انصاف کا گلا گھونٹنے کی ایک اورکوشش
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
یہ دنیا عجیب جگہ ہے۔ ایک طرف طاقتور ممالک ہیں جو انصاف کے نام پر جنگیں مسلط کرتے ہیں، پابندیاں لگاتے ہیں، حکومتیں گراتے ہیں اورکمزور قوموں کے سروں پر بم برساتے ہیں۔ دوسری طرف وہی ممالک جب خود کسی عدالت کے کٹہرے میں آتے ہیں تو انصاف کا مذاق اڑاتے ہیں، قوانین کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں اور عدالتوں کو دبانے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ فیصلہ جس میں انھوں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں، اسی دہرے معیارکی تازہ ترین مثال ہے۔
یہ فیصلہ اس وقت آیا جب بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیرِ دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ فلسطین کی زمین جو برسوں سے خون میں لت پت ہے جہاں ہر روز بچوں کے لاشے اٹھائے جاتے ہیں جہاں گھروں کو راکھ بنا دیا جاتا ہے اور جہاں انسانیت ہر لمحہ سسکتی ہے وہاں اگر کسی نے انصاف کے لیے آواز اٹھائی تو وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) تھی، لیکن انصاف کے اس چراغ کو بجھانے کے لیے امریکا ایک بار پھر اپنی طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی ہمیشہ سے عالمی قوانین کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے آئے ہیں۔ جب بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) نے 2021 میں اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغازکیا تھا تو تب بھی دباؤ بڑھایا گیا۔ جب اس سے پہلے افغانستان میں امریکی فوج کے جنگی جرائم پر تحقیقات کی بات ہوئی تو سابق پراسیکیوٹر فاتو بنسودا پر پابندیاں لگا دی گئیں اور اب جب بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) نے ہمت کر کے نیتن یاہو کے خلاف وارنٹ جاری کیے ہیں تو امریکا نے عدالت کے وجود کو ہی چیلنج کردیا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ اس فیصلے سے پہلے نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان ملاقات ہو چکی تھی۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) ایک ایسی عدالت ہے جسے 2002 میں عالمی سطح پر جنگی جرائم نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات اور ان کے مجرموں کو سزا دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کا ہیڈکوارٹر ہالینڈکے شہر دی ہیگ میں واقع ہے۔ 125 ممالک اس کے رکن ہیں مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل ان ممالک میں شامل نہیں۔
وہ اس عدالت کو مانتے ہی نہیں مگر جب یہ ان کے خلاف کوئی فیصلہ سناتی ہے تو اسے تباہ کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ یہ وہی امریکا ہے جو روس پر بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے وارنٹ کی حمایت کرتا ہے، یوکرین کے خلاف جرائم پر آواز بلند کرتا ہے مگر جب یہی عدالت فلسطین کے معصوم شہریوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف کوئی کارروائی کرتی ہے تو اس کے خلاف اعلانِ جنگ کردیتا ہے۔
ٹرمپ نے جو حکم جاری کیا ہے وہ محض ایک قانونی کارروائی نہیں بلکہ عالمی انصاف پر ایک سنگین حملہ ہے۔ اس کے تحت بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے پراسیکیوٹرز اور ججوں پر معاشی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں، ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جا سکتے ہیں اور انھیں امریکا میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے اہلِ خانہ کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ وہی امریکا ہے جو انسانی حقوق کے نام پر دنیا بھر میں پابندیاں لگاتا ہے مگر جب انصاف کی تلوار اس کے قریبی اتحادیوں پر چلنے لگتی ہے تو انصاف کو ہی ختم کرنے کے درپے ہو جاتا ہے۔
