وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ عدلیہ میں ایسے ججز بیٹھے ہیں جنہوں نے ملک پر حکمرانی کی، یہ چپڑاسی سے لے کر ملک کے وزیراعظم تک کو اپنے سامنے دست بستہ کھڑا کر لیتے تھے۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ از خود نوٹس کے نام پر جسے دل چاہتا تھا اپنے سامنے کھڑا کر لیتے تھے، انہوں نے وزیراعظم کو بھی نہیں بخشا۔

یہ بھی پڑھیں عمران خان کی پی ٹی آئی کو وکلا تحریک کا ساتھ دینے کی ہدایت

انہوں نے کہاکہ یہ ایک سوچ ہے جس کی وجہ سے ججز کو اب ریاست ہوا میں محسوس ہورہی ہے۔ ججز کی تعیناتی اور تبادلوں کا پرانا اصول ہم نے تبدیل نہیں کیا بلکہ ججز نے سینیارٹی میں اپنی تجاویز دیں۔

رانا ثنااللہ نے کہاکہ حکومت پر ہر چیز کا الزام ڈال دیا جاتا ہے، ہمیں گالی دینا بہت آسان ہے۔

مشیر وزیراعظم نے کہاکہ جسٹس منصور علی شاہ نے ججز کی تعیناتی اور تبادلوں کے حوالے سے خود فارمولا دیا تھا، اب جب حکومت نے اس کی بنیاد پر آئینی ترمیم کردی تو یہ غلط کیسے ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ میں 6 ججز کی تعیناتی کی منظوری دی تھی، تاہم جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ میں نئے تعینات ہونے والے ججز کون ہیں؟

26ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر جہاں وکلا تحریک چلانے کا اعلان کرچکے ہیں وہیں سپریم کورٹ کے کچھ ججز چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ فل کورٹ میں زیر بحث لایا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آئینی ترمیم ججز جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس پاکستان حکومت رانا ثنااللہ مشیر وزیراعظم وکلا تحریک وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس پاکستان حکومت رانا ثنااللہ وکلا تحریک وی نیوز رانا ثنااللہ نے کہاکہ

پڑھیں:

سپریم کورٹ میں نئے تعینات ہونے والے ججز کون ہیں؟

سپریم کورٹ میں نئے تعینات ہونے والے دو چیف جسٹسز اختیارِ سماعت کو لے کر 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں مسترد کرچکے ہیں۔

گزشتہ روز جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں 8 ججز کی تعیناتی کی منظوری دینا تھی لیکن 6 ججز تعینات کیے گئے اور لاہور ہائیکورٹ سے کوئی جج تعینات نہیں کیا گیا، اس ضِمن میں ایک تو سوال یہ ہے کہ آیا سپریم کورٹ میں اتنے ججز کی ضرورت کیا تھی؟

یہ بھی پڑھیں جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ میں 6 ججوں کی تعیناتی کی منظوری دے دی

آج چیف جسٹس نے صحافیوں سے ملاقات کے دوران اِس بات پر زور دیا کہ سپریم کورٹ ججز جو ایک روز میں 12 مقدمات کی سماعت کیا کرتے تھے، اب 40/30 مقدمات کی سماعت کرتے ہیں اور ججز کے اوپر کام کا دباؤ بہت زیادہ ہے اور اُنہیں سپریم کورٹ میں مقدمات کی سماعت تیز کرنے کے لیے زیادہ ججز درکار ہیں۔

دوسرا اُنہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے ایکٹنگ جج جسٹس میاں گُل حسن اورنگزیب کے بارے میں کہاکہ اُن کو سپریم کورٹ لانے کی تجویز اُنہوں نے خود دی تھی کیونکہ اُنہیں کارپوریٹ اور ٹیکس مقدمات کی سماعت کرنے والا جج چاہیے، لیکن ساتھ ہی اُنہوں نے یہ کہاکہ جسٹس میاں گُل حسن اورنگزیب اب بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بن سکتے ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ کو چھوڑ کر ملک کی 4 ہائیکورٹس سے 6 ججز سپریم کورٹ میں تعینات کیے گئے ہیں، اور جوڈیشل کمیشن کے آئندہ اجلاس میں ممکنہ طور پر لاہور ہائیکورٹ سے ججز کی تعیناتی پر غور کیا جائےگا۔ سپریم کورٹ میں جج تعینات ہونے والوں میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق، پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس اشتیاق ابراہیم، سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس شفیع صدیقی، بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس ہاشم کاکڑ، پشاور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شکیل احمد اور سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس صلاح الدین پنہور شامل ہیں۔

