Islam Times:
2025-02-12@01:24:08 GMT

عقیدہ مہدویت، چراغِ امید مگر کیسے؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

عقیدہ مہدویت، چراغِ امید مگر کیسے؟

اسلام ٹائمز: عقیدہ مہدویت اسلامی تعلیمات کا ایک بنیادی ستون ہے، جس میں یہ یقین شامل ہے کہ آخری زمانے میں ایک نجات دہندہ، یعنی امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے۔ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جس طرح کہ وہ ظلم و جبر سے بھری ہوئی ہوگی۔ یہ عقیدہ ایک ایسے مستقبل کی نوید دیتا ہے، جہاں برائی کی بجائے بھلائی کا راج ہوگا، ظلم کے بجائے انصاف کا نظام قائم ہوگا اور ناامیدی کے بجائے یقین اور سکون کی فضا ہوگی۔ یہی تصور انسان کو امید اور رجاء کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔ تحریر: محمد حسن جمالی

دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو ہر دور میں ایسے ادوار ملیں گے، جب ظلم، ناانصافی، جبر اور فساد نے انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ طاقتور کمزوروں پر مسلط ہوگئے، انصاف کے دروازے بند ہوگئے اور معاشرے میں اندھیرا چھا گیا۔ ایسے حالات میں مظلوم دلوں کے لیے امید کی ایک کرن ہمیشہ زندہ رہی ہے، جس نے انہیں مایوسی کے اندھیروں میں جینے کا حوصلہ دیا۔ اسلام میں اس امید کا سب سے روشن چراغ "عقیدہ مہدویت" ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ عقیدہ امید کا چراغ کیسے بن جاتا ہے۔؟ یہ سوال صرف ایک عقیدتی نظریئے کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ ایک ایسی حقیقت کے بارے میں ہے، جو انسان کے دل و دماغ، روح اور زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرتی ہے۔ مہدویت صرف ایک عقیدہ نہیں بلکہ انسان کی فطری امیدوں، آرزوؤں اور خوابوں کا ایک مکمل فلسفہ ہے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے، جو ہمیں ناامیدی کے گہرے اندھیروں میں بھی روشنی کی کرن دکھاتا ہے اور یہ یقین دلاتا ہے کہ اندھیرا کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، سورج ضرور طلوع ہوگا۔

عقیدہ مہدویت اسلامی تعلیمات کا ایک بنیادی ستون ہے، جس میں یہ یقین شامل ہے کہ آخری زمانے میں ایک نجات دہندہ، یعنی امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے۔ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جس طرح کہ وہ ظلم و جبر سے بھری ہوئی ہوگی۔ یہ عقیدہ ایک ایسے مستقبل کی نوید دیتا ہے، جہاں برائی کی بجائے بھلائی کا راج ہوگا، ظلم کے بجائے انصاف کا نظام قائم ہوگا اور ناامیدی کے بجائے یقین اور سکون کی فضا ہوگی۔ یہی تصور انسان کو امید اور رجاء کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔ امام مہدیؑ کا تصور محض ایک روایتی عقیدہ نہیں بلکہ ایک جیتا جاگتا نظریہ ہے، جو دلوں کو جلا بخشتا ہے اور انسان کو ناامیدی کی دلدل سے نکال کر جدوجہد کی راہ پر ڈالتا ہے۔

یہ عقیدہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ اگرچہ دنیا میں ظلم کے اندھیرے گہرے ہوسکتے ہیں، لیکن وہ ہمیشہ کے لیے نہیں۔ آخرکار حق کی روشنی ہر اندھیرے کو مٹا دیتی ہے۔ یہ عقیدہ مظلوموں کے لیے ایک سہارا ہے، ظالموں کے لیے تنبیہ ہے اور ہر حق پرست انسان کے لیے چراغِ راہ ہے۔ یہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ دنیا میں ظلم و ستم کے نظام کو دوام نہیں اور ایک دن ضرور ایسا آئے گا کہ انصاف اور عدل کا بول بالا ہوگا۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ مشکلات اور مصائب کے دوران کسی نہ کسی امید کے سہارے زندہ رہتا ہے۔ جب حالات ناسازگار ہوں، انصاف دب جائے اور طاقتور کمزوروں پر ظلم کریں تو انسان کے دل میں مایوسی کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں۔ ایسے میں عقیدہ مہدویت یہ پیغام دیتا ہے کہ یہ تاریکی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ وہ انسان کو یہ یقین دلاتا ہے کہ ہر ظالم کا انجام برا ہوگا اور حق و عدل کی فتح یقینی ہے۔

