Islam Times:
2025-02-11@19:47:49 GMT

20 ہزار فلسطینیوں کا الجنین سے انخلا

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

20 ہزار فلسطینیوں کا الجنین سے انخلا

مقامی فلسطینی شہری اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین کی مدد کر رہے ہیں، مگر فلسطینی اتھارٹی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، جبکہ اسرائیلی حملے کا دائرہ مزید وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی فوج کا جنین اور اس کے مہاجر کیمپ پر 21 روزہ حملہ فلسطینیوں کے لیے ایک بڑا انسانی المیہ بن گیا، جس کے نتیجے میں 20 ہزار سے زائد فلسطینی، یعنی 90% کیمپ کے رہائشی، اپنے گھروں سے بے دخل کر دیے گئے۔   جبری انخلا اور انسانی بحران: اسرائیلی فوج نے جنین پر حملے کے دوران ڈرونز اور قناصوں کے ذریعے خوف و ہراس پھیلایا اور دعویٰ کیا کہ محفوظ راستہ فراہم کیا جا رہا ہے، مگر درحقیقت بے گناہ شہریوں پر گولیاں برسائی گئیں اور گھروں کو بلڈوزروں سے مسمار کیا گیا۔ فلسطینیوں نے 4 سے 5 کلومیٹر پیدل سفر کرکے محفوظ مقامات پر پہنچنے کی کوشش کی، جس دوران بہت سے بچے اپنے والدین سے بچھڑ گئے۔   تباہی اور جانی نقصان: 25 فلسطینی شہید کر دیے گئے، 180 مکانات مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے، جبکہ بے شمار گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔ اسرائیلی فوج نے 2002 کے بعد پہلی بار بڑے پیمانے پر مکانات کو دھماکوں سے اڑا دیا اور 20 گھروں کو بیک وقت دھماکوں سے تباہ کیا۔ فلسطینیوں کو بنیادی ضروریات، جیسے کہ پانی، بجلی اور خوراک سے محروم کر دیا گیا۔   شدید سردی میں بے یار و مددگار فلسطینی: بہت سے فلسطینی عجلت میں گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے، بغیر کسی شناختی دستاویزات، رقم یا اشیائے ضروریہ کے۔ 35 سے 40% علاقے اب بھی پانی سے محروم ہیں کیونکہ اسرائیلی حملے کے بعد جنین کا سب سے اہم پانی کا کنواں "السعادة" ناکارہ ہو چکا ہے۔ جنین کے نواحی علاقوں میں پناہ لینے والے خاندان شدید مشکلات کا شکار ہیں، جیسے کہ غیر مناسب پناہ گاہیں، محدود خوراک، بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی اور شدید سرد موسم۔   فلسطینیوں کی مدد کے لیے عوامی اقدامات: جنین کے قریب برقین قصبے کے مکینوں نے 789 بے گھر خاندانوں (تقریباً 4,540 افراد) کو پناہ دی، جنہیں دیوانوں (روایتی مہمان خانے)، خالی مکانوں اور خیراتی گھروں میں رکھا گیا۔ "برقین الخير 6" نامی عوامی مہم کے تحت 60,000 شیکل (تقریباً 16,000 امریکی ڈالر) اکٹھے کیے گئے تاکہ متاثرہ خاندانوں کی مدد کی جا سکے۔   فلسطینی اتھارٹی کی خاموشی اور اسرائیلی حملے کا تسلسل: فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیلی حملے کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کی، بلکہ حملے سے پہلے 47 دن تک جنین مہاجر کیمپ کا محاصرہ کر کے فلسطینیوں کو پانی، بجلی اور خوراک سے محروم رکھا۔ یہی نہیں، بلکہ فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیلی فوج کے حملے کے دوران کئی فلسطینی مزاحمت کاروں کو گرفتار بھی کیا۔   حملے کا دائرہ کار وسیع، طولکرم اور طوباس میں بھی تباہی: جنین کے بعد، اسرائیلی فوج نے طولکرم اور طوباس میں بھی کارروائیاں شروع کر دی ہیں، جہاں مزید ہزاروں فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا گیا ہے۔ طولکرم کے مہاجر کیمپ سے 2,000 فلسطینیوں کو جبری انخلا پر مجبور کیا گیا، اور درجنوں گھروں کو مسمار کر دیا گیا۔ طوباس کے علاقے طمون میں 4,000 فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا، جبکہ فوج نے الفارعة کیمپ میں مزید لوگوں کو بے گھر کر دیا۔   نتیجہ: اسرائیل کی وحشیانہ فوجی کارروائیوں کے باعث ہزاروں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں، جنہیں شدید سردی، بھوک، اور خوف کے عالم میں زندگی گزارنی پڑ رہی ہے۔ مقامی فلسطینی شہری اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین کی مدد کر رہے ہیں، مگر فلسطینی اتھارٹی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، جبکہ اسرائیلی حملے کا دائرہ مزید وسیع ہوتا جا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطینی اتھارٹی اسرائیلی حملے اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو گھروں کو حملے کا حملے کے بے گھر فوج نے کر دیا کی مدد

پڑھیں:

امریکہ سعودی تعلقات نیا موڑ

اسلام ٹائمز: اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دو ریاستی حل مسترد کرتے ہوئے سعودی عرب کے اندر فلسطینی ریاست بنانے کی تجویز دی ہے۔ اپنے دورہ امریکا کے دوران اسرائیلی میڈیا کو انٹرویو میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ سعودی فلسطینی ریاست اپنے ملک میں بنا سکتے ہیں، سعودیوں کے پاس بہت زیادہ زمین ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ کیا سعودی عرب کیساتھ اسرائیل کے تعلقات کیلئے فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے۔؟ اس پر نیتن یاہو نے کہا کہ فلسطینی ریاست اسرائیل کیلئے خطرہ ہے۔ ان شواہد کو دیکھتے ہوئے یہ توقع بعید ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کیساتھ سعودی عرب کے تعلقات ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے دور حکومت کی طرح ہونگے۔ تحریر: امیر علی ابو فتاح

