Express News:
2025-02-12@00:58:39 GMT

جوڈیشل کمیشن کا اجلاس

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

26 ویں آئینی ترمیم اب آئین پاکستان کا باقاعدہ حصہ ہے۔ جیسے آئین پاکستان کے باقی آرٹیکلز اور شقوں پر عمل کرنا لازمی ہے، ایسے ہی 26ویں آئینی ترمیم سے جو شقیں آئین میں شامل کی گئی ہیں، ان پر عمل کرنا لازم ہے۔ اگر کسی کو 26ویں آئینی ترمیم پسند نہیں، اس کی کچھ شقوں سے اتفاق نہیں کرتے، تب بھی یہ آئین کا حصہ ہیں، انھیں تسلیم کرنا لازم ہے ،جب تک آئین موجود ہے، تب تک یہ ترمیم بھی موجود ہے۔

بہت سے لوگوں کے نزدیک آئین میں کچھ باتیں غلط ہیں، وہ آئین کے کچھ آرٹیکلز اور شقوں سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کا اختلاف ذاتی ہے ، اس کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے کیونکہ آئین کی ان شقوں کو کسی کی پسند یا نا پسند پر تبدیل یا ختم نہیں کیا جا سکتا۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں آئین کے اس حصہ کے تو حق میں ہوں، اسے مانتا ہو، لیکن اس حصہ سے اختلاف رکھتا ہوں، لہٰذا اس حصے کو نہیں مانتا۔ ماننا ہے تو پورآئین ماننا ہے۔

بہر حال سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے لیے جو طوفان تھا ، اس کی موجودگی میں سپریم کورٹ میں چھ نئے ججز کی تعیناتی ہو گئی ہے۔جوڈیشل کمیشن کا اجلاس منعقد ہوا، اس نئے ججز کی تعیناتی کا اعلان کر دیا گیا۔ اجلاس سے پہلے نئی تعیناتیاں رکوانے کے لیے سپریم کورٹ کے چار ججز نے بھی جوڈیشل کمیشن کو ایک خط لکھا۔ خبر کے مطابق یہ خط جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں غور کے لیے پیش کیا گیا، خط لکھنے والے دو ججز بھی اجلاس میں موجود تھے، ان کے خط اور دلائل پر ووٹنگ کرائی گئی۔

جوڈیشل کمیشن کے اکثریتی ارکان نے ججز کی تعیناتی کو موخر کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں جب یہ خط جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں زیر غور آگیا اور اس پر ووٹنگ ہو گئی تو انصاف کے تقاضے پورے ہو گئے۔ اکثریتی ارکان نے جب مطالبہ مسترد کر دیا تو پھر میں سمجھتا ہوں اجلاس کے بائیکا ٹ کا کوئی جواز نہیں تھا۔

جہاں تک بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر علی ظفر کے بائیکاٹ کا تعلق ہے تو وہ سیاسی بائیکاٹ ہے، میں اسے آئین کے تناظر میں نہیں دیکھتا۔ سیاسی جماعتوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ ان کی سیاسی ضروریات ہوتی ہیں، ان کے بائیکاٹ کو ان کی سیاسی ضروریات اور سیاسی مفادات کے تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔ لیکن دو ججز اور تحریک انصاف کا اکٹھا بائیکاٹ کرنا بھی کوئی اچھی بات نہیں۔ لوگ ماضی کی عدلیہ بحالی تحریک کی بہت مثالیں دیتے ہیں۔ لیکن یہ غلط مثالیں ہیں۔

تب تمام عدلیہ متحد تھی۔ آج ایسا نہیں ہے ، جو جج خط لکھ رہے ہیں، وہ اقلیت میں ہیں، ججز کی اکثریت ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے بھی ججز کی تعیناتی پر خط نہیں لکھا، ان کا اپنا سنیارٹی کا معاملہ ہے، اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے ہائی کورٹ سے کسی جج نے کوئی خط نہیں لکھا ہے۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے بھی کوئی خط نہیں لکھا ہے۔ صرف چار جج سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز کی نمایندگی نہیں کرتے ہیں۔

اسی طرح وکلاء کی اکثریت بھی 26ویں آئینی ترمیم اور ججز کی تعیناتیوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ ان تعیناتیوں سے پہلے سپریم کورٹ بار کے صدر نے چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کی۔ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس والے دن ملک میں متعدد بڑی بارز نے بھی ان تعیناتیوں کی حمایت میں پریس ریلیز جاری کیے۔ تا ہم لاہور بار اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار کی جانب سے اس موقع پر جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے خلاف لانگ مارچ اور احتجاج کی کال دی گئی تھی۔ چند وکلا سپریم کورٹ تک پہنچے بھی، ان کی تعداد کم تھی، اس لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلا س رک نہیں سکا۔

جب عدلیہ بحالی تحریک میں لانگ مارچ کیا گیا تو نواز شریف نے اسے کامیاب بنایا تھا۔ حامد خان گروپ اس کا کریڈٹ ضرور لیتا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگر نواز شریف خود نہ نکلتے تو ممکن نہیں تھا۔ اب بھی وکلا کی تحریک اسی لیے ناکام ہے ایک تو وکلا میں بھی بہت بڑی تقسیم ہے۔ صرف دو بارز کے سر پر تو وکلا کی تحریک نہیں چلائی جا سکتی، اگر ہزاروں وکیل پہنچ جاتے۔تو شاید کام بن جاتا۔ اقلیت کبھی اکثریت پر غالب نہیں آسکتی۔ جیسے جوڈیشل کمیشن کے اقلیتی ارکان جوڈیشل کمیشن کی کارروائی نہیں روک سکتے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی سے قبل تقریباً سب ہائی کورٹس میں ججز کی نئی تعیناتیاں بھی ہوئی ہیں۔ ان تعیناتیوں کے لیے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس بھی ہوئے ہیں، ان میں نامزدگیاں بھی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ میں نوایڈیشنل ججز کی تعیناتی ہوئی ہے۔ لیکن تب نہ تو وکلا نے احتجاج کیا۔ اور نہ ہی اس جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا گیا۔

صرف سپریم کورٹ کی نامزدگیوں یاتعیناتیوں پر ہی بائیکاٹ اور احتجاج کیوں ہوا؟ کیا 26ویں آئینی ترمیم کے تحت ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتیاں قبول ہیں اور سپریم کورٹ میں قبول نہیں؟ کیوں؟ یہ کیا منطق ہے۔ آپ کو ہائی کورٹس کی حد تک ترمیم قبول ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کی حد تک قبول نہیں۔ یہ منطق کیسے قبول کی جا سکتی ہے۔

بہر حال اب مجھے یہ سب چائے کی پیالی میں طوفان کی مانند ہی لگتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم نے رائی کا پہاڑ بنایا ہوا تھا۔26ویں آئینی ترمیم کی قبولیت سب طرف نظر آرہی ہے۔ وکلا کے اندر بھی اس کے لیے بہت قبولیت نظر آئی ہے۔ ججز کے اندر بھی اس کے لیے بہت قبولیت نظر آئی ہے۔ سیاسی میدان میں اس کی قبولیت آج بھی موجود ہے۔ ویسے تو اب کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن اگر عدلیہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کرتی تو پھر بھی یہ پارلیمنٹ سے دوبارہ منظور ہو جاتی اور وہ دوبارہ منظور کرنے میں کوئی دیر نہ لگاتی۔

کچھ دوستوں کا سوال ہے کہ کیا خط و کتابت بند ہو جائے گی۔ مجھے نہیں لگتا، البتہ کم ضرور ہو جائے گی۔ اس کا پہلا مرحلہ ختم ہوگیا ہے۔ بلکہ ناکام ہو گیا ہے۔ خط و خطابت کے وہ نتائج نہیں نکلے جس کی متوقع تھی۔ ان خطوط سے جو رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی، وہ بھی نہیں ہو سکا۔ وکلا بھی متحرک نہیں ہوئے، سارے ججز بھی ساتھ نہیں آئے۔ اس لیے اب دوبارہ کسی مناسب موقع کا انتظار کیا جائے گا۔ ابھی بائیکاٹ کا موسم شروع ہو گیا ہے۔ ہمیں بائیکاٹ کا سیزن انجوائے کرنا چاہیے۔ جیسے خطوط کا موسم انجوائے کیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جوڈیشل کمیشن کے اجلاس 26ویں ا ئینی ترمیم ججز کی تعیناتی سپریم کورٹ میں میں ججز کی ہائی کورٹ کیا گیا کورٹ کے گیا ہے نے بھی کے لیے

