اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 فروری ۔2025 )مہر گڑھ کو ایک اہم سیاحتی مقام بنانے کے لیے کوششوں کی اشد ضرورت ہے بلوچستان میں واقع مہر گڑھ کی باقیات قومی اور بین الاقوامی سیاحوں کے لیے نسبتاً نامعلوم ہیں اس قدیم اثاثے کو مسلسل تحفظ کی کوششوں کی اشد ضرورت ہے ڈائریکٹر ثقافت اور محکمہ سیاحت، بلوچستان کے فوکل پرسن داود ترین نے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مہر گڑھ کو ایک مقبول سیاحتی مقام بنانے کے لیے مقامی لوگوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز میں آگاہی ضروری ہے.

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سیاحتی مقام کو فروغ دینے کے لیے مناسب انفراسٹرکچر کا قیام، سیاحتی سہولتی مراکز کا قیام، بغیر کسی رکاوٹ کے مواصلاتی ذرائع کو یقینی بنانا سیکیورٹی اور دیگر سہولیات اہم ہیں مہر گڑھ کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر فروغ دینے سے نہ صرف سیاحوں کی تعداد میں بہتری آئے گی بلکہ خطہ بھی ترقی کرے گا. انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پالیسی ساز آثار قدیمہ کی اہمیت پر غور کریں ان اثاثوں کا تحفظ نہ صرف انہیں محفوظ رکھے گا بلکہ مقامی کمیونٹیز کی خوشحالی کو بھی یقینی بنائے گا مہر گڑھ کے تاریخی پس منظر اور اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے محکمہ آثار قدیمہ اور عجائب گھر اسلام آباد کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمود الحسن شاہ نے کہاکہ8,000قبل مسیح کا اور بولان پاس کے دامن میں واقع مہر گڑھ عالمی سطح پر ایک مشہور زمانہ ہے جس میں قدیم ترین آباد کاری کا مقام ہے.

انہوں نے کہا کہ بولان پاس کی متنوع جغرافیائی خصوصیات جو کہ وسطی ایشیا کے بلند اندرونی سطح مرتفع کو دریائے سندھ کے میدانی علاقوں سے جوڑنے والے اہم قدیم راستوں میں سے ایک ہے نے ابتدائی زرعی باشندوں کو آٹھویں صدی قبل مسیح کے آس پاس غار میں رہائش، شکار اور جمع ہونے کو ترک کرنے کی ترغیب دی. انہوںنے کہاکہ مہر گڑھ جنوبی ایشیا کے سب سے اہم نیو لیتھک مقامات میں سے ایک ہے شواہد کی بنیاد پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ مہر گڑھ کے لوگ وادی سندھ کی تہذیب کا پیش خیمہ تھے یہ تہذیب زرعی ٹیکنالوجی کی ترقی اور قدیم جنوبی ایشیائی پتھر کے زمانے کے لوگوں کے زرعی طرز زندگی کی عکاسی کرتی ہے انہوں نے کہا کہ مہر گڑھ میں فن تعمیر آزادانہ، کثیر کمروں والے، مربع یا مستطیل چھوٹے گھر تھے، جو سوکھی مٹی کے گانٹھوں یا دھوپ میں خشک مٹی کی اینٹوں سے تعمیر کیے گئے تھے اس بستی میں کئی تدفین کی جگہیں تھیں زرخیزی کے فرقے کے طور پر 5,000 قبل مسیح میں ہاتھ سے بنے ہوئے موٹے بناوٹ والے برتنوں کے علاوہ چھوٹے مٹی کے انسانی مجسمے گھروں میں رکھے جاتے تھے جب کہ باریک پہیے سے بدلے ہوئے مٹی کے برتنوں کا آغاز سرخ اور سیاہ پینٹ کے ڈیزائنوں سے ہوتا ہے جس میں ہندسی نمونوں، جانوروں اور انسانی اعداد و شمار کو دکھایا جاتا ہے 4,500 قبل مسیح میں شروع کیا گیا تھا.

انہوں نے کہاکہ زیادہ تر نوادرات اور زیورات لاپیس لازولی اور تانبے سے تیار کیے گئے تھے زیورات میں سے ایک پر اب بھی سوتی دھاگے کا نشان موجود ہے جو اس فائبر کے استعمال ہونے کی سب سے پرانی مثال ہے مہر گڑھ کی باقیات میں ابتدائی زرعی طریقوں اور جانوروں کو پالنے کا ثبوت ملتا ہے مہر گڑھ کے لوگوں نے 2,700 قبل مسیح میں اس جگہ کو ترک کر دیا اور مہر گڑھ سے تقریبا چھ کلومیٹر جنوب میں نوشہرو میں آباد ہو گئے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ سیاحتی مقام مہر گڑھ کو کے لیے

پڑھیں:

بلوچستان میں مذاکراتی تعطل، بلوچ خواتین کی رہائی پر ڈیڈلاک برقرار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اپریل 2025ء) بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے لکپاس میں جاری احتجاجی دھرنے کے خاتمے کو گرفتار خواتین کی رہائی سے مشروط کر دیا ہے، جبکہ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے سکیورٹی خدشات اور خواتین پر عائد الزامات کی بنیاد پر ان کی رہائی سے انکار کر دیا ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی اور صوبائی حکومت کے درمیان اب تک مذاکرات کے چار دور ہوئے ہیں، جن میں تاحال کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی ہے۔ گرفتار بلوچ خواتین اور الزامات

بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، گل زادی بلوچ، بیبو بلوچ اور دیگر خواتین کو کوئٹہ کی مقامی جیل میں '3 ایم پی او‘ کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ان پر سنگین الزامات کے تحت مقدمات درج ہیں، جن میں دہشت گردوں سے رابطوں اور جعفر ایکسپریس حملے میں ہلاک عسکریت پسندوں کی لاشیں لے جانے کی کوشش شامل ہیں۔

بی وائی سی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حکومتی دباؤ کا ایک حربہ ہے۔ سابق وفاقی وزیر آغا حسن بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت ان خواتین کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ وہ ان پر عائد الزامات کو سنجیدہ سمجھتی ہے۔

انہوں نے کہا، ''حکومت مذاکرات تو کر رہی ہے، لیکن دھرنا ختم کرنے کا دباؤ ڈال رہی ہے۔‘‘ احتجاج اور حکومتی اقدامات

دریں اثنا بی وائی سی نے گرفتار خواتین کی رہائی نہ ہونے کے خلاف 13 اپریل کو بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب، بی این پی 14 اپریل کو لکپاس میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے جا رہی ہے، جس میں 'تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کی قیادت بھی شریک ہو گی۔

بی این پی کے رہنما ثناء اللہ بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''حکومت مذاکراتی عمل میں غیر سنجیدگی دکھا رہی ہے۔ ہمارا مطالبہ واضح ہے کہ گرفتار خواتین کو رہا کیا جائے۔ سندھ میں سمی دین بلوچ اور دیگر خواتین کو رہا کیا گیا، لیکن بلوچستان حکومت اس قانون کے استعمال میں بے اختیار کیوں ہے؟‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''اس کشیدگی کو اس وقت تک ختم نہیں کیا جا سکتا، جب تک صوبائی اور مرکزی حکومت بلوچستان کے زمینی حقائق کو تسلیم نہیں کرتی۔

‘‘

آغا حسن بلوچ نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت نے قومی شاہراہوں کو خندقیں کھود کر اور رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر رکھا ہے، جس سے صوبے بھر میں خوراک کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ''بی این پی کارکنوں کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے عوام کو مشکلات سے دوچار کیا جا رہا ہے۔‘‘

حکومتی موقف کیا ہے؟

صوبائی وزیر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما علی مدد جتک نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بی این پی احتجاج کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا، ''احتجاج قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جا سکتا ہے، لیکن بی این پی صوبے کو شورش کا شکار بنانا چاہتی ہے۔ ماہ رنگ بلوچ اور دیگر کے خلاف الزامات کا دفاع عدالتوں میں ہونا چاہیے، سڑکوں پر نہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے سکیورٹی انتظامات سخت کیے گئے ہیں اور دفعہ 144 نافذ ہے، جس کی بی این پی خلاف ورزی کر رہی ہے۔

جے یو آئی (ف) کی ثالثی کی کوشش

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور اسے سیاسی بصیرت سے حل کیا جا سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ہم نے سردار اختر مینگل اور وزیر اعلیٰ سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہو۔ اختر مینگل کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں کہ حل نہ ہو سکے۔‘‘

انہوں نے زور دیا کہ طاقت کے بجائے دانشمندی اور دور اندیشی سے حالات بہتر کیے جائیں، کیونکہ سیاسی عدم استحکام سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے دیگر حصے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • مستونگ، دشت روڈ پر دھماکہ ،3 اہلکار شہید 19 زخمی
  • محکمہ ترقی نسواں بلوچستان میں مالی بے قاعدگیوں کی تحقیقات کا آغاز
  • اختر مینگل کا دھرتنے کے مقام پر کثیر الجماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ
  • 21 اپریل سے شروع ہونیوالی انسداد پولیو مہم کو کامیاب بنانے کیلئے آج اجلاس بلایا ہے، مصطفیٰ کمال
  • اسٹیبلشمنٹ سے مصالحتی کوششوں کے دوران پی ٹی آئی کا کمیٹیوں میں تبدیلیوں پر غور
  • پنجاب میں امن و امان کے قیام کیلئے عوامی رابطہ کمیٹیاں بنانے کا حکم
  •   عالمی اتحاد، جامع ترقی ‘اخلاقی کثیرالجہتی کیلئے نا گز یر: یوