UrduPoint:
2025-02-11@16:37:03 GMT

12فروری: پاکستان میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد کا دن

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

12فروری: پاکستان میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد کا دن

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 فروری 2025ء) سن 1983ء میں اسی دن لاہور میں خواتین نے جنرل ضیاء الحق کے حدود آرڈیننس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تھی، جس کے نتیجے میں انہیں ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ ماہرین کے مطابق خواتین کا قومی دن اور عورت مارچ جیسے ایونٹس شعور بیدار کرنے اور قانون سازی میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ تاہم مکمل مساوات اور انصاف کے لیے مزید جدوجہد ابھی باقی ہے۔

عورت مارچ: بیانیے کی جنگ یا حقوق کی جدوجہد؟

معروف صحافی عاصمہ شیرازی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عورت مارچ محض بیانیے کی جنگ نہیں بلکہ حقوق کی جدوجہد ہے، جو خواتین کے لیے مساوی حقوق، شناخت اور ان کی آواز کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آبادی میں تناسب کے باوجود خواتین کے حقوق بدستور سلب کیے جا رہے ہیں۔

’میرا جسم میری مرضی‘: خواتین کا عالمی دن متنازعہ

دنیا بھر میں تقریباﹰ تین کروڑ خواتین غلامی پر مجبور

’عورت کی شکتی سے مرد خائف ہیں‘

خواتین کے حقوق کی علمبردار فرزانہ باری کے مطابق خواتین کے حقوق کا بیانیہ انہیں مکمل خودمختاری دینے کا مطالبہ کرتا ہے، جو معاشی، سیاسی، سماجی اور دیگر شعبوں میں برابری کی ضمانت دیتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ محض نعرہ نہیں بلکہ ایک سماجی حقیقت ہے اور مساوات پر مبنی معاشرہ ہی خواتین کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کر سکتا ہے۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن زاہد عبداللہ کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کو الگ مسئلہ سمجھنے کے بجائے وسیع تر بیانیے کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ ان کے مطابق خواتین اور معذور افراد کے حقوق تبھی ممکن ہیں جب سماجی بیانیے میں مثبت تبدیلی آئے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ معاشرے میں موجود منفی رویے، لطیفے اور محاورے امتیازی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں، جنہیں چیلنج کرنا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے حصول کے لیے بیانیے کی جنگ لڑنا ناگزیر ہے کیونکہ یہی حقیقی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔

ہیومن کیپٹل پاکستان کی سربراہ افشاں تحسین کا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں خواتین کو مساوی حقوق اور مواقع میسر نہیں۔

وہ فیصلہ سازی، تعلیم، صحت، معاشی اور سیاسی ترقی میں برابر شمولیت سے محروم ہیں جبکہ لیبر فورس میں ان کی شرکت 20 فیصد سے بھی کم ہے۔ انہوں نے مردوں کو صنفی حساسیت کے عمل میں شامل کرنے پر زور دیا اور عورت مارچ کو متنازع بنانے پر افسوس کا اظہار کیا، جس سے خواتین کے حقوق کی راہ میں مزید رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ کیا خواتین کی جدوجہد حقیقی تبدیلی لا سکتی ہے؟

اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کے مطابق عورتوں کی جدوجہد نے معاشرتی شعور اور آگاہی میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خواتین پر تشدد، انہیں جلا کر مار دیے جانے اور آن لائن ہراسگی جیسے مسائل میں کمی آئی ہے لیکن یہ اب بھی جاری ہیں۔ شیرازی کا کہنا ہے کہ مختلف ادارے زیرو ٹالرنس پالیسی اپنا رہے ہیں اور خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین اور ادارے موثر ثابت ہو رہے ہیں۔ ان کے بقول ان مسائل پر کھل کر بات ہونا ہی ایک بڑی کامیابی ہے۔

سماجی کارکن باری کا کہنا تھا کہ جب تک معاشرتی رویے نہیں بدلیں گے اور ریاست خواتین کی تعلیم و ترقی پر سرمایہ کاری نہیں کرے گی، ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ انہوں نے عورت مارچ گروپوں کے کردار کو اہم قرار دیا مگر اس کے ساتھ ہی کہا کہ یہ مکمل حل فراہم نہیں کر سکتے۔ ان کے مطابق پاکستان کی 49 فیصد خواتین کی تعلیمی، سماجی اور معاشی ضروریات پوری کرنا ریاست اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

والدین کو بچیوں کو مساوی تعلیمی مواقع دینے چاہیں جبکہ خواتین کے مسائل کے حل کے لیے ریاست کو بھی عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ برابری کی علامت کے تین دن: 12 فروری، 8 مارچ، 22 دسمبر

پاکستان میں 12 فروری خواتین کا قومی دن 1983ء میں حدود آرڈیننس کے خلاف خواتین کے احتجاج کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ ان قوانین نے عصمت دری کے مقدمات میں خواتین کے لیے شدید ناانصافی پیدا کی۔