سپریم کورٹ کے نئے ججز کون ہیں؟ جسٹس عامر فاروق

جسٹس عامر فاروق اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہیں، وہ یکم جنوری 2015 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج تعینات ہوئے اور 23 دسمبر 2015 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے مستقل جج بن گئے۔ 11 نومبر 2022 کو اُنہوں نے بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔

2010 میں وجود میں آنے والی اسلام آباد ہائیکورٹ باقی ہائیکورٹس سے اس لیے زیادہ اہم ہے کہ وفاقی حکومت سے متعلق مقدمات، سیاستدانوں، بیوروکریٹس سے متعلق مقدمات اکثر اسی عدالت میں زیر سماعت آتے ہیں اور اپنے قیام سے لے کر اب تک یہ عدالت قومی نوعیت کے کئی مقدمات کے فیصلے کرچُکی ہے۔

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز کی بریت کے فیصلے بھی اسلام آباد ہائیکورٹ سے صادر ہوئے اور اُن بینچز میں چیف جسٹس عامر فاروق بھی شامل تھے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم عمران خان سے متعلق بھی بہت سارے مقدمات کا یا تو اسلام آباد ہائیکورٹ سے فیصلہ ہوا یا زیرِالتوا ہیں۔

جسٹس عامر فاروق کے مشہور فیصلے اور اُن سے جُڑے تنازعات

حال ہی میں جب جسٹس سرفراز ڈوگر لاہور ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہوکر اسلام آباد ہائیکورٹ آئے تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججوں نے سینیارٹی کے حوالے سے چیف جسٹس عامر فاروق کے سامنے ریپریزنٹیشن فائل کی جسے اُنہوں نے مسترد کردیا۔

جسٹس عامر فارق اُس بینچ کا حصہ تھے جس نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی اضافی سیکیورٹی کے لیے دائر درخواست مسترد کردی تھی۔

گزشتہ سال 24 نومبر کو پی ٹی آئی احتجاج کے حوالے سے چیف جسٹس عامر فاروق نے اسلام آباد کے تاجروں کی درخواست پر پی ٹی آئی اور حکومت دونوں پر برہمی کا اظہار کیاکہ دونوں شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے۔

اکتوبر 2024 میں جسٹس عامر فاروق نے ماتحت عدلیہ کے سول جج انعام اللہ کو معطل کردیا تھا جس نے مارگلہ ہلز پر تعمیرات کے انہدام کے حوالے سے سپریم کورٹ احکامات پر حکم امتناع جاری کردیا تھا۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے جسٹس عامر فاروق پر عدم اعتماد ظاہر کیا اور اُس کے بعد جولائی 2024 میں اُن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی دائر کردیا۔

جسٹس محمد اشتیاق ابراہیم

جسٹس محمد اشتیاق ابراہیم اس وقت پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہیں۔ وہ 11 اگست 2016 کو پشاور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر ہوئے جبکہ اِس کے بعد 2017 میں اُنہیں ایک سال کی توسیع دی گئی اور پھر یکم جون 2018 کو وہ پشاور ہائیکورٹ کے مستقل جج مقرر ہوئے۔ اُنہوں نے 20 اپریل 2024 کو بطور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اپنے عہدے کا حلف لیا۔

5 فروری 2025 کو چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے پہلی ایسی عدالت کا افتتاح کیا جو صرف وراثت سے متعلق مقدمات سننے کے لیے مختص ہے۔

