فلسطین فلسطنیوں کا ہے، تاریخی اور عالمی حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یہ تاریخ حقائق بتاتے ہیں کہ یہودی نسل کشی اگر ہوئی تو ہوئی بھی یورپ میں، لیکن عالمی طاقتوں امریکہ اور برطانیہ نے سازش کے تحت انہیں غیر قانونی طور پر فلسطین میں لا بسایا، موجودہ امریکی صدر دہائیوں کے بعد بھی اسی ظالمانہ اور مستکبرانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ عربوں کی جانب سے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنیکا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ غاصب صیہونی ریاست کا وزیراعظم ہزاروں مسلمان بچوں کو قتل کرنے اور مرد و خواتین کو قیدی بنانے کے یہ کہہ رہا ہے کہ سعودی عرب کے پاس جگہ وہاں فلسطینیوں کو لے جائیں اور آباد کریں۔ ترتیب و تنظیم: علی احمدی
941 سے لے کر 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے آخری دنوں تک، دنیا کے تقریباً 60 لاکھ یہودیوں کو حراستی کیمپوں میں، جو بعد میں موت کے کیمپوں کے نام سے مشہور ہوئے، ہر روز سینکڑوں یہودیوں کو پھانسی دی جاتی تھی یا گیس چیمبروں میں دم گھٹا کر ہلاک کیا جاتا تھا، اور ان کی لاشوں کو جلا کر قبرستانوں میں پھینک دیا جاتا تھا۔ بہت سے لوگ بھوک اور بیماری سے بھی مر گئے۔ یہ تاریخ حقائق بتاتے ہیں کہ یہودی نسل کشی اگر ہوئی تو ہوئی بھی یورپ میں، لیکن عالمی طاقتوں امریکہ اور برطانیہ نے سازش کے تحت انہیں غیر قانونی طور پر فلسطین میں لا بسایا، موجودہ امریکی صدر دہائیوں کے بعد بھی اسی ظالمانہ اور مستکبرانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ عربوں کی جانب سے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنیکا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ غاصب صیہونی ریاست کا وزیراعظم ہزاروں مسلمان بچوں کو قتل کرنے اور مرد و خواتین کو قیدی بنانے کے یہ کہہ رہا ہے کہ سعودی عرب کے پاس جگہ وہاں فلسطینیوں کو لے جائیں اور آباد کریں۔ گزشتہ دنوں عالمی استعمار امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ غزہ کی پٹی پر قبضہ کرے گا تاکہ ہم اسے دوبارہ تعمیر کر سکیں اور اس کے فلسطینی باشندوں کو دوسرے ممالک میں آباد کر سکیں۔ اس حوالے سے علام اسلام، عرب ممالک، عظیم فلسطین قوم اور محور مقاومت سمیت دنیا بھر سے اس برے خیال کی مذمت کی گئی ہے۔ سعودی عرب بالخصوص سعودیہ کے سابق انٹیلی جنس چیف اور ماضی میں امریکہ و برطانیہ میں سفارتی فرائض خدمات انجام دینے والے ترکی الفیصل نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کیساتھ انٹرویو میں کہا کہ اگر فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرکے دوسرے علاقوں میں آباد کیا جانا ہے تو انہیں اپنے گھروں حیفہ اور جافا میں واپس جانے کا حکم دیں، جہاں سے انہیں اسرائیلیوں نے زبردستی بے دخل کیا تھا۔ عرب شہزادے نے یہ جواب اس وقت دیا جب میزبان کرسٹین امان پور نے ان سے پوچھا کہ آیا وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ سعودی تعلقات کو معمول پر لانا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کی پٹی پر کنٹرول کے بعد ممکن ہو سکے گا۔
