انسانی دماغ کس رفتار سے سوچتا ہے؟ بالآخر رفتار کا تعین کرلیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
سائنس دانوں نے بالآخر انسان کے سوچنے کے عمل کی رفتار کا تعین کرلیا ہے۔ اس پیش رفت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم ایک وقت میں صرف ایک سوچ پر عمل کیوں کر پاتے ہیں۔
انسانی جسم کے نظام حس، جن میں آنکھیں، کان، جلد اور ناک شامل ہیں، ہمارے ماحول کے بارے میں ایک ارب بٹس فی سیکنڈ کی شرح سے ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں۔
تاہم محققین نے اس مطالعے میں دریافت کیا ہے کہ دماغ ان سگنلز کو صرف10 بٹس فی سیکنڈ کی رفتار سے ہی پروسیس کر پاتا ہے۔ یہ رفتار اسے ملنے والے مواد کی رفتار سے لاکھوں گنا سست ہے۔ بٹ ایک عام وائی فائی کنکشن کے ساتھ کمپیوٹنگ معلومات کی بنیادی اکائی ہے جہاں تقریباً 5کروڑ بٹس فی سیکنڈ پروسیسنگ ہوتی ہے۔
انسانی دماغ میں 85 ارب سے زیادہ نیوران ہوتے ہیں، جن میں سے ایک تہائی اعلیٰ درجے کے سوچنے کی صلاحیت والے برین سیلز بیرونی دماغ کے زیادہ ترقی یافتہ بیرونی حصے کارٹیکس میں موجود ہوتے ہیں۔
محققین نے انسانی رویوں، جیسے پڑھنے، لکھنے، ویڈیو گیمز کھیلنے اور روبکس کیوب کو حل کرنے پر موجودہ سائنسی لٹریچر کا جائزہ لیا اور حساب لگایا کہ انسان 10 بٹس فی سیکنڈ کی رفتار سے سوچتے ہیں جو ان کے نزدیک ’انتہائی سست‘ رفتار ہے۔
تحقیق کے شریک مصنف مارکس میسٹر نے کہا ’ہر لمحے، ہم ہمارے نظام حس سے ٹریلین بٹس میں سے صرف 10 بٹس کا استعمال ہی کر پاتے ہیں اور ان 10 بٹس کو اپنے اردگرد کی دنیا کو سمجھنے اور فیصلے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہری تضاد پیدا ہوتا ہے کہ دماغ ان تمام معلومات کو فلٹر کرنے کے لیے کیا کرتا ہے؟‘
دماغ میں انفرادی اعصابی خلیے طاقتور معلوماتی پروسیسرز کے طور پر جانے جاتے ہیں جو آسانی سے 10 بٹس فی سیکنڈ سے زیادہ معلومات کو منتقل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ تاہم نئے نتائج بتاتے ہیں کہ وہ اتنی تیزرفتاری سے خیالات یا سوچ کو پروسیس کرنے میں مدد نہیں کرتے، جس کی وجہ سے انسان نسبتاً سست عمل سے خیالات کو متوازی طور پر پروسیس کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ ایسے حالات کو روکتا ہے جیسے ایک شطرنج کا کھلاڑی مستقبل کی کئی چالوں کا تصور کر سکے اور اس کے بجائے لوگوں کو ایک وقت میں صرف ایک ممکنہ ترتیب کو دریافت کرنے کی اجازت دیتا ہے، نہ کہ کئی کو بیک وقت۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دماغ میں اس ’رفتار کی حد‘ کے ظاہری تضاد کی دریافت نیوروسائنس میں مزید تحقیق کا تقاضا کرتی ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ رفتار کی حد ممکنہ طور پر ان پہلے جانداروں میں پیدا ہوئی تھی جن کے پاس اعصابی نظام تھا۔ ان مخلوقات نے ممکنہ طور پر اپنے دماغ کو محض خوراک حاصل کرنے اور شکاریوں سے بچنے کے لیے بنیادی طور پر نیویگیشن کے لیے استعمال کیا تھا۔
چونکہ انسانی دماغ ان سادہ نظاموں پر چلنے کے لیے تیار ہوا ہے، جیسا کہ اس مطالعے کے محققین نے بتایا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم ایک وقت میں سوچ کے صرف ایک ’راستے‘ پر ہی چل سکیں۔ ان کے بقول ’ہمارے آباؤ اجداد نے ایک ماحولیاتی مقام کا انتخاب کیا ہے جہاں دنیا اتنی سست ہے کہ وہ ان کے بقا کو ممکن بنا سکتی ہے۔
حقیقت میں فی سیکنڈ10 بٹس کی ضرورت صرف بدترین صورت حال میں ہوتی ہے اور زیادہ تر وقت ہمارا ماحول بہت زیادہ آرام دہ رفتار سے ہی بدلتا ہے۔‘ تحقیق کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ مشینیں آخرکار ہر اس کام کو انجام دے سکتی ہیں جو فی الحال انسانوں کرسکتے ہیں کیونکہ ان کی کمپیوٹنگ طاقت ہر دو سال بعد دوگنی ہو رہی ہے۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ ’یہ بحث کہ خودکار گاڑیاں ٹریفک میں انسان جتنی کارکردگی حاصل کریں گی، اب پرانی لگتی ہے کیونکہ سڑکیں، پل اور چوراہے ان مخلوق کے لیے بنائے گئے ہیں جو معلومات کو 10 بِٹ فی سیکنڈ کی رفتار تک ہی پروسیس کر پاتے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بٹس فی سیکنڈ فی سیکنڈ کی رفتار سے کی رفتار کے لیے ہیں جو
پڑھیں:
ایف آئی اے کی 3 شہریوں میں کارروائیاں، 3 انسانی اسمگلر گرفتار
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 3 مختلف شہروں میں کارروائیاں کر کے 3 انسانی اسمگلرز کو گرفتار کرلیا۔
ایف آئی اے کے مطابق گوجرانوالہ، لاہور اور قصور میں کارروائیاں کیں اور 3 انسان اسمگلرز گرفتار کیے۔
ایف آئی اے کے مطابق گرفتار ملزمان میں آصف جاوید، فیضان اور طیب سہیل شامل ہیں، جن کے خلاف ایف آئی اے تھانے میں مقدمات درج تھے۔
حکام کے مطابق ملزم آصف نے شہری کو جرمنی بھجوانے کا جھانسہ دیکر 15 لاکھ، ملزم فیضان نے ملائیشیا بھجوانے کے عوض شہری سے 6 لاکھ اور ملزم طیب سہیل نے برطانیہ بھجوانے کےلیے ایک شہری سے 45 لاکھ روپے بٹورے تھے۔