جسٹس محمد اشتیاق ابراہیم گزشتہ برس نومبر میں پشاور ہائیکورٹ کے اُس بینچ کے سربراہ تھے جس نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست مسترد کردی تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایسی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر ہونی چاہییں کیونکہ یہ ایسے معاملے سے متعلق ہے جو سارے ملک کو متاثر کرتا ہے۔

اگست 2024 میں خیبر پختونخوا حکومت نے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ 9 مئی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانا چاہتے ہیں اس کے لیے ججز نامزد کریں۔ اس درخواست کے جواب میں بذریعہ رجسٹرار پشاور ہائیکورٹ جواب دیا گیا کہ درخواست مجاز فورم سے دائر نہیں کی گئی۔

جسٹس شفیع صدیقی

جسٹس شفیع صدیقی اس وقت سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہیں۔ انہوں نے 13 جولائی 2024 کو اپنے عہدے کا حلف لیا۔ اس سے قبل وہ کچھ عرصہ چیف جسٹس عقیل عباسی کی بطور سپریم کورٹ جج تعیناتی کے بعد سے بطور قائم مقام چیف جسٹس فرائض سرانجام دیتے رہے۔ وہ 2012 میں سندھ ہائیکورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ اس سے قبل 1992 میں بطور ایڈووکیٹ ماتحت عدالتوں سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ 1994 میں بطور ہائیکورٹ ایڈووکیٹ اور 2008 میں سپریم کورٹ میں بطور ایڈووکیٹ انرولڈ ہوئے۔

جسٹس شفیع صدیقی نے جن کیسز کے فیصلے سنائے ان میں آئینی، ٹیکسیشن، کسٹمز اور ہائیکورٹ اپیلوں کے فیصلے شامل ہیں۔

جسٹس شفیع صدیقی کی سربراہی میں سندھ ہائیکورٹ کے ایک بینچ نے 15 اکتوبر 2024 کو 26 ویں آئینی ترمیمی بِل کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی تھی۔ عدالت نے کہاکہ ابھی تو یہ بِل پارلیمنٹ میں پیش ہوا ہے، اِس مرحلے پر مداخلت نہیں کر سکتے۔

یہ بھی پڑھیں وفاقی حکومت کا سپریم کورٹ ججز کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ

جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ

جسٹس ہاشم کاکڑ اس وقت بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہیں۔ وہ ماتحت عدلیہ سے ترقی پا کر ہائیکورٹ کے جج بنے۔ 11 مارچ 2002 کو جسٹس کاکڑ انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج مقرر ہوئے، 12 مئی 2011 کو وہ بلوچستان ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج تعینات ہوئے اور 11 مئی 2012 کو مستقل جج بنے جبکہ 20 اپریل 2024 کو بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تعینات ہوئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews جسٹس عامر فاروق جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ صوبائی ہائیکورٹس نوتعینات ججز وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز کا طرز عمل ایسا ہے کہ ریفرنس بنایا جاسکتا ہے، رانا ثناءاللّٰہ
  • سپریم کورٹ میں نئے تعینات ہونے والے ججز کون ہیں؟
  • حکومت سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز کے خلاف ریفرنس پرغور کررہی ہے،راناثناء اللہ
  • آزاد فلسطینی ریاست کا کا دارالحکومت القدس الشریف ہوگا، وزیراعظم
  • آئی ایم ایف وفد کی سپریم کورٹ آمد: بانی پی ٹی آئی کا خط ملا، مندرجات سنجیدہ نوعیت کے ہیں، چیف جسٹس
  • ججز تقرریاں،حکومت، چیف جسٹس کی گرفت مزید مضبوط
  • عمران خان کا آرمی چیف کو خط قومی سطح کا جرم ہے، رانا ثنااللہ
  • ریاست منی پور کے وزیراعلٰی کو بہت پہلے استعفیٰ دے دینا چاہیئے تھا، پرینکا گاندھی
  • عالمی ادارے تسلیم کررہے ہیں پاکستان کی معیشت مستحکم ہورہی ہے، رانا تنویر