کہ ’’اس موضوع پر ماہرینِ تعلیم تو بات کرتے ہی رہتے ہیں۔

 ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ایک عملی آدمی (practitioner) کو فکرِ اقبال نے کیسے متاثر کیا ہے اور اُس نے کلامِ اقبال سے کس نوعیت کی راہنمائی حاصل کی ہے‘‘۔ میرا خیال تھا کہ ایک بار بلانے کے بعد بات ختم ہوجائے گی مگر اگلے سال پھر اسٹاف کالج سے کالیں آنا شروع ہوگئیں۔ غالباً تربیتی ادارے کے انسٹرکٹرز کو راقم کی گفتگو پسند آگئی تھی کہ مجھے کئی سال تک وہاں لیکچر کے لیے بلایا جاتا رہا۔ اس کے بعد پاکستان ملٹری اکیڈیمی کاکول سے بھی دعوت نامے آتے رہے اور میں وہاں لیکچر کے لیے جاتا رہا۔

پہلی بار اُس وقت گیا تھا جب جنرل ستی (آجکل فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین ہیں) پی ایم اے کے کمانڈنٹ تھے، اونچے لمبے، اسمارٹ اور خوبرو۔ اُن سے بعد میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ جنرل بخاری کے دور میں بھی دو بار جانے کا اتفاق ہوا، اس کے بعد بھی دعوت نامے آتے رہے مگر میں اپنی مصروفیت کی بنا پر نہ جاسکا۔ اب پھر پی ایم اے کے کمانڈنٹ میجر جنرل افتخار حسن چوہدری کی طرف سے دعوت نامہ آیا تو میں نے جانے کا ارادہ کرلیا۔ اِس بار مجھے پاکستان ملٹری اکیڈیمی کی جانب سے ’’فکرِ اقبالؒ کی روشنی میں لیڈر شپ کا جدید تصور‘‘ کے موضوع پر لیکچر کے لیے بلایا گیا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ ’’آپ واحد سویلین (جس کا تعلق عسکری اداروں سے نہیں رہا) ہیں جنھیں اِس ادارے میں فکرِ اقبال پر لیکچر کے لیے بلایا جارہا ہے‘‘۔

پی ایم اے کاکول ملک کے ان چند اداروں میں ہے جو پورے ملک کے لیے مسرت و افتخار کا باعث ہیں، کسی بھی ادارے کے ماحول اور کلچر پر ادارے کے سربراہ کی شخصیت اور سوچ کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاک آرمی کی سب سے بڑی تربیت گاہ کے سربراہ جنرل افتخار حسن سے مل کر دل مزید خوش ہوا کہ وہ ایک جید اقبال شناس نکلے، جنرل صاحب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کے ہر محافظ میں غیرت اور خودداری کے اوصاف پیدا کرنا ضروری ہے اور اس کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ اسے فکرِ اقبال سے روشناس کرایا جائے۔

کسی بھی تعلیمی یا تربیتی ادارے کی برتری اس کی اینٹوں اور پتھروں سے بنی ہوئی عمارت کی وجہ سے نہیں ہوتی کہ بقولِ اقبالؒ سنگ وحشت سے جہان پیدا نہیں ہوتے۔ سنگ وخشت سے نہ جہان پیدا ہوتے ہیں اور نہ ہی ادارے قائم ہوتے ہیں، جو چیز اداروں کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کے سربراہ کا کردار، تربیت کے ساتھ اس کی وابستگی اور معلّمین اور انسٹرکٹرز کا معیار اور جذبہ ہے۔

