اپنی نصف صدی کی زندگی میں اس مملکت خداداد میں طرح طرح کی حکومتیں دیکھی ہیں۔ آغاز ضیاء الحق شہید کی مارشل لائی حکمرانی سے ہوا ، سویلین حکمرانی کا مشاہدہ بھی جاری رہا ،بفضل خدا زندگی رہی تو مزید حکومتیں بھی دیکھیں گے۔ ماضی کی ان حکومتوں میں سے کسی سے ہمدردی رہی تو کسی سے سرد مہری ۔ لیکن کوئی ایسا حکمران نہ دیکھا جس پر ترس کھایا جا سکے ۔
مارشل لائی حکمران کا عوامی تعلق نہیں ہوتا ہے، ان کا کوئی حلقہ انتخاب نہیں ہوتا، انھوں نے زور زبردستی سے حکومت حاصل کی ہوتی ہے لیکن سیاسی حکمران عوامی تعلق کا محتاج ہوتا ہے اور جب تک عوام سے اس کا رابطہ رہتا ہے، وہ کامیاب حکمران تصور کیا جاتا ہے ۔
حکمران کے عوامی رابطوں کے کئی ذرایع ہوتے ہیں جن میں وقت کے ساتھ اضافہ بھی ہوتا گیا اور آج تو یہ عالم ہے کہ اگر حکمران چاہے تو وہ اپنے موبائل فون سے ہی ہر وقت عوام سے رابطے میں رہ سکتا ہے۔ ماضی میں سیاسی جلسے جلوسوں کے علاوہ حکمرانوں کے عوام سے رابطے کے ذرایع اخبارات تک محدود تھے جو اب سوشل میڈیا کے طوفان تک پہنچ چکے ہیں جہاں سے عوام کا حال احوال کسی بھی حکمران تک براہ راست پہنچ سکتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ حکمرانوں کے مسائل عوام سے مختلف ہیں، ان کا مسئلہ روٹی کپڑا مکان نہیں ہے ۔
ہماری موجودہ حکومت کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے، یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ ان کی حکمرانی عوامی نمایندگی کی ترجمان ہے یا بقول گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کے یہ حکومت عوام کا انتخاب نہیں ہے ،اس بات سے قطع نظرتابڑ توڑ مہنگائی کا جو طوفان برپا تھا، اس میں کسی حد تک کمی ضرور آئی ہے اور ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف کی یہ حتی المقدور کوشش ضرور رہی ہے کہ وہ عوام کے لیے کچھ اچھا کر سکیں ۔
وہ ملکوں ملکوں جارہے ہیں لیکن معلوم یہ ہوتاہے کہ سوائے چند ایک دوست ممالک سے قرضہ جات کے علاوہ کوئی بھی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری پر تیار نظر نہیں آتا ۔ نہ کوئی نیا کارخانہ لگ رہا ہے اور نہ ہی پہلے موجود کارخانوں کا پہیہ گھوم رہا ہے نہ سرمائے کی حرکت نظر آتی ہے البتہ اگر کوئی حرکت نظر آتی ہے تو وہ ملک سے باہر جانے کی حرکت ہے جسے دیکھیں جس سے بات کریں وہ رخت سفر باندھے بیٹھا ہے ۔ حکمرانوں نے ملکی قوانین میں ایسی ترامیم کر دی ہیں کہ مشہور ومقبول احتساب کا نعرہ دم توڑ چکا ہے اور آج اگر کسی کا احتساب ہورہا ہے تو وہ صرف سیاسی احتساب تک محدود ہو چکا ہے اور عوام یہ بات سمجھ چکے ہیں اور وہ حکمرانوں کے احتسابی اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں ۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالات بدل نہیں رہے ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ مشکلات ہیں۔