ایسا لگتا ہے کہ نئی ٹرمپ انتظامیہ میں امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات 2016ء سے 2020ء تک کے ٹرمپ کے پہلے دور حکومت کے جیسے نہیں ہوں گے اور حال ہی میں ان تعلقات میں کئی چیلنجوں کے آثار نمودار ہوچکے ہیں۔ صدر کے طور پر اپنے پہلے دور میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات پر خصوصی توجہ دی۔ یہ توجہ سعودی عرب کے بارے میں ٹرمپ کے اقتصادی نقطہ نظر اور سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے امریکی حکومت کے سیاسی اور سکیورٹی مقاصد کی بدولت تھی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت میں ٹرمپ تو سعودی عرب کے بارے میں وہی معاشی نظریہ رکھتا ہے، لیکن امریکی حکومت کے بارے میں محمد بن سلمان کا سیاسی اور سکیورٹی نقطہ نظر تبدیل ہوگیا ہے۔

ٹرمپ نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکہ میں 1 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے۔ بن سلمان نے اس مطالبے پر یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور کی طرح اپنی انتظامیہ کو اقتصادی میدان میں امریکہ کے تمام مطالبات ماننے پر تیار نہیں کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے امریکی حکومت کے ایک کھرب کے مطالبے پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کے کچھ اپنے اہم اقتصادی اہداف بھی ہیں، جو ٹرمپ کے  مطالبات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس میں اپنے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے تیل کی قیمتوں میں کمی کا ذکر کرتے ہوئے سعودی عرب اور اوپیک سے خام تیل کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ کیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب ٹرمپ کے اس مطالبے سے اتفاق نہیں کرے گا، کیونکہ ریاض تیل کی آمدنی کی بنیاد پر اپنے ترقیاتی منصوبوں کو آگے بڑھا رہا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سعودی عرب کے ترقیاتی منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے ایک چیلنج بن سکتی ہے۔ اگلا مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کے پہلے دور میں  سعودی عرب نے امریکہ سے ایران پر قابو پانے اور اسے کمزور کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور ایران کے بارے میں امریکہ کے سخت موقف اور اس پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی حمایت کی تھی۔ لیکن اب سات سال بعد تہران-ریاض کے تعلقات معمول پر آچکے ہیں۔ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ تعاون بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ اب سعودی عرب نے ٹرمپ انتظامیہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کے حوالے سے نرم پالیسی کا مطالبہ کیا ہے۔

البتہ سب سے اہم مسئلہ وہ چیلنج ہے، جو مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پیدا ہوا ہے اور اس کا اظہار ٹرمپ کی طرف سے کیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے غزہ کے لوگوں کو مصر اور اردن سمیت دیگر ممالک میں منتقل کرنے کا نسل پرستانہ منصوبہ پیش کیا ہے، جس کی سعودی عرب سمیت کئی ممالک نے مخالفت کی ہے۔ یہ چیلنج اس قدر سنگین ہے کہ سعودی مشاورتی کونسل کے ایک رکن نے ٹرمپ کے منصوبے کے جواب میں کہا ہے کہ اگر ٹرمپ امن کا چیمپئن بننا چاہتے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں استحکام اور خوشحالی لانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے اسرائیلی دوستوں کو الاسکا یا پھر گرین لینڈ منتقل کرنا چاہیئے۔ سعودی مشاورتی کونسل کے اس رکن نے مزید کہا ہے کہ صیہونیوں اور ان کے حامیوں کو جان لینا چاہیئے کہ وہ سعودی قیادت اور حکومت کو پروپیگنڈے کی چالوں اور جھوٹے سیاسی دباؤ سے کسی سازش میں نہیں پھنسا سکتے۔

نیتن یاہو کے اس بیان نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو  نے دو ریاستی حل مسترد کرتے ہوئے سعودی عرب کے اندر فلسطینی ریاست بنانے کی تجویز  دی ہے۔ اپنے دورہ امریکا کے دوران اسرائیلی میڈیا کو انٹرویو میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ سعودی فلسطینی ریاست اپنے ملک میں بنا سکتے ہیں، سعودیوں کے پاس بہت زیادہ زمین ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ کیا سعودی عرب کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کے لیے فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے۔؟ اس پر نیتن یاہو نے کہا کہ فلسطینی ریاست اسرائیل کے لیے خطرہ ہے۔ ان شواہد کو دیکھتے ہوئے یہ توقع بعید ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے دور حکومت کی طرح ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • صیہونی فوج نے مغربی کنارے میں 40 ہزار فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا، انروا
  • ٹرمپ کی وارننگ کے بعد غزہ فائربندی معاہدہ خطرے میں
  • مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز کی جارحیت، تین فلسطینی شہید
  • فلسطینیوں کی بیدخلی کا مذموم منصوبہ
  • اسرائیلی فوج نے تین فلسطینی شہریوں کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا
  • غزہ سے فلسطینی انخلا کا ٹرمپ منصوبہ ،اپنے حصے کا کام کرینگے، اسرائیل
  • امریکہ سعودی تعلقات نیا موڑ
  • حماس کی بڑی فتح: اسرائیلی افواج کا کلیدی غزہ کوریڈور سے انخلا شروع
  • آزاد اور خود مختار ریاست کا قیام فلسطینیوں کا حق ہے، پاکستان نے اسرائیلی وزیراعظم کا حالیہ بیان مسترد کردیا