یہی امید انسان کو ٹوٹنے سے بچاتی ہے اور اسے حوصلہ دیتی ہے کہ وہ ظلم کے خلاف کھڑا ہو، خواہ حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ امام مہدیؑ کے ظہور کا یقین مظلوموں کے دلوں میں تسلی بخشتا ہے کہ ان کی صدائیں رائیگاں نہیں جا رہیں اور انصاف کا دن قریب ہے۔ یہ عقیدہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جو قومیں اپنی امیدوں کو زندہ رکھتی ہیں، وہ کبھی شکست نہیں کھاتیں۔ تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ہیں، جہاں کمزور ترین افراد نے صرف اپنی امید اور ایمان کے سہارے عظیم طاقتوں کو شکست دی۔ مہدویت کا چراغ بھی اسی امید کا استعارہ ہے، جو ظلم و جبر کے طوفانوں میں بھی بجھتا نہیں بلکہ مزید روشن ہو جاتا ہے۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ عقیدہ مہدویت صرف منفعل "انتظار" کا نام ہے، جبکہ ایسا ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک فعال انتظار کا درس دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کے بجائے اپنی ذات اور معاشرے کی اصلاح کے لیے جدوجہد کی جائے۔ جب انتظار کا حقیقی مفہوم یہ ہے تو تمام منتظرینِ امام کو اپنے آپ سے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ کیا ہم اپنے کردار کو بہتر بنا رہے ہیں۔؟ کیا ہم انصاف، سچائی اور دیانت کو فروغ دے رہے ہیں؟ کیا ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔؟ کیا ہم معاشرتی اصلاح اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں۔؟ امام مہدیؑ کے سچے منتظر وہی ہیں، جو اپنی زندگیوں میں عدل و انصاف کو اپناتے ہیں اور معاشرے میں بہتری کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔

انتظار کا مطلب صرف مستقبل کی امید نہیں بلکہ موجودہ حالات میں بہتری کے لیے کوشش کرنا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ "ظلم کے خلاف خاموش رہنے والا بھی ظالم کے جرم میں شریک ہوتا ہے۔ عقیدہ مہدویت صرف مکتبِ تشیع کا عقیدہ نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی پیغام ہے۔ امام مہدی علیہ السلام پوری انسانیت کے نجات دہندہ ہیں، چاہے وہ کسی بھی نسل، مذہب یا قوم سے تعلق رکھتے ہوں۔ یہ عقیدہ انسانیت کو فرقہ واریت، تعصب اور نفرت سے نکال کر اخوت، بھائی چارے اور یکجہتی کی راہ دکھاتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں کسی نہ کسی صورت میں ایک نجات دہندہ کے آنے کا تصور پایا جاتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسانی فطرت نجات اور امید کے عقیدے سے جڑی ہوئی ہے۔ عقیدہ مہدویت ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انسانیت ایک مشترکہ منزل کی طرف گامزن ہے، جہاں بھائی چارہ اور انصاف غالب ہوگا، عقیدہ مھدویت ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ انسانیت کا سفر کسی ایک قوم یا ملت تک محدود نہیں بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے ہے۔

امام مہدیؑ کا ظہور ایک عالمی انقلاب کی نوید ہے، جو صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے امید کی روشنی ہے۔ جب انسان کو یہ یقین ہو کہ اس کی جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی اور ایک دن دنیا میں عدل کا سورج طلوع ہوگا تو وہ سخت سے سخت حالات میں بھی حوصلہ نہیں ہارتا۔ امام مہدیؑ کے ظہور کا انتظار ہمیں مسلسل ایک بہتر انسان، بہتر معاشرہ اور بہتر دنیا کی تشکیل کے لیے متحرک رکھتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "جو شخص امام مہدیؑ کے ظہور کا منتظر ہو اور اس دوران حق کے لیے جدوجہد کرے، وہ گویا امام کے ساتھ جہاد میں شریک ہے۔" یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ انتظار محض ایک نظریاتی حالت نہیں بلکہ ایک عملی جدوجہد کا نام ہے۔ اگر ہم سچے معنوں میں منتظر امام مھدی بننا چاہتے ہیں تو ہمیں نہ صرف دعا کرنی ہوگی بلکہ اپنے کردار، رویئے اور معاشرتی اقدامات کے ذریعے اس عظیم مقصد کے لیے زمین ہموار کرنی ہوگی۔ یقیناً روشنی کبھی نہیں بجھتی، جب تک دل میں امید کا چراغ روشن ہو۔ عقیدہ مہدویت انسانیت کے لئے چراغ امید ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: عقیدہ مہدویت علیہ السلام نجات دہندہ نہیں بلکہ کے بجائے انسان کو یہ عقیدہ امید کا یہ یقین دیتا ہے کیا ہم ظلم کے کے لیے ہے اور میں یہ

پڑھیں:

پاکستانی بنا ویزا کے قطر کیسے جا سکتے ہیں؟

قطر نے پاکستانیوں کے لیے ویزا فری انٹری کی پالیسی متعارف کرائی ہے جس سے پاکستانی شہری اب بغیر ویزا کے قطر کا سفر کر سکتے ہیں۔ یہ اقدام قطر کی جانب سے سیاحوں کو راغب کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

سوشل میڈیا پر ان دنوں قطر جانے سے متعلق ایک خبر زیر گردش ہے وہ یہ کہ ’پاکستانی بغیر ویزا کے قطر جا سکتے ہیں‘۔ تاہم ان چیزوں کی وضاحت نہیں دی گئیں کہ بغیر ویزا کے قطر کتنے وقت کے لیے اور کس لیے جا سکتے ہیں۔

بغیر ویزا قطر جانے کے لیے چند اہم باتیں جاننا نہایت ضروری ہیں جن پر عمل کرکے بغیر کسی پریشانی کے قطر جایا جا سکتا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستانی وہاں زیادہ سے زیادہ 30 دن کے لیے رک سکتا ہے۔ اس کے لیے کنفرم ریٹرن ٹکٹ اور کنفرم ہوٹل بکنگ ہونا لازمی شرط ہے۔ جتنے دن قطر میں گزارنے ہیں اتنے دن کی ہوٹل ریزرویشن پہلے سے کنفرم ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ پولیو ویکسین کارڈ بھی درکار ہوتا ہے۔

مزید برآں قطر کے سفر کے لیے جانے والے فرد کے لیے اپنے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات واضح کرنا لازمی شرط ہے۔ وہاں سفر کرنے کے خواہشمند افراد کے اکاؤنٹ میں تقریباً 5 ہزار قطری ریال ہونے چاہیے۔

قطر کی جانب سے ویزا فری انٹری کی سہولت صرف وہاں سیر و سیاحت کے لیے جانے والے پاکستانیوں کو فراہم کی گئی ہے۔ نوکری کی تلاش کے لیے قطر جانے والوں کے لیے یہ سہولت نہیں ہے۔

اس پالیسی سے پاکستانی سیاح قطر کی متنوع ثقافت، تاریخی مقامات اور جدید فن تعمیر کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ مزید معلومات کے لیے قطر کی سرکاری ویب سائٹس یا سفارت خانے سے رابطہ کر کے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • امید ہے کہ جج وہ کرنے دینگے، جس کیلئے عوام نے منتخب کیا ہے، ٹرمپ
  • بیت المقدس کی تاریخ : رواداری کے چراغ، جبر کے اندھیرے
  • ایک عہد، حوصلے اور امید کا دن
  • انقلاب ایران مظلوم عوام کے لیے امید کی کرن تھا، گورنر سندھ
  • پاکستانی بنا ویزا کے قطر کیسے جا سکتے ہیں؟
  • بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
  • انقلاب اسلامی ایران، انفجار نور کی 46 ویں سالگرہ!(1)
  • گلبدین نائب دبئی کیپیٹلز کو ٹرافی دلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، آسٹریلوی لیجنڈ وارنر
  • ’امید ہے کہ خاتون اگلے انتخابات سے پہلے مر جائیں گی‘ برطانوی وزیر صحت نامناسب تبصرے پر معطل