کراچی کے شہریوں کا سوال
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
کراچی میں پیپلز بس سروس کے کرائے میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ حکومتِ سندھ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پہلے کم ازکم کرایہ 50 روپے تھا ، اب پندرہ کلومیٹر تک 80 روپے کیا گیا ہے، یوں زیادہ سے زیادہ کرایہ 120روپے ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ میں اپنے اقتدار کے 12 برسوں کے دوران پبلک ٹرانسپورٹ پر توجہ نہ دی۔ 2 سال قبل پیپلز بس سروس شروع کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس میں الیکٹرک بسیں اور خواتین کے لیے علیحدہ مخصوص بسیں شامل ہیں۔
اب حکومت ان بسوں کے کرایوں میں اضافہ کردیا ہے مگر یہ کرایہ پنجاب اور اسلام آباد میں چلنے والی بسوں سے زیادہ ہے۔ ملتان میں کرایہ 25 روپے ہے جب کہ لاہور میں کرایہ 30 روپے ہے۔ اسی طرح راولپنڈی سے اسلام آباد جانے والی میٹروبس کا 23کلومیٹر طویل سفر کا کرایہ 30 روپے ہے۔ اسلام آباد سے ٹیکسلا جانے والی بس کا کرایہ 50 روپے ہے۔ پنجاب اور اسلام آباد انتظامیہ کو بھی پٹرول ، فاضل پرزہ جات کی قیمتیں بڑھنے اور ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ جیسے مسائل کا سامنا ہے مگر پنجاب اور اسلام آباد کی انتظامیہ کے پاس ایسا کون سا فارمولہ ہے کہ وہ شہریوں کے معاشی مصائب میں اضافہ نہیں کررہے۔ کراچی میں پیپلز بس سروس کے تحت 250 بسیں چل رہی ہیں۔
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن اس عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ مستقبل میں 310 بسیں مزید چلائی جائیں گی۔ یہ بسیں 11 مختلف روٹس پر چلیں گی جن میں سے 8 کو نارمل روٹس اور 5 کو پنک بس روٹس کہا گیا ہے۔پنک بسیں صرف خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔ اس کے علاوہ 3 الیکٹرک بس روٹس ہیں۔ یہ الیکٹرک بسیں ماحول دوست ہیں۔ سند ھ کے سابق نگراں وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کا کہنا تھا کہ کراچی کی آبادی کے اعتبار سے 5ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔
کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی بھی عجب داستان ہے۔ قیام پاکستان کے وقت کراچی میں ڈبل ڈیکر بسوں کے علاوہ ٹرام بھی چلتی تھیں۔ ایوب دورِ میں سرکلر ریلوے کا نظام قائم ہوا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں ٹرام وے سسٹم کو الیکٹرک ٹرام سسٹم میں تبدیل کرنے کے بجائے اس کو بند کردیاگیا اور منی بسیں چلنے لگیں۔ کبھی شہر میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بڑی بسیں چلتی تھیں۔ سویڈن نے اپنی جدید ایئرکنڈیشنڈ بسوں کا ایک بیڑہ کراچی والوں کو تحفے میں دیا تھا۔ سرکلر ریلوے کو تباہ کرنے کا سلسلہ 80ء کی دہائی میں شروع ہوا اور گزشتہ صدی کے اختتام تک اسے بند کردیا گیا ۔
مشرف دورِ میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے سرکلر ریلوے دوبارہ شروع کرنے کی خوش خبری سنائی تھی۔ وزیر اعظم شوکت عزیز نے سرکلر ریلوے کا افتتاح کیا تھا۔ یہ خبریں شایع ہوئیں کہ یہ ریلوے کراچی کینٹ سے چند کلومیٹر دور چنیسر ہالٹ تک چلے گی مگر پھر یہ تجربہ بھی ناکام ہوا۔ شیخ رشید تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر ریلوے بنے تو انھوں نے سرکلر ریلوے کی بحالی کا اعلان کیا۔ کراچی کی ریلوے کی انتظامیہ جانب سے سٹی اسٹیشن سے پپری مارشلنگ یارڈ جانے والی ریل کار جو علی الصبح ریلوے کے ملازمین کو پپری اور یارڈ تک لے جاتی تھی اس کا نام سرکلر ریلوے رکھ دیا گیا، پھر سب کچھ ختم ہوا۔
کراچی 80ء کی دہائی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی ناقص کارکردگی کی بناء پر شدید ہنگاموں کا شکار ہوا۔ مگر گزشتہ صدی کا آخری عشرہ اور اس صدی کا پہلا عشرہ امن و امان کے تناظر میں خاصا خطرناک ہے۔ اس صورتحال کا شکار ٹرانسپورٹ مالکان اور عملہ بھی بنا۔ سیاسی جماعتوں اور لسانی و مذہبی تنظیموں کی جانب سے ٹرانسپورٹرز سے روزانہ بھتہ وصول کرنے، اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بڑھنے اور برسرِ اقتدار حکومتوں کی عدم توجہی کی بناء پر ٹرانسپورٹرز مایوس ہوگئے۔
ایک وقت تھا کہ نیوکراچی سے ٹاور تک چلنے والی W11 منی بسوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ پوری رات چلتی ہیں مگر حالات اتنے خراب ہوئے کہ W11 سمیت بیشتر روٹس پر چلنے والی بسیں اور منی بسیں ناپید ہوگئیں۔ کراچی کے پہلے سٹی ناظم نعمت اﷲ خان کی جانب سے کراچی میں مختلف نوعیت کی بسیں چلائی گئیں مگر یہ بہار ایک سال کی تھی، یہ بسیں پھر لاپتہ ہوگئیں۔
کراچی والوں کو ایک تحفہ چین کی مال برداری کے لیے تیار کردہ چنگ چی رکشے کی صورت میں ملا۔ چنگ چی پورے شہر میں بیشتر روٹ پر چلتے ہیں۔ جب مسافروں کی تعداد زیادہ ہوجائے تو سڑک پر الٹ جاتے ہیں۔ 2008میں آصف زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں چین کے بہت سے دورے کیے۔
زرداری صاحب کی جوانی کراچی کی سڑکوں پر گزری ہے، اس بناء پر کچھ دانشوروں کو یہ امید تھی کہ صدر صاحب کراچی میں جدید پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ضرور چین سے مدد حاصل کریں گے مگر شاید ان کی ترجیحات میں کراچی شامل نہیں تھا، البتہ میاں شہباز شریف اپنے دورِ اقتدار میں ترکی گئے اور لاہور میں جدید میٹرو بس کے لیے ٹریک تعمیر کیا، یہ میٹرو بسوں کے ٹریک ملتان اور اسلام آباد میں بھی تعمیر ہونے لگے، بعد ازاں میاں صاحب ٹرین بھی لے آئے۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم کی حیثیت سے کراچی آئے اور سرجانی سے نمائش تک گرین لائن کی بنیاد رکھی گئی۔ میاں نواز شریف حکومت ختم کی گئی تو یہ منصوبہ رک گیا۔ بہرحال تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے تاخیر سے ہی سہی لیکن یہ منصوبہ مکمل ہوا۔ شہریوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت حاصل ہوئی۔
سندھ حکومت گرین لائن کی طرز پھر کئی لائنز تعمیر کرنے کی خواہاں ہے۔ تین سال قبل ریڈ لائن کامنصوبہ شروع کیا گیا۔ یہ ریڈ لائن ملیرکینٹ سے نمائش تک تعمیر ہو رہی ہے، اس میں ٹاور تک توسیع کا امکان ہے۔
حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ اس ریڈ لائن کی تعمیر میں مزید ڈیڑھ سال کا عرصہ لگے گا۔ اس نامکمل ریڈ لائن نے کراچی کے شہریوں کو ایک نئے عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر میں خصوصی دلچسپی لی ہے۔ وہ ہفتہ یا پندرہ دن میں اس کی تعمیرکا جائزہ لیتے ہیں۔ ملیر کینٹ سے لے کر نمائش تک کے علاقے کے رہائشیوں کی خواہش ہے کہ وزیر اعلیٰ ریڈ لائن کی تعمیر کے لیے بھی ہر ہفتے دورہ کریں تاکہ لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو سکون مل سکے۔
صدر زرداری چین کے دورہ پر تھے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ان کے ہمراہ تھے۔ کراچی کے شہریوں کو امید تھی کہ کراچی میں جدید ماس ٹرانزٹ پروگرام کے لیے چین سے کوئی معاہدہ ضرور کیا جائے گا مگر خبر یہ ہے کہ صدر زرداری نے کراچی سے پشاور تک نئی ریلوے لائن کے منصوبہ پر چینی حکام سے بات کی ہے اور مراد علی شاہ نے بھی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے چینی سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا ہے مگر اب تک آنے والی اطلاعات سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ کراچی کے لیے جدید ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام لانے والے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ دنوں کراچی کے تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے مشورہ دیا تھا کہ چغلی نہ کیا کریں۔ اب کراچی کے شہری بلاول بھٹو زرداری سے سوال کرتے ہیں کہ کراچی کے بسوں کا کرایہ پنجاب کے برابرکب ہوگا؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پبلک ٹرانسپورٹ اسلام آباد اور اسلام میں اضافہ کراچی میں وزیر اعلی کراچی کے ریڈ لائن کراچی کی کی تعمیر کی حکومت بسوں کے لائن کی روپے ہے اور اس تھا کہ کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
حکومتی عدم توجہی ،کراچی سرکلر ریلوے بحالی خواب بن گئی
کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) سندھ حکومت کی کراچی کے شہریوں سے عدم دلچسپی کے باعث کراچی سرکلر ریلوے کہ بحالی ناممکن ہوکر رہ گئی ہے، کئی بار مختلف حکومتوں نے کے سی آر کے افتتاح کیے مگر پرانی پٹریاں اور اسٹیشن اب گل سڑ رہے ہیں۔ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی ممکن یا ناممکن ہوگئی ہے؟ پاکستان ریلوے حکام تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہیں۔ تفصیلات کے مطابق90 کی دہائی میں کراچی بھر سے سرکلر ریلوے چلاکرتی تھی جبکہ سابق وزیر ریلوے شیخ رشید کے دور میں وزیر مینشن سے ایک بار پھر سرکلر ریلوے شروع کرنے کا اعلان بھی ہوا، وزیر مینشن پر واقع ٹریک اس وقت سے ہی لاوارث پڑا ہے۔سرکلر ریلوے کے ٹریک پر منشیات کے عادی افراد نشے کی طلب کو پورا کرنے کیلئے پٹڑیوں کے اسکریو نکال رہے ہیں، لیکن کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے، نشے کے عادی افراد لوہا کاٹ کر لے جا رہے ہیں، لیکن کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے کے حوالے سے جماعت اسلامی کے ممبر صوبائی اسمبلی محمد فاروق( فرحان) کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کراچی کے ٹرانسپورٹ سسٹم کے ساتھ مذاق کررہی ہے ۔ حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سندھ اسمبلی میں کراچی سرکلر ریلوے کے لیے ساڑھے 4 کروڑ روپے بجٹ میں رکھے گئے ہیں جبکہ وزیر اعلی ہاوس کا بجٹ 1ارب32 کروڑ92 لاکھ 32 ہزار روپے رکھے گئے ہیں جو ہمارے وزیر اعلی ہاوس اور اس کے سیکرٹریٹ پر خرچ ہوں گے جبکہ سرکلر ریلوے کا ماضی میں رہنے والے وفاقی وزیر کی جانب سے 2 بار افتتاح کیا چکا ہے اور آج بھی کراچی سرکلر ریلوے کے ٹریک پر تجاوزات اورجھونپڑیا موجود ہیں اور لوگ وہاں رہ رہے ہیں ایک سال کے اندر بھی کے سی آر کا چلنا نظر نہیں آرہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کراچی ماس ٹرانزٹ پروگرام کے لیے کچھ نہیں رکھا گیا ہے اسی طرح گرین لائن اورینج لائن جو مکمل ہونے تھی اس بجٹ میں اس طرح کی کوئی چیز نظر نہیں آئی ہے۔ گرین لائن کا منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا اور اس کو گرومندر یا نمائش چورنگی پر لا کر روک دیا گیا ہے جبکہ اس کو اور آگے تک جانا کرنا ہے ۔آپ یہ دیکھیں کہ کتنی بے حسی ہے کہ شہر کی کہ اورنج لائن کا منصوبہ جس کا کوئی فائدہ ابھی تک نظر ہی نہیں آیا ہے اور اورنج لائن میں اورنگی تائوں کی عوام سفر ہی نہیں کرتی ہے او ر مسافروں کو ایک ایسی جگہ پہ لا کر چھوڑ دیا جاتاہے جہاں وہ گرین لائن سے کنیکٹ ہوتی ہے اور نہ وہ کسی اور ذریعے سے وہ راستے کو ملا سکتی ہے اور اس پر سندھ حکومت کی خطیر رقم خرچ ہوئی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کا اورنج لائن منصوبہ بالکل ناکارہ ہوا ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی کا اہم مسئلہ سندھ حکومت کا اداروںکے درمیان ورکنگ ریلیشن کا نہ ہونا ہے جسکی وجہ سے کراچی کے لاکھوں شہری اذیت کا شکار ہو رہے ہیں۔دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کراچی سرکلر ریلوے کے سلسلے میں اپنا وعدہ پورا نہیں کررہی تھی، وزیراعظم نے اس سال سرکلر ریلوے پر کام کی یقین دہانی کرائی ہے، وزیراعظم کے مطابق سی پیک کے تحت سرکلر ریلوے پر کام شروع کیا جائے گا۔واضح رہے کہ سابق وزیر ریلوے شیخ رشید کے دور میں وزیر مینشن پر ہی نئے ٹریک کی تعمیر کیلئے سامان رکھا گیا تھا، عدم توجہی کے باعث وہ سامان بھی زنگ آلود ہورہا ہے، حفاظت نہ کی گئی توکچھ بعید نہیں کہ نشے کے عادی افراد اس لوہے کو بھی کاٹنا شروع کردیں۔