یہ فیصلہ صرف بین الاقوامی فوجداری عدالت کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک خطرناک مثال ہے، اگر عالمی عدالتوں کو اس طرح دبایا جائے گا تو کل کوئی بھی ملک کوئی بھی ظالم حکمران کسی بھی جرم کے بعد یقین سے کہہ سکے گا کہ اسے کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔
یہ فیصلہ ایک پیغام ہے کہ دنیا میں صرف طاقت کا راج ہے قانون اور انصاف محض کاغذی باتیں ہیں، اگر بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے جج اور پراسیکیوٹر اس دباؤ میں آ گئے تو پھر اس عدالت کا وجود صرف ایک علامت رہ جائے گا، ایک ایسی علامت جو صرف کمزور ممالک کے خلاف استعمال ہو گی جب کہ طاقتور ممالک کے جرائم کو ہمیشہ کے لیے نظرانداز کردیا جائے گا۔
ابھی اقوامِ متحدہ کا اجلاس ہونے والا ہے جہاں بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) پر ہونے والے دباؤ پر بحث ہوگی۔ یہ اجلاس اہم ہوگا کیونکہ اگر عالمی برادری نے اس وقت خاموشی اختیارکی تو پھر عالمی انصاف کا تصور محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اقوامِ متحدہ خود ان بڑی طاقتوں کے اثر سے آزاد نہیں۔ کیا وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ کیا وہ اسرائیلی جرائم پر پردہ ڈالنے کی امریکی کوششوں کو مسترد کریں گے؟ یا پھر یہ اجلاس بھی محض بیانات مذمتوں اورکھوکھلے دعووں تک محدود رہے گا؟
ٹرمپ کا یہ فیصلہ محض ایک کاغذی حکم نامہ نہیں۔ یہ عالمی عدالتی نظام کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ یہ ایک سوال ہے کہ آیا دنیا میں واقعی انصاف ممکن ہے یا پھر عدل کا ترازو ہمیشہ طاقتورکے ہاتھ میں رہے گا، اگر آج اس فیصلے کو چیلنج نہ کیا گیا تو کل بین الاقوامی فوجداری عدالت صرف ایک علامتی ادارہ بن کر رہ جائے گا جہاں مقدمے صرف افریقی ممالک کے آمروں پہ چلیں گے جہاں صرف کمزور ریاستوں کے رہنما جیل جائیں گے اور جہاں طاقتور ممالک کے سربراہ کھلے عام جنگی جرائم کر کے بھی دندناتے پھریں گے۔
یہ دنیا عجیب جگہ ہے۔ یہاں عدالتیں تو بنتی ہیں مگر انصاف کے ترازو کا پلڑا ہمیشہ طاقتور کے حق میں جھک جاتا ہے۔ آج اگر بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کو کمزورکردیا گیا تو کل کوئی بھی عالمی عدالت ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کرے گی۔ پھر صرف جنگیں ہوں گی تباہی ہو گی اور وہی پرانی کہانی دہرائی جائے گی، طاقتور حکومتیں فیصلے کریں گی کمزور ممالک تباہ ہوں گے اور انصاف کی کتابیں صرف لائبریریوں میں پڑی رہ جائیں گی جہاں انھیں پڑھنے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) پر دباؤ ڈالنے کی امریکی کوششوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں انصاف کو اپنے سیاسی اور جغرافیائی مفادات کے تابع رکھنا چاہتی ہیں، اگر بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کو واقعی عالمی سطح پر ایک غیر جانبدار ادارہ بنانا ہے تو اسے ایسے دباؤ کے خلاف مضبوط موقف اختیارکرنا ہوگا۔ یہ عدالت صرف کمزور ممالک کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لیے نہیں بنی تھی بلکہ اس کا اصل مقصد تمام مجرموں چاہے وہ کسی بھی قوم نسل یا عہدے سے تعلق رکھتے ہوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہے۔
یہ بھی قابل غور ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے فیصلوں پر عمل درآمد کروانا عالمی برادری کی اجتماعی ذمے داری ہے، اگر امریکا جیسے طاقتور ممالک اس عدالت کو غیر مؤثر بنانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ عالمی انصاف کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ اس سے نہ صرف عدالتی نظام کی ساکھ متاثر ہوگی بلکہ یہ ان ظالم حکمرانوں کے لیے کھلی چھوٹ ہوگی جو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف مظالم میں ملوث ہیں۔
عالمی برادری خاص طور پر یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ کو اس مسئلے پر واضح اور مضبوط موقف اپنانا ہوگا، اگر امریکا اور اس کے اتحادی بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کو کمزورکرنے کی کوششوں میں کامیاب ہو گئے تو پھر عالمی قوانین صرف کتابوں میں رہ جائیں گے اور عملی طور پر دنیا میں طاقتور ہی انصاف کا تعین کریں گے جب کہ کمزور ہمیشہ ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی فوجداری عدالت طاقتور ممالک جنگی جرائم انصاف کے ممالک کے یہ فیصلہ انصاف کا کے لیے ا جائے گا کے خلاف اور ان
پڑھیں:
ڈیٹا سیکیورٹی ،پرائیویسی کو یقینی بنانے کیلئے بین الاقوامی سطح پر مضبوط قوانین و پالیسیوں کی ضرورت ہے،شزافاطمہ
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 فروری2025ء) وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن شزا فاطمہ خواجہ نے ڈیٹا سیکیورٹی اور پرائیویسی کو یقینی بنانے کیلئے بین الاقوامی سطح پر مضبوط قوانین اور پالیسیوں کی ضرورت پرزوریتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان جدید و اخلاقی آئی اے پالیسی بنانے پر کام کر رہا ہے جو نہ صرف معیشت کو ترقی دے گی بلکہ عوامی سہولتوں میں بھی بہتری لائے گی،اے آئی کا مستقبل سب کیلئے محفوظ اور فائدہ مند بنانے کیلئے عالمی سطح پر تعاون ضروری ہے۔تفصیلات کے مطابق وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن شزا فاطمہ خواجہ نے لیپ 2025کے ڈی سی او وزارتی پینل میں شرکت کی، جہاں انہوں نے اخلاقی مصنوعی ذہانت (اے آئی)، ڈیٹا سیکیورٹی، اور ڈیجیٹل شمولیت پر زور دیا۔(جاری ہے)
یہ پینل ڈیجیٹل کوآپریشن آرگنائزیشن (ڈی سی او)کی سیکرٹری جنرل دیما الیحیی کی میزبانی میں منعقد ہوا،جس میں عالمی رہنماؤں نے اے آئی کے محفوظ اور ذمہ دارانہ استعمال پر تبادلہ خیال کیا۔
وزیر شزا فاطمہ خواجہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی تیزی سے دنیا کو بدل رہی ہے، اس لیے اس کا استعمال ذمہ داری کے ساتھ ہونا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اے آئی نظاموں میں جانبداری اور امتیاز ختم ہونا چاہیے تاکہ تمام لوگوں کو برابر مواقع مل سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈیٹا سیکیورٹی اور پرائیویسی کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر مضبوط قوانین اور پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ شزافاطمہ نے کہاکہ ڈیجیٹل ترقی سب کیلئے ہونی چاہیے، خاص طور پر ان لوگوں کیلئے جو ٹیکنالوجی تک کم رسائی رکھتے ہیں۔ انہوں نے ترقی پذیر ممالک کے لیے مزید مواقع پیدا کرنے اور ڈیجیٹل فرق ختم کرنے کی ضرورت پر بھی بات کی تاکہ ہر شخص اے آئی کے فوائد سے مستفید ہو سکے۔انہوں نے ماحولیاتی تحفظ پر زور دیتے ہوئے کہاکہ اے آئی ٹیکنالوجی کو اس انداز میں فروغ دینا ضروری ہے جو ماحول پر کم سے کم اثر ڈالے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں شفافیت اور جوابدہی کو بڑھانے پر بھی زور دیا تاکہ اے آئی کا استعمال محفوظ اور قابل اعتماد ہو۔پاکستان کی اے آئی پالیسی پر بات کرتے ہوئے شزافاطمہ نے کہا کہ پاکستان جدید اور اخلاقی آئی اے پالیسی بنانے پر کام کر رہا ہے، جو نہ صرف معیشت کو ترقی دے گی بلکہ عوامی سہولتوں میں بھی بہتری لائے گی۔انہوںنے کہاکہ اے آئی کا مستقبل سب کیلئے محفوظ اور فائدہ مند بنانے کیلئے عالمی سطح پر تعاون ضروری ہے۔ انہوں نے حکومتوں، کاروباری اداروں اور ٹیکنالوجی ماہرین پر زور دیا کہ مل کر ایسے اصول بنائیں جو اے آئی کو اخلاقی اور مثر طریقے سے آگے بڑھانے میں مدد دیں۔