لاہور میں ہونے والے احتجاج پر پولیس نے تشدد کیا اور ان کارکنوں کی قربانیوں کے اعتراف میں 2011ء میں اسے باضابطہ قومی دن قرار دے دیا گیا۔ عورت مارچ مرکزی حیثیت

پاکستان میں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس میں 2018ء سے شروع ہونے والا عورت مارچ مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مارچ خواتین پر تشدد، معاشی و تولیدی حقوق اور آزادی اظہار جیسے مسائل اجاگر کرتا ہے۔

قدامت پسندانہ مخالفت کے باوجود، یہ خواتین کے حقوق کی جدوجہد اور مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔ عاصمہ شیرازی کے مطابق عورت مارچ کے قریب آتے ہی مخالفت میں شدت آ جاتی ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ خواتین کے حقوق کی جدوجہد آج بھی چیلنجز سے دوچار ہے جنہیں سمجھنا اور حل کرنا ناگزیر ہے۔

فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد خواتین پر صرف گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالنا درست نہیں۔

مردوں کو بھی برابر کی ذمہ داری لینی چاہیے تاکہ حقیقی مساوات قائم ہو سکے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں 22 دسمبر اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ آسیہ بی بی کیس اور جوزف کالونی واقعہ توہین مذہب قوانین کے غلط استعمال کی مثالیں ہیں۔ یہ دن اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور بیداری کے لیے اہم مواقع قرار دیے جاتے ہیں۔

انسانی حقوق کی ارتقا کو کیسے یقینی بنایا جائے؟

زاہد عبداللہ نے تاریخی تناظر میں بتایا کہ رومی تہذیب میں خواتین اور معذور افراد کے حقوق نہ ہونے کے برابر تھے لیکن مذاہب کی ارتقا کے ساتھ ان کے تحفظ کے اصول وضع کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کا ارتقا ایک مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ افشاں تحسین کے مطابق سماجی روایات قانون پر حاوی ہیں اور پدرشاہی سوچ تعلیم یافتہ طبقے میں بھی موجود ہے، جس کی وجہ سے خواتین مخصوص کرداروں تک محدود ہیں۔ وہ طویل جدوجہد کے باوجود مرکزی دھارے میں برابری حاصل نہیں کر پائی ہیں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواتین کے حقوق کی حقوق کی جدوجہد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں میں خواتین خواتین کا کے مطابق کرتا ہے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان سے 205 افغان ملک بدر، دیگر کو 31 مارچ تک ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن

پاکستان سے 205 افغان ملک بدر، دیگر کو 31 مارچ تک ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن WhatsAppFacebookTwitter 0 9 February, 2025 سب نیوز

اسلام آباد: حکومت نے پناہ گزینوں سے متعلق ٹرمپ پالیسی کے بعد پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کے منصوبے کا مسودہ تیار کر لیا، جبکہ ہفتہ کے روز راولپنڈی سے 205 افغان باشندوں کو ملک بدر کر دیا گیا ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق راولپنڈی کی انتظامیہ اور پولیس نے ایک مشترکہ آپریشن کے دوران پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم 205 افغانوں کو گرفتار کر کے ملک بدر کر دیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ضلع راولپنڈی کی پولیس کی جانب سے 5 روز قبل حراست میں لیے گئے ایک افغان نوجوان نے رہائی نہ ملنے اور ملک بدر کیے جانے پر اپنے سر پر لوہے کی سلاخوں سے وار کرکے خود کو زخمی کر لیا۔ حکام نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے افغان شہری کو آگاہ کیا کہ اسے 10 فروری کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق ضلعی انتظامیہ نے مزید کارروائی عمل میں لاتے ہوئے گرفتار 155 افغان خاندانوں اور نوجوانوں کو رہا کر دیا ہے کیونکہ ان کے پاس ویزا سفری دستاویزات تھیں۔ گرفتار افغانوں کی تفتیش کے لیے حج کمپلیکس میں ایک خصوصی سہولت مرکز بھی قائم کیا گیا ہے۔

ادھر میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکا کی جانب سے افغان باشندوں کے ویزے ختم کیے جانے اور امریکا میں آباد کاری کے وعدے سے پیچھے ہٹنے پر پاکستان نے اپنے ملک میں مقیم افغانوں کو ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان نے امریکا کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے 3 مرحلوں پر مشتمل منصوبے کا مسودہ تیار کیا ہے جس میں غیر ملکی مشنز سے کہا گیا ہے کہ وہ 31 مارچ 2025 تک اسلام آباد اور راولپنڈی سے افغان شہریوں کی منتقلی میں تعاون کریں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے منصوبے کے مسودہ میں کہا گیا ہے کہ اگر افغانوں کو مقررہ تاریخ تک ان کے ملک سے نہیں نکالا گیا تو انہیں ’افغانستان واپس بھیج دیا جائے گا‘۔

واضح رہے کہ 2021 میں جب افغانستان طالبان کے قبضے میں چلا گیا تو لاکھوں پناہ گزین سرحد پار کر کے ہمسایہ ملک پاکستان چلے آئے تھے۔

