Express News:
2025-04-13@15:37:39 GMT

مشکل فیصلے اور آگے کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’مشکل فیصلے کیے مگر آگے بھی سفر آسان نہیں ہے۔‘‘ اگرچہ اس دوران معیشت میں بہتری کے اشارے ملے ہیں۔ دو سال پہلے کے مقابلے میں اب جس قسم کے معاشی حالات ہیں، اس میں ڈیفالٹ کی بازگشت شامل نہیں ہے۔

اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کی خاطر اب زیادہ بے چینی اور بے یقینی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔ ایک سال یا ڈیڑھ سال قبل کی بات ہے جب آئی ایم ایف سے قرض لینے کی خاطر پاکستانی حکام کو بہت زیادہ بھاگ دوڑ کرنی پڑی تھی۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی اس سلسلے میں بہتر رہی ہے ۔

آج کل کی معاشی صورت حال مئی جون 2022 سے کافی مختلف ہے۔ پاکستان نے 2020 اور 2021 کے دوران کووڈ19 کا سامنا کیا تھا۔ جب ہر قسم کے کاروبار، تجارت اور چھوٹی بڑی دکانیں کمپنیاں دفاتر اسکول، کالجز وغیرہ کبھی 10 یوم ،کبھی 12 یوم کے لیے بند کردیے گئے تھے۔ دنیا کووڈ19 کی پابندیوں میں جکڑی ہوئی تھی، جس کے بھیانک اثرات پاکستان پر بھی محسوس ہو رہے تھے ۔ پاکستان کا خزانہ خالی تھا، خالی ہاتھ دیکھ کر آئی ایم ایف نے بھی 2020 کے دوران اپنی وصولی روک دی تھی۔

چند سال انتہائی مشکل ترین گزرنے کے بعد معیشت میں قدرے استحکام آیا ہے۔ اس کی ایک وجہ عالمی سطح پر بہت سے ملکوں کی معیشت جوکہ کووڈ19 کے سلسلے میں انتہائی مشکلات کا شکار ہو کر رہ گئی تھیں اور بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں مسلسل کووڈ کے سلسلے میں لمبی پابندیاں عائد تھیں، جب کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہوا۔ 2020 میں یعنی 23 مارچ کے بعد سے تقریباً ایک ماہ اس کے بعد کچھ دن پھر 2021 میں بھی چند ہفتوں کی بات تھی لہٰذا دیگر ملکوں کی نسبت ہماری معیشت بہت کم بند رہی۔ ان تمام خراب تر معاشی حالات کے باوجود اس وقت کی حکومت کا زور درآمدات میں اضافے پر ہی رہا۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 56 ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات 2020-21 کے دوران کی گئیں اور اس سے اگلے برس 2021-22 میں درآمدات 80 ارب ڈالر سے زائد کی رہیں۔جب 2022-23 کے دوران 55 ارب 33 کروڑ ڈالرزکی درآمدات ہوئیں اور تجارتی خسارہ ساڑھے 27 ارب ڈالرز کا رہا۔ اور 2023-24 کا تجارتی خسارہ 24 ارب ڈالر تک محدود ہوکر رہ گیا۔ اب بات یہ ہے کہ معیشت میں بہتری اتنی ہوئی ہو یا نہیں ہوئی ہو، بہرحال آگے کا سفر آسان نہیں ہے اگر بہتری آئی ہے تو اس کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے اور اس میں تیزی آنی چاہیے۔ معیشت میں مندی کے آثار اب بھی موجود ہیں لہٰذا درآمدات کا متبادل تیار کرنے کی طرف بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

امریکا نے چین پر لگے ہوئے ٹیکس میں اضافہ کردیا ہے جس سے چین میں موجود کمپنیاں شدید تشویش میں مبتلا ہو چکی ہیں۔ ان کی طرف سے جلد ہی ایسے اقدامات اٹھائے جانے کی توقع ہے کہ وہ اپنے کارخانے دیگر ترقی پذیر ملکوں میں منتقل کر دیں۔ پاکستانی حکام اور صنعتکار مل کر ایسا لائحہ عمل تیارکریں اور اس بارے میں صلاح و مشورہ کریں کہ ایسی کمپنیاں جوکہ لیبرکی طلب زیادہ کرتی ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ مزدوروں کی کھپت ہو سکتی ہو ان کمپنیوں کو پاکستان آ کر کارخانے، صنعتیں لگانے کی ترغیب دی جائے۔ اب یہاں پر صرف چینی نژاد صنعتکاروں تک بات محدود نہیں رکھنی چاہیے بلکہ چین میں موجود غیر ملکی کمپنیاں اور غیر ملکی صنعتکاروں کو بھی مدعو کیا جائے۔

اب جب کہ ملکی گوادر پورٹ اور گوادر کے ہوائی اڈے کا بھی حال ہی میں افتتاح ہوا ہے وہ کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اس سلسلے میں گوادر اور بلوچستان کے حالات کے ساتھ ساتھ اب خیبرپختونخوا کے حالات سے پاکستان کی معیشت شدید متاثر ہونے کی جانب گامزن ہے۔ اس صورت حال سے نکلنے کی صورت میں ہی معیشت میں ہلکی پھلکی بہتری کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

اس طرح اس معمولی معاشی ترقی کو جوکہ ہو رہی ہے اس کا تسلسل اس طرح برقرار رکھا جاسکتا ہے کہ معاشی و صنعتی ترقی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ممکن ہو سکے اور معیشت میں بہتری کے آثار جب ہی محسوس کیے جائیں گے جب ملک سے بے روزگاری کی شرح کو زیادہ سے زیادہ کم کیا جاسکے۔

صنعتی ترقی کی رفتار میں اضافے کا ایک مطلب یہ ہے کہ بندکارخانے کھل جائیں، نئے کارخانے قائم ہونے لگیں اور معاشی ترقی کی شرح میں اضافہ، روزگار کی شرح میں اضافہ، بے روزگاری کو بڑھنے سے روک دینا، لوگوں کی آمدن میں اضافہ، غربت کی شرح میں کمی، برآمدات جوکہ گزشتہ مالی سال محض ساڑھے تیس ارب ڈالر تک محدود رہی، اس میں مزید نصف مالیت کا اضافہ، اس کے علاوہ قرض پر انحصارکو زیادہ سے زیادہ کم کرنا اور دیگر بہت سے معاشی امور اور معاشی فیصلے ایسے ہیں۔

جن کے مثبت اثرات کے حصول کے لیے فیصلے کرنے کا وقت آ پہنچا ہے تاکہ حکومت نے اگر ٹھان لی ہے کہ اب آگے بڑھنا ہے تو اس میں معاشی صنعتی ماحول میں بہتری لانے کے ساتھ اب سیاسی ماحول کو بھی بہتر بنانا ہوگا تاکہ معاشی ترقی کے تسلسل کی رفتار کو تیز تر کیا جاسکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زیادہ سے زیادہ میں اضافہ سلسلے میں میں بہتری ارب ڈالر کے دوران کی شرح

پڑھیں:

اسلام آباد میں فیصلے کرنے والوں کو بلوچستان کی سمجھ ہی نہیں ہے، ظہور بلیدی

بلوچستان کے وزیر حکومت ظہور بلیدی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے، بلوچستان کا مسئلہ بیرون دشمنوں کی جانب سے سپانسرڈ ہے، اسلام آباد میں فیصلے کرنے والوں کو بلوچستان کی سمجھ ہی نہیں۔

یہ بھی پڑھیں وفاق اور صوبے کے درمیان کمیونیکیشن گیپ بلوچستان میں بغاوت کی وجہ ہے، ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند

وی نیوز کی ٹوئٹر اسپیس ’بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بیرون ممالک کی دشمن ایجنسیاں بلوچستان کے حالات کو جان بوجھ کر خراب کر رہی ہیں، دوسری جانب بلوچستان میں ایک شکایات کی جو لسٹ ہے، اس کو بھی اپنے مفاد کے لیے غلط استعمال کیا گیا ہے، اور اینٹی اسٹیٹ بیانیہ بنایا گیا ہے۔