حکمران طبقہ اپنی فلاح کے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہمارے ’’منتخب ‘‘نمایندے جو اسمبلیوں میں موجود ہیں ، انھوں نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کر لیا ہے اور اس حمام میں چاہے وہ حکومت میں شامل نمایندے ہوں یا اپوزیشن کے اراکین سب نے ہاں میں ہاں میں ملاتے ہوئے اپنے لیے مراعاتی پیکیج منظور کر لیے ہیں۔ یہ وہ اقدامات ہیں جن کو دیکھ کر عوام نہ صرف کڑھنے پر مجبور ہیں بلکہ ان میں اپنے نمایندوں کے خلاف غصہ مزید بڑھ گیاہے۔
بے حسی کی انتہاء یہ ہے کہ حکومت جب بھی کسی چیز کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے تو کہتی ہے کہ عوام متاثر نہیں ہوں گے ۔ ایسی بات کہنے والوں کے دل گردے کی داد دینی پڑتی ہے ۔ ہماری حکومت اپنے اقتدار کی بقاء کے لیے اپنے عوام کی طرف نہیں بلکہ وہ عالمی مالیاتی اداروں اور بڑی طاقتوں کی طرف دیکھتی ہے اور یہ نہیں سوچتی کہ یہ بڑی طاقتیں آپ کو اس وقت تک رکھیں گی جب تک ان کا اپنا دل اور مفاد چاہے گاکیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اس حکومت کے قدم اپنی زمین اور اپنے عوام میں نہیں ہیں بلکہ گملے میں ایک اگا ہوا ایک پودا ہے جس کو پانی کہیں اور سے مل رہا ہے۔
یہ ان حالات کی ایک ہلکی اور سرسری سی جھلک ہے جس میں کسی حکمران کو حکومت چلانی ہے اور میاں شہباز شریف اس آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ اس ایک سالہ حکمرانی میں صوبائی سطح پر مختلف سیاسی جماعتوں کی نمایندہ حکومتیں قائم ہیں ۔سندھ میں حسب معمول پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف حکمرانی کے مزے لوٹ رہی ہے، بلوچستان کے عوام ہمیشہ کی طرح ایک ملی جلی حکومت کے سپرد ہیں، رہی پنجاب کی حکومت تو پہلی خاتون وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز اپنے والد کی رہنمائی میں حکمرانی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔حکمرانی کے پہلے تجربے اور خدشات کے باوجود انھوں نے بلاشبہ نے اپنے تما م ناقدین کی امیدوں کے برعکس ایک اچھی حکمرانی کی کوشش کی ہے۔
وہ بہت زیادہ متحرک ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ مسلم لیگ نواز کے لیے پنجاب کے عوام کے دل میں نرم گوشہ قائم کر سکیں ۔وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے صوبہ بھر میں تجاوزات کے خلاف جاری مہم جوئی سے عام آدمی بہت متاثر ہو رہا ہے گو کہ اس مہم سے ٹریفک کے بہاؤ میں بہتری آئے گی لیکن چھوٹے کاروبار جن میں خاص طور پر ریڑھی بان شامل ہیں۔
ان کا روزگار ختم ہو گیا ہے، اس ضمن میں وزیر اعلیٰ کو ذاتی طور پر مداخلت کرنی ہوگی تاکہ غریب کا چولہا جو کہ تجاوزات کی زد میں آکر بجھ چکا ہے، وہ جل پائے۔تجاوزات کے خلاف مہم سے براہ راست عام آدمی متاثر ہوا ہے جس کا لا محالہ اثر حکومت مخالف جذبات کی صورت میں نکلے گا ،بہر حال یہ تو حکمران جانیں اور ان کے افسران جو ایسی مہم جوئیوں کے مشورے دیتے ہیں، ہمارا کام تو زنجیر ہلانے کا ہے اور وہ ہم ہلاتے رہیں گے۔ ترس آتا ہے، ایسی حکمرانی پر ………
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہیں بلکہ عوام سے کے عوام رہا ہے ہے اور
پڑھیں:
وقت نے ثابت کردیا ہے کہ انقلاب اسلامی عالم اسلام اور انسانیت کا ترجمان انقلاب ہے، علامہ ساجد نقوی
انقلاب اسلامی کی 46ویں سالگرہ کی مناسبت سے اپنے پیغام میں ایس یو سی سربراہ کا کہنا تھا کہ تمام سازشوں، مظالم، زیادتیوں، محاصروں، پابندیوں اور دیگر ہتھکنڈوں کے باوجود انقلاب اسلامی ایران کرہٗ ارض پر ایک طاقتور انقلاب کے طور پر جرات واستقامت کی بنیادیں فراہم کررہا ہے جس کی رہبری حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کررہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ علامہ سید ساجد علی نقوی کا کہنا ہے کہ انقلاب اسلامی ایران نے مختلف شعبہ ہائے حیات میں خاص کر اسلامی تہذیب و ثقافت کے فروغ اور امت مسلمہ کو سامراجی استعماری قوتوں کے مذموم عزائم سے باخبر رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اور آج یہ جدوجہد ایک اہم ترین موڑ میں داخل ہوچکی ہے چنانچہ عالمی سامراج خائف ہوکر اسلامی دنیا کے خلاف نت نئی سازشوں میں مشغول ہے۔ انقلاب اسلامی کی 46ویں سالگرہ کی مناسبت سے اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ یہ محض عارضی اور مفاداتی انقلاب نہیں بلکہ شعوری انقلاب ہے، وقت نے ثابت کردیا ہے کہ یہ انقلاب عالم اسلام اور انسانیت کا ترجمان انقلاب ہے، جس کے لیے سینکڑوں علماء، مجتہدین، مجاہدین، اسکالرز، دانشور اور عوام نے اپنے خون، اپنی فکر، اپنے قلم، اپنی صلاحیت، اپنے عمل، اپنے سرمائے اور اپنے خاندان کی قربانیاں دے کر انقلاب اسلامی کی عمارت استوار کی۔
علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ انقلاب اسلامی ایران کے قائد اور رہبر کبیر حضرت امام خمینیؒ نے انقلاب برپا کرتے وقت اسلام کے زریں اصولوں اور پیغمبر اکرمؐ کی سیرت و سنت کے درخشاں پہلوؤں سے ہر مرحلے پر رہنمائی حاصل کی، جس طرح رحمت اللعالمینؐ کے انقلاب کا سرچشمہ صرف عوام تھے اسی طرح امام خمینیؒ کے انقلاب کا سرچشمہ بھی عوام ہی تھے، یہی وجہ ہے کہ تمام سازشوں، مظالم، زیادتیوں، محاصروں، پابندیوں اور دیگر ہتھکنڈوں کے باوجود انقلاب اسلامی ایران کرہٗ ارض پر ایک طاقتور انقلاب کے طور پر جرات واستقامت کی بنیادیں فراہم کررہا ہے جس کی رہبری حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کررہے ہیں، وطن عزیز پاکستان میں بھی ایک ایسے عادلانہ نظام کی ضرورت ہے جس کے تحت تمام لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہو، امن و امان کی فضاء پیدا ہو، عوام کو پرسکون زندگی نصیب ہو، لہذا پرامن انداز میں پرامن طریقے اور راستے کے ذریعے تبدیلی لائی جائے اور اس کے لیے عوام اور خواص سب کے اندر اتحاد و وحدت اور یکسوئی کے ساتھ جدوجہد کرنے کا شعور پیدا کیا جائے، عالمی سامراج کے امت مسلمہ کے خلاف جاری جارحانہ اقدامات کو روکا جائے، اگر ہم زندہ اور باوقار قوم کے طور پر دنیا میں رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اعلیٰ اہداف کے حصول کے لئے متحد ہونا پڑے گا، گروہی اور مسلکی حصاروں سے دست کش ہونا پڑے گا اور اپنے اندر جذبہ اور استقامت پیدا کرنا ہوگا۔