امریکایا نیٹو افواج کے ساتھ کام کرنے والے افغان شہری خاص طور پر طالبان کی جانب سے انتقامی کارروائیوں سے خوفزدہ ہیں۔ان افغانوں سے امریکا میں آبادکاری کا وعدہ کیا گیا تھا، بہت سے لوگوں نے امریکی ویزے کے انتظار میں پاکستان کا سفر کیا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق اب ان افغان باشندوں کو خدشہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی پناہ گزینوں کے داخلے کے پروگرام (یو ایس آر اے پی) کو معطل کرنے کے حکم کے بعد انہیں واپس افغانستان بھیج دیا جائے گا، جس سے دنیا بھر میں امریکا میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کو مؤثر طریقے سے پابند کر دیا جائے گا ۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکا کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط ہونے کے فوراً بعد پاکستان کے وزیر اعظم کے دفتر نے ’تیسرے ملک میں آباد ہونے والے افغان شہریوں‘کے لیے 3 مراحل پر مشتمل واپسی کے منصوبے کا مسودہ تیار کیا ہے۔

امریکی ٹیلی ویژن سی این این کے مطابق پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ دستاویز میں غیر ملکی مشنز سے کہا گیا ہے کہ وہ 31 مارچ 2025 تک اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی سے افغان شہریوں کی منتقلی میں تعاون کریں۔ اگر انہیں اس تاریخ تک نہیں نکالا گیا تو انہیں’افغانستان واپس بھیج دیا جائے گا‘۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جن لوگوں کو واپس لوٹنے پر مجبور کیا گیا ہے، انہیں طالبان کی جانب سے انتقام کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں خاص طور پر نسلی اور مذہبی اقلیتیں، خواتین اور لڑکیاں، صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور شوبز پیشے سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔

افغان تنظیم ایوک کے بانی شان وان ڈیور کا کہنا ہے کہ 10 سے 15 ہزار افغان باشندے پاکستان میں ویزے یا آبادکاری کے منتظر ہیں۔

امریکی ٹیلی ویژن سی این این کے مطابق توقع ہے کہ پاکستان میں امن و امان قائم کرنے والے ادارے افغانوں کی منتقلی کے منصوبے کی نگرانی اور عمل درآمد کے لیے وزیراعظم آفس کے ساتھ تعاون کریں گی۔

سی این این کے مطابق پاکستان کی وزارت داخلہ نے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ’افغانوں سمیت تمام غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ان کے وطن واپسی کے منصوبے (آئی ایف آر پی) کے تحت ان کے آبائی ممالک واپس بھیج دیا جائے گا۔

بیان میں افغان شہریوں کی آبادکاری کے لیے اسپانسر کرنے والے ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس عمل کو جلد مکمل کریں بصورت دیگر اسپانسرڈ افغانوں کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق اس منصوبے میں افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے افغانوں کو بھی ملک بدر کرنے کی دھمکی دی گئی ہے، جو تقریباً ایک دہائی قبل پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔

امریکی ٹیلی ویژن کے مطابق امریکی سفارت خانے اور پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس معاملے میں ایک دوسرے سے تعاون کے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔ پاکستان میں اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ پناہ گزین آباد ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق افغانستان سے ہے۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق 30 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین بشمول رجسٹرڈ پناہ گزین اور 8 لاکھ سے زیادہ غیر قانونی افراد پاکستان میں مقیم ہیں۔

بہت سے لوگ 1980 کی دہائی میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد فرار ہو گئے تھے۔ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد ایک نئی کھیپ پاکستان چلی آئی تھی۔ 2021 میں امریکا کے انخلا کے بعد طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد تقریباً 600،000 پناہ گزینوں کی ایک اور کھیپ نے پاکستان کا رخ کیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • انسانی حقوق کا ایجنڈا تبدیل کیے جانے پر چیئرمین قائمہ کمیٹی برہم
  • عورتوں سے تضحیک آمیز سلوک:خاتون کراؤڈ منیجمنٹ یونٹ قائم
  • ہمارے اہداف اعلیٰ و ارفع ہیں، عالمی مزاحمتی تحریکوں کی حمایت جاری رکھیں گے، علامہ ساجد نقوی
  • مولانا فضل الرحمٰن کی قبائلی حقوق کے لیے اسلام آباد مارچ کی دھمکی
  • مرد اپنی نظریں، عورت زبان قابو رکھے تو شادی کامیاب ہوتی ہے، اداکارہ صاحبہ
  • دیامر: ’حقوق دو ڈیم بناؤ‘ تحریک کا آغاز، مظاہرین نے قرآن پاک پر حلف کیوں اٹھایا؟
  • ’حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں‘ سرکاری ملازمین کا پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنے کا اعلان
  • پاکستان سے 205 افغان ملک بدر، دیگر کو 31 مارچ تک ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن
  • ترقی پسند خواتین کا بلند اقبال