پڑھیں:

نئے ججز کی تعیناتی: چیف جسٹس کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آج ہوگا

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ میں 8 نئے ججز کی تعیناتی کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آج ہوگا۔

چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس دوپہر 2 بجے سپریم کورٹ کے کانفرنس روم میں ہوگا، جس میں سپریم کورٹ کے 8 ججوں کی تعیناتیوں پر غور کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ میں 8 نئے ججز کیلئے پانچوں ہائی کورٹس کے 5 سینئر ججز کے نام طلب کئے گئے ہیں۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے 4 ججز سمیت ممبر جوڈیشل کمیشن سینیٹر علی ظفر نے اجلاس ملتوی کرنے کیلئے چیف جسٹس کو خط لکھ رکھا ہے۔

وکلاء تنظیموں کا متوقع احتجاج، سپریم کورٹ جانے والے راستے بند
دوسری جانب وکلاء تنظیموں کے شاہراہ دستور پر متوقع احتجاج کے باعث سپریم کورٹ کے باہر سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کئے گئے ہیں، اسلام آباد میں ریڈزون کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا ہے، سپریم کورٹ کے احاطے میں بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔

سپریم کورٹ جانے کیلئے صرف مارگلہ روڈ کو کھلا رکھا گیا ہے جس سے اطراف میں شدید ٹریفک جام ہے، جبکہ جڑواں شہروں میں چلنے والی میٹرو بس سروس بھی محدود کر دی گئی ہے، میٹروبس سروس فیض احمد فیض تک چلائی جا رہی ہے جبکہ کشمیر ہائی وے تا پاک سیکرٹریٹ تک میٹرو بس سروس بند ہے۔

یاد رہے کہ آل پاکستان وکلاء ایکشن کمیٹی نے آج شاہراہ دستور پر احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل، پنجاب بار کونسل، کے پی کے بار کونسل، بلوچستان اور سندھ ہائی کورٹس بارایسوسی ایشن نے آج ہڑتال کی کال کو مسترد کر دیا ہے۔

بار کونسل ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ہم قانونی برادری کے منتخب نمائندے عدلیہ کی آزادی کے ساتھ کھڑے ہیں، جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے موقع پر انتشاری لوگوں کی کال کو ہم یکسر مسترد کرتے ہیں۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہڑتال کی کال کا فیصلہ صرف اور صرف منتخب قانونی باڈیز کر سکتی ہیں، ہم ایسی ہڑتالوں کی سختی سے مذمت کرتے ہیں اور یہ ہڑتال پہلے کی طرح ایک دفعہ پھر ناکام ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ کے 6 ججز کے ناموں کی منظوری دیدی
  • جوڈیشل کمیشن کا اجلاس: سپریم کورٹ کے 6 ججز کی نامزدگی کی منظوری
  • جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کا جوڈیشل کمیشن اجلاس کا بائیکاٹ
  • سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی؛ چیف جسٹس کی زیرِصدارت جوڈیشل کمیشن اجلاس شروع
  • 8 نئے ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی: جوڈیشل کمیشن کا اجلاس شروع
  • نئے ججز کی تعیناتی: چیف جسٹس کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آج ہوگا
  • سپریم کورٹ میں 8 نئے ججز کی تعیناتی پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آج ہوگا
  • 8 نئے ججز کی تعیناتی کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس پیر کو ہوگا
  • سپریم کورٹ میں 8 نئے ججز کی تعیناتی کامعاملہ، جوڈیشل کمیشن کا اجلاس کل طلب