ترکی الفیصل کا موقف دراصل تاریخی عرب موقف ہے، جو ابن سعود نے بھی اپنایا تھا، اس میں شک نہیں کہ سعودی حکمران اپنے اس سے موقف سے ہٹ گئے ہیں لیکن تاریخی واقعیت اپنی جگہ پر موجود ہے۔ ترکی الفیصل بھی اسی تاریخی حقیقت کو دہراتے ہوئے امریکی اینکر سے کہہ رہے تھے کہ غزہ کے زیادہ تر باشندے پناہ گزین ہیں جنہیں 1948 اور 1967 کی جنگوں میں اسرائیل کے نسل کش حملوں کی وجہ سے مقبوضہ فلسطین اور مغربی کنارے میں اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ اگر انہیں غزہ سے منتقل کیا جانا ہے تو انہیں اپنے گھروں حیفا، جافا میں زیتون کے باغات اور دوسرے شہروں اور دیہاتوں کو واپس جانے کی اجازت دی جائے جہاں سے اسرائیلیوں نے انہیں زبردستی بے دخل کیا تھا۔ امریکہ میں سابق سعودی سفیر نے ٹرمپ سے مخاطب ہو کر کہا کہ جناب صدر! دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ اور دیگر جگہوں سے فلسطین آنے والے دسیوں ہزار تارکین وطن نے فلسطینیوں کے مکانات اور زمینیں چوری کیں، لوگوں کو دہشت زدہ کیا اور نسلی تطہیر کی مہم کا آغاز کیا، لیکن بدقسمتی سے جنگ کے فاتح امریکہ اور انگلستان نے اسرائیلیوں کا ساتھ دیا اور یہاں تک کہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کرنے میں ان کی مدد کی۔
فرینکلن روزویلٹ (امریکی صدر) اور ان کے روسی ہم منصب جوزف اسٹالن کے درمیان مذاکرات کی کہانی: دائیں طرف سے: مارشل جوزف اسٹالن(سوویت رہنما)، فرینکلن روزویلٹ (امریکی صدر) اور ونسٹن چرچل (برطانوی وزیراعظم) جزیرہ نما کریمیا (یوکرین) کے یالٹا محل میں، فروری 1945 امریکہ اور انگلینڈ اڈولف ہٹلر کے ہولوکاسٹ کے متاثرین کی میزبانی نہیں کرنا چاہتے تھے، لہذا انہوں نے انہیں فلسطین بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ کتاب 8 دن ان یالٹا میں مصنف ڈیانا پریسٹن نے اس وقت کے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ اور ان کے روسی ہم منصب جوزف اسٹالن کے درمیان ہونے والی گفتگو کا حوالہ دیا ہے۔ پریسٹن لکھتے ہیں گفتگو یہودی سرزمین کے موضوع کی طرف موڑ دی گئی۔ ڈیانا پریسٹن کے مطابق خوش قسمتی سے، جب مسٹر روزویلٹ کی ابن سعود سے ملاقات ہوئی، بادشاہ نے اس پیشکش کا فائدہ اٹھایا اور تجویز پیش کی کہ جرمنی میں بہترین زمینیں یہودیوں کو ہولوکاسٹ کے معاوضے کے طور پر پیش کی جائیں۔ بدقسمتی سے، روزویلٹ کے جانشین، ہیری ٹرومین نے پورے دل سے فلسطین میں یہودیوں کی نقل مکانی کی حمایت کی اور بالآخر اسرائیل کی تخلیق کا ایک آلہ بن گیا۔ آج ہم جس تشدد اور خونریزی کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ اسی کارروائی کا نتیجہ ہے اور 1917 سے اس وقت تک صیہونی عزائم کے ساتھ برطانیہ کی سابقہ ملی بھگت ہے۔
سعودی شہزادے ترکی الفیصل نے ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جناب صدر، فلسطین میں امن قائم کرنے کا آپ کا واضح ارادہ دنیا کے ہمارے حصے میں انتہائی قابل تعریف ہے، میں احترام کے ساتھ تجویز کرتا ہوں کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت اور ایک ایسی ریاست جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو، جیسا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں 181 اور 194، سلامتی کونسل کی قراردادوں 242 اور 338 میں درج ہے، تمام عرب اور اسلامی ممالک، نیز فلسطینی اتھارٹی، دشمنی کے خاتمے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے عرب امن منصوبے کی شرائط کو قبول کرتے ہیں۔ ایک سو انتالیس ممالک فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں۔ براہ کرم اپنے ملک کو 150 واں ملک بنائیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کے مطالبے کے بعد شہزادہ ترکی الفیصل نے ٹرمپ کو لکھے گئے خط میں مزید کہا کہ فلسطینی عوام غیر قانونی تارکین وطن نہیں ہیں جنہیں دوسری سرزمین پر جانا چاہیے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ وہ زمینیں جہاں فلسطینی رہتے ہیں، ان کی زمینیں ہیں، اور اسرائیل نے جن گھروں کو تباہ کیا وہ ان کے گھر ہیں، اور وہ اپنے گھروں کو دوبارہ تعمیر کریں گے، جیسا کہ اسرائیل کے پچھلے حملوں میں ہوا تھا۔ سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ نے زور دے کر کہا کہ غزہ کے زیادہ تر باشندے پناہ گزین ہیں جنہیں 1948 اور 1967 کی جنگوں میں اسرائیل کی طرف سے ان کے خلاف گزشتہ نسل کشی کے حملوں کی وجہ سے اب اسرائیل (مقبوضہ فلسطینی علاقے) اور مغربی کنارے میں اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ واضح رہے امریکہ کے متنازع ترین صدر متنازع بیانات میں غزہ کے مسائل کے حل کے لیے خطے سے مکمل انخلا اور فلسطینیوں کو پڑوسی عرب ممالک میں آباد کرنے پر زور دیا ہے۔ امریکی مالی، دفاعی اور سیاسی حمایت اور مدد سے غزہ میں وسیع پیمانے پر ہونے والی تباہی کی وجہ سے حالات زندگی کے ناگفتہ بہ ہونے کا پوری بے شرمی کیساتھ ذکر کرتے ہوئے امریکی صدر نے تجویز پیش کی ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے پڑوسی عرب ممالک بشمول مصر اور اردن غزہ کے لوگوں کا خیرمقدم کریں اور انہیں دوبارہ آباد کریں تاکہ غزہ کی پٹی کے مکینوں کی نقل مکانی کے بہانے غزہ کی پٹی میں موجود مسائل کو ختم کیا جا سکے۔ مصر اور اردن کے رہنماؤں کو اپنی تجویز پر زور دیتے ہوئے ٹرمپ نے ان سے کہا کہ وہ اس منصوبے پر عمل درآمد میں تعاون کریں۔ ٹرمپ کے بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اسرائیلی حکومت غزہ کے شمالی اور جنوبی حصوں کو تقسیم کرکے غزہ کی پٹی کے شمالی حصے کا کثیر الجہتی محاصرہ کرنے میں مصروف ہے اور غزہ کی پٹی کے شمالی حصے میں تقریباً 500,000 افراد رہائش پذیر ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو ترکی الفیصل امریکی صدر فلسطین میں امریکہ اور اپنے گھروں اسرائیل کے غزہ کی پٹی کے ساتھ اور اس غزہ کے ہیں کہ اور ان کہ غزہ کہا کہ کے بعد
پڑھیں:
امریکی ٹیرف کا عالمی معیشت پر اثرات کا اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا، آئی ایم ایف سربراہ
آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے کہا کہ امریکی ٹیرف ایک بدلتی ہوئی کہانی ہیں اور ابھی ان کے عالمی معیشت پر اثرات کا اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا۔
دبئی میں ورلڈ گورنمنٹ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹا لینا جار جیوا کا کہنا تھا کہ یہ ایک بدلتی ہوئی کہانی ہے ہمارے پاس تجارتی پالیسی کے وہ عناصر موجود ہیں جن کی توقع کی جا رہی تھی کیونکہ ان کا اعلان انتخابی مہم کے دوران کیا گیا تھا لیکن ابھی بہت کچھ غیر یقینی ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نےکہا کہ عالمی معیشت غیرمعمولی جھٹکوں کے باوجود کسی حد تک مستحکم دکھائی دے رہی ہے۔
جارجیواکا کہنا تھا کہ اس کے مستقبل کا اندازہ لگانا مشکل ہےہمیں دیکھنا ہوگا کہ حالات کس طرح آگے بڑھتے ہیں کیونکہ اگر دنیا کے کچھ حصوں میں سست روی آتی ہے تو مرکزی بینک شرح سود میں کمی کر سکتے ہیں اور اس سے مہنگائی میں اضافہ نہ بھی ہو۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر محصولات میں نمایاں اضافہ کرتے ہوئے انہیں 25 فیصد تک کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے امریکہ میں جدوجہد کرنے والی انڈسٹریز کو فائدہ ہوگا لیکن یہ ایک بڑی تجارتی جنگ کو بھی جنم دے سکتا ہے۔