پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنماؤں کی ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے وفاق، اداروں سے رپورٹ طلب کرلی
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی حفاظتی ضمانت میں 5 مارچ تک توسیع کرتے ہوئے وفاق اور متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کرلی۔
رپورٹ کے مطابق عدالت نے ممبر قومی اسمبلی شیر علی ارباب، ارباب عامر ایوب، فضل محمد خان، یوسف خان، خاتون رہنما فلک ناز اورحمیدہ شاہ کی مقدمات کی تفصیلات کی فراہمی کے بعد ان کی درخواستیں نمٹادی جب کہ ان کی ضمانت میں 5 مارچ تک توسیع کرتے ہوئے انہیں متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کا حکم دیا۔
پشاور ہائی کورٹ میں شبلی فراز، فیصل جاوید، فلک ناز، صوبائی صدر اور ممبر قومی اسمبلی جنید اکبر، اسپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی اور ممبر قومی اسمبلی عاطف خان، ایم این اے محبوب شاہ کی حفاظتی ضمانت میں 5 مارچ تک توسیع کردی۔
رپورٹ کے مطابق عدالت نے وفاق اور متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کرلی جب کہ ممبر قومی اسمبلی شیر علی ارباب، ارباب عامر ایوب، فضل محمد خان، یوسف خان، خاتون رہنما فلک ناز اورحمیدہ شاہ کی مقدمات کی تفصیلات کی فراہمی کے بعد ان کی درخواستیں نمٹادی جب کہ ان کی ضمانت میں 5 مارچ تک توسیع کرتے ہوئے انہیں متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کا حکم دیدیا ہے۔
گزشتہ روز درخواستوں پر سماعت جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ اور جسٹس صلاح الدین پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے کی، دوران سماعت تمام درخواست گزار عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست گزاروں کے وکلاعالم خان ادینزئی، احد علی شاہ ایڈووکیٹ اور دیگر نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکلوں کے خلاف اسلام آباد میں مقدمات درج ہیں، اگر درخواست گزاروں کو تفصیل فراہم کردی گئی تو وہ متعلقہ عدالتوں سے رجوع کریں گے۔
اس موقع پر اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شبلی فراز ، فلک ناز ، فیصل جاوید ، محبوب شاہ اور عاطف خان کی کیسز میں رپورٹ جمع نہیں کرائی، لہذا ہمیں مہلت دی جائے تاکہ ہم مقدمات کی تفصیل فراہم کریں جب کہ جنید اکبر فضل خان ، اباب شیر علی سمیت دیگر درخواست گزاروں کی کیسز میں مقدمات کی تفصیل فراہم کردی گئی ہے۔
عدالت نے تفصیلات فراہم ہونے بعد جنید اکبر اور دیگر ارکان اسمبلی کی درخواستیں نمٹا دی جبکہ اسپیکر بابر سلیم سواتی ، عاطف خان اور محبوب شاہ ، شبلی فراز ، فلک ناز اور فیصل جاوید کی درخواستوں پر وفاق اور دیگر سے رپورٹ طلب کرلیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ضمانت میں 5 مارچ تک توسیع ممبر قومی اسمبلی توسیع کرتے ہوئے سے رپورٹ طلب مقدمات کی فلک ناز
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ: پیکا ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر معاونت کیلئے اٹارنی جنرل کو نوٹس
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ایف یو جے اور اینکرز ایسوسی ایشن کی پیکا ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر عدالتی معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور اینکرز ایسوسی ایشن کی جانب سے پییکا ایکٹ کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت جسٹس انعام امین منہاس نے کی، سماعت کے دوران صحافتی تنظیموں کے عہدیدار اور وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
پی ایف یو جے کی جانب سے وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل میں کہا کہ پیکا ایکٹ اتنی جلدی میں منظور کیا گیا کہ اس کی شقوں میں واضح غلطیاں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون میں درخواست دہندہ کی دو مختلف تعریفیں دی گئی ہیں جو آپس میں متضاد ہیں، جس سے اس کی غیر معقولیت ظاہر ہوتی ہے۔
عمران شفیق نے یہ بھی کہا کہ پیکا کے تحت تشکیل دی گئی کمپلینٹ اتھارٹی دراصل وہی ادارہ ہے جو پہلے ہی پیمرا قانون میں موجود ہے۔
صدر ہائی کورٹ بار، ایڈووکیٹ ریاست علی آزاد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ہے، جس میں اظہار رائے کی آزادی پر غیر ضروری قدغن لگائی گئی ہے۔
جسٹس انعام امین منہاس نے اس موقع پر سوال اٹھایا کہ آپ کا موقف ہے کہ فیک نیوز کی اشاعت روکنی چاہیے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ فیک نیوز ایک سنگین مسئلہ ضرور ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا توازن بھی ضروری ہے۔
ایڈووکیٹ ریاست علی آزاد نے مزید کہا کہ اس قانون کے تحت فیصلوں کے خلاف اپیل صرف سپریم کورٹ میں دائر کی جا سکے گی، جبکہ اسٹیک ہولڈرز سے کسی بھی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ صحافی کو اپنے ذرائع ظاہر کرنے کی پابندی عائد کرنا اس پیشے کی آزادی کو محدود کرتا ہے، کیونکہ صحافی اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کرتے ہیں، اور اگر یہ ذرائع افشا نہ ہو سکیں تو پھر صرف موسم کی پیش گوئی کرنے کا ہی باقی رہ جائے گا۔
درخواست گزار وکلاء نے متعدد بار عدالت سے استدعا کی کہ اس قانون پر فوری طور پر عمل درآمد روکا جائے، تاہم جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ اگر کوئی نیا پہلو سامنے آئے تو ہم اس پر غور کر سکتے ہیں، اور اگر ضروری ہو تو متفرق درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔
عدالت نے اس کیس میں مزید معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کو ملتوی کر دیا۔