ظہور بلیدی نے کہاکہ جہاں تک بلوچستان کے حالات ٹھیک کرنے کے بات ہے، اس کے لیے فوری حکمت عملی اپنانا پڑے گی، صوبائی اور وفاقی حکومت سمیت جتنے بھی اسٹیک ہولڈرز ہیں، سب کو مل کر ایک اسٹریٹیجی بنانی چاہیے، اس وقت ہمارے نوجوانوں کو دوبارہ سے مین اسٹریم کرنے کی ضرورت ہے، جس کے حوالے سے بلوچستان کی حکومت نے کافی اقدامات کیے بھی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت یوتھ انگیجمنٹ پروگرام کررہی ہے، اور اس کے علاوہ ہمارا ایک 10 سالہ ڈیولپمنٹ پروگرام ہے، جس کے تحت بلوچستان کی محرومیوں پر سرمایہ کاری کریں گے، تاکہ بلوچستان بھی باقی صوبوں کے برابر آ جائے، اور اس میں حکومت کو کامیابی ہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اس چیز پر کام کرنے کی ضرورت ہے کہ عوام کو اپنے بیانیے پر لایا جائے، اس کے علاوہ لوگوں میں اس نظام کے حوالے سے امید پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اس پر پاکستان پیپلز پارٹی اور ہماری حکومت اتحاد کے ساتھ کام کر رہی ہے تاکہ لوگوں کو حالات کی بہتری اور ڈیولپمنٹ اقدامات کے ذریعے قائل کیا جا سکے کہ وہ اسپانسرڈ دہشتگردی کی طرف نہ جائیں، اس کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں۔

ظہور بلیدی نے کہاکہ بلوچستان کی روٹ کازز کو ٹھیک کرنا چاہیے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ بلوچستان کو وفاق کی جانب سے نظرانداز کیا گیا، پاکستان کے 11 فیصد غریب بلوچستان میں ہیں، جبکہ بلوچستان کی آبادی 6 فیصد ہے۔ ہماری پالیسیاں جو اسلام آباد میں یا پھر کوئٹہ میں بنتی رہیں، ان میں بڑے نقص تھے، کیونکہ زمینی حقائق کچھ اور تھے۔

یہ بھی پڑھیں نواز شریف بلوچستان آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں ہے کیا؟ سردار اختر مینگل

انہوں نے کہاکہ اسلام آباد میں جب بات پہنچ جاتی ہے تو اس میں ایک بڑا فرق ہے، جیسا کہ تربت کے مسائل سے متعلق جب اسلام آباد میں بات کی جائے گی تو وہ نظریہ بھی درمیان میں آ جاتا ہے، اس کا ایک ریسرچ بیسڈ حل نکالنا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بلوچستان ٹوئٹر اسپیس صوبائی مسائل صوبائی وزیر ظہور بلیدی وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • اوورسیز پاکستانیوں کا ملکی معیشت کی بہتری میں اہم کردار ہے، عطاءاللہ تارڑ
  • چین اور اسپین کےدرمیان شعبہ فلم میں وسیع تعاون
  • اسلام آباد میں فیصلے کرنے والوں کو بلوچستان کی سمجھ ہی نہیں ہے، ظہور بلیدی
  • فیملی کا مشکل ترین دور کونسا تھا؟ عمران ہاشمی کا درد بھرا انکشاف
  • ٹیرف فیصلے کے بعد ایلون مسک نے سب سے زیادہ رقم کمائی
  • ٹیرف فیصلے کے بعد مسک نے سب سے زیادہ رقم کمائی
  • عالمی معاشی ترقی میں ایشیا الکاہل ممالک کا حصہ 60 فیصد، رپورٹ
  • ٹیرف جنگ: آن لائن کاروبار کرنے والے مشکل میں، ’آرڈر کینسل ہو جائیں گے‘
  • کچھ عناصر ملک کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے، کامران خان ٹیسوری
  • پاکستانی معیشت میں بہتری، بینک ڈیپازٹس اور اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں اضافہ