 اس کے بعد تربیتی ادارے کا ڈسپلن اس کے معیار جانچنے کا سب سے اہم پیمانہ ہے۔ پاکستان ملٹری اکیڈیمی کی زیادہ تر عمارتیں اور Huts پرانی یعنی انگریز کے دور کی ہیں مگراسے ملک کا بہترین تربیتی ادارہ مانا جاتا ہے۔ اسے جو چیز دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کے سربراہ اور انسٹرکٹرز کا معیار ہے، فوج کے تربیتی اداروں میں تعیناتی کے لیے بہترین افسروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ٹریننگ اکیڈیمی میں تعیناتی کو فوجی افسران اپنے لیے بہت بڑا اعزازسمجھتے ہیں کیونکہ عسکری ادارے تربیت کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہیں، تربیت ان کے لیے سزا نہیں بلکہ فخر اور اعزاز ہے۔ راقم سروس کے دوران پولیس ہی نہیں دوسری سروسز کے سینئر افسروں کو بھی اکثر کہا کرتا تھا کہ ٹریننگ کی اہمیت اور افادیت ہمیں عسکری اداروں سے سیکھنی چاہیے۔

ٹریننگ کیا ہوتی ہے اور یہ زیرِ تربیت افسر کو کس طرح تبدیل کردیتی ہے، یہ جاننا ہو تو پاکستان ملٹری اکیڈیمی جا کر دیکھیں۔ جب نوجوان افسر پی ایم اے کے گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہیں تو ان میں سے زیادہ تر دیہاتی پسِ منظر کی وجہ سے اردو بھی صحیح طریقے سے نہیں بول سکتے۔ اُس وقت وہ نہ تو سیدھا چل سکتے ہیں اور نہ ہی ربط کے ساتھ گفتگو کرسکتے ہیں، مگر پی ایم اے کی دو سالہ ٹریننگ کے دوران نہ صرف نوجوان افسروں کو سپرفِٹ بنادیا جاتا ہے بلکہ اُن کی تمام خوابیدہ صلاحیتوں کو بھی اجاگر کیا جاتا ہے۔

جب ایک نوجوان کیڈٹ ٹریننگ مکمل کرکے پی ایم اے سے نکلتا ہے تو وہ ایک مختلف انسان بن چکا ہوتا ہے، اس کی گفتگو اور چال ڈھال میں خوداعتمادی نظر آتی ہے، اُس میں قیادت کی صلاحیّتیں پیدا ہوچکی ہوتی ہیں، اس کا ڈر اور خوف اتر چکا ہوتا ہے اور وہ بے خوف ہوکر بڑے سے بڑا خطرہ مول لینے اور ملک اور قوم کے لیے جان قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہوتا ہے۔ اچھے قائد کے لیے ابلاغ کی خوبیاں (communication skills) بہت ضروری ہیں، پی ایم اے میں اور بہت سی مہارتوں کے ساتھ ساتھ اس کی communication skills کو بھی نکھارا اور سنوارا جاتا ہے اور اس کا نظارہ ہر بار دیکھنے کو ملتا ہے، کیڈٹس کی خوداعتمادی اور ان کی متاثر کن گفتگو اور اعلیٰ معیار کے سوال سن کر بہت خوش ہوتی ہے۔

میرا لیکچر ایک گھنٹہ اور دس منٹ تک چلا، جس میں لیڈر شپ کے بارے میںمفکرپاکستان کے تصورات کا مختصراً احاطہ کیا گیا۔ اُس کے بعدآدھا گھنٹہ سوال وجواب کا سلسلہ جاری رہا۔خوشی کی بات یہ ہے کہ ماضی کے برعکس اس بار دونوں جانب سے ستّر فیصد گفتگو اپنی قومی زبان میں ہوئی۔ آخر میں جنرل صاحب نے میری گفتگو کا تجزیہ کیا اور اس وسیع موضوع کو بڑے احسن طریقے سے سمیٹا۔ یہ نشست زیرِ تربیت افسران کے لیے یقیناً مفید ثابت ہوئی ہوگی۔

اس کے بعد ہم چائے کی میز پر آگئے جہاں فیکلٹی ممبران کے ساتھ بھی ملاقات ہوئی اور ہلکی پھلکی گپ شپ ہوتی رہی، لنچ کے بعد میں پی ایم اے سے رخصت ہوگیا۔ پولیس سروس کے ایک بے حد نیک نام افسر ناصر محمود ستی آجکل ڈی آئی جی ہزارہ ہیں۔ انھیں میرے دورے کے بارے میں معلوم ہوا تو انھوں نے کہا کہ واپسی پر چائے ان کے پاس پی کر جاؤں۔ چنانچہ میں اٹھارہ سال بعد پھر اسی دفتر گیا جہاں میں خود بھی ڈی آئی جی ہزارہ کی حیثیت سے بیٹھا کرتا تھا، وہیں ایبٹ آباد کے باضمیر صحافی روزنامہ آج کے ڈپٹی ایڈیٹر اور اپنے مخلص دوست سردار فیصل سے بھی ملاقات ہوئی اور پرانی یادیں تازہ ہوئیں۔

وہاں بھی اور واپس آکر بھی پولیس افسروں سے ملاقات ہوئی اور ٹریننگ پر تبادلۂ خیال ہوتا رہا۔ تمام سینئر اور ریٹائرڈ افسروں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ سول سروسز میں عسکری اداروں کی نسبت ٹریننگ کا معیار انتہائی پست ہے۔ اس لیے کہ سول سروسز میں ٹریننگ کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔ حکومت جس افسر سے ناراض ہوجائے یا جس کو سینئر افسروں نے سزا دینی ہو اسے تربیتی ادارے میں تعینات کردیا یا پھینک دیا جاتا ہے۔ آرمی میں ٹریننگ کو Pride جب کہ سول میں اسے سزا یا فٹیگ سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب زیرِ تربیت سول افسران تربیتی اداروں سے نکلتے ہیں تو وہ ویسے کے ویسے (جیسے تھے) ہی رہتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تربیتی ادارے کے سربراہ پی ایم اے اس کے بعد ہوتے ہیں کے ساتھ جاتا ہے ہے اور

پڑھیں:

سپر بول میں فلاڈیلفیا کی کنساس کے خلاف فتح؛ ٹرمپ بھی اسٹیڈیم میں تماشائیوں میں موجود

ویب ڈیسک — امریکی فٹ بال کے فائنل ‘سپر بول’ میں فلاڈیلفیا ایگلز نے کنساس سٹی چیفس کو 22 کے مقابلے میں 40 پوائنٹس سے شکست دی ہے اور ایک بار پھر ٹائٹل اپنے نام کر لیا ہے۔

فائنل میچ دیکھنے کے لیے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی تماشائیوں میں موجود تھے۔ وہ پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے اسٹیڈیم میں بیٹھ کر سپر بول دیکھا ہے۔

کھیل کے آغاز سے قبل کنساس سٹی چیفس کی ٹیم کے حوالے سے کسی حد تک کامیاب ہونے کی رائے موجود تھی اور امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ وہ امیریکن فٹ بال لیگ کا ٹائٹل مسلسل تیسرے سال بھی اپنے نام کر سکتی ہے۔ تاہم فلاڈیلفیا نے اس کی امیدوں پر پانی پھر دیا ہے اور کامیابی سمیٹی۔

ریاست لوئزیانا کے شہر نیو اورلینز کے’سیزر سپر ڈوم’ کے تماشائیوں سے بھرے اسٹیڈیم میں فلاڈیفیا ایگلز نے کھیل کے تیسرے کوارٹر تک کنساس سٹی چیفس کو گول کرنے سے روکے رکھا جب کہ اس وقت تک فلاڈیلفیا ایگلز 34 پوائنٹس اپنے نام کر چکی تھی۔


فلاڈیفیا ایگلز کے کوارٹر بیک پر کھیلنے والے کھلاڑی جیلن ہرٹس کو سپربول کا ’موسٹ ویلیو ایبل پلیئر‘ (ایم وی پی) یا سب سے اہم پلیئر قرار دیا گیا۔

امیریکن فٹ بال عالمی سطح پر کھیلے جانے والی فٹ بال سے مختلف ہے۔ اس میں ٹانگوں کے ساتھ ہاتھوں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کھیل عام طور پر امریکہ اور کینیڈا میں کھیلا جاتا ہے۔

اس میں گیارہ گیارہ کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیمیں ایک میدان میں ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہوتی ہیں جس کے آخر میں گول کے کھمبے نصب ہوتے ہے۔

اس کھیل میں بیضوی یعنی انڈے کی شکل کی گیند استعمال ہوتی ہے جسے ہاتھ سے پکڑ کر مخالف ٹیم کے گول میں پہنچانا ہوتا ہے۔







No media source now available

امریکہ میں ‘سپر بول’ محض ایک ایونٹ نہیں بلکہ یہ یہاں ثقافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ فٹ بال کا کھیل پورے ملک میں بڑے جوش و خروش سے دیکھا جاتا ہے اور ٹیم کی فتح شہر کے لیے ایک بڑا اعزاز سمجھی جاتی ہے۔ اس میچ کے فائنل کو سپر بول کہا جاتا ہے جس کو دیکھنے کے لیے اکثر مقامات پر بڑی اسکرینیں بھی نصب کی جاتی ہیں۔

اتوار کو کھیلے جانے والے فائنل میں روایات کے برعکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود شرکت کی۔

انہوں نے سپربول میں شرکت سے قبل جاری بیان میں کہا کہ فٹ بال امریکہ کا سب سے مشہور کھیل ہے اور یہ اچھی وجہ سے شہرت رکھتا ہےْ۔

بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ قومی اتحاد کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔ اس سے اہلِ خانہ، دوست اور مداح متحد ہوتے ہیں۔

ان کے بقول اس سے برادریاں مضبوط ہوتی ہیں۔

امریکی صدر نے مزید کہا کہ یہ سالانہ روایت ہمارے اختلافات سے بالاتر ہے اور ہماری مشترکہ حب الوطنی کی اقدار، خاندان، عقیدے اور آزادی کی عکاسی کرتا ہے جس کا ہمارے فوجی، قانون نافذ کرنے والے اہلکار اور دیگر بہادری سے دفاع کرتے ہیں۔

رواں برس اندازے کے مطابق لگ بھگ 12 کروڑ شائقین کے سپربول دیکھنے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔







No media source now available

واضح ہے کہ اس میں امریکہ بھر کی اس قدر شدید دلچسپی کے سبب اشتہارات کی قیمتیں بھی انتہائی بلندی پر چلی جاتی ہیں۔ اس میں 30 سیکنڈزکے ایک اشتہار کی لاگت لگ بھگ 80 لاکھ ڈالر رہی ہے۔

سپربول میچ کے آغاز سے قبل افتتاحی تقریب نئے سال کے آغاز پر نیو اورلینز میں ٹرک شہریوں پر چڑھانے کے دہشت گردی کے واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد اور فوری طور پر کارروائی کرنے والے اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • انجینئرز کی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی تربیت کا آغاز
  • حیدرآباد میں قائم ہوابازی کی تربیت گاہ میں عالمی معیارکے کورسزکروانے کی منظوری
  • مسجد الحرام کے قالین کس طرح صاف کیے جاتے ہیں؟حیران کن تکنیک سامنے آ گئی
  • قدیم اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ پاکستان ریلوے اکیڈمی والٹن
  • سائنس میں خواتین اور لڑکیوں کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے
  • نوجوان سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں، ڈاکٹر حسن قادری
  • سپر بول میں فلاڈیلفیا کی کنساس کے خلاف فتح؛ ٹرمپ بھی اسٹیڈیم میں تماشائیوں میں موجود
  • لاہور میں سجا کتوں اور بلیوں کا اتوار بازار
  • لیمن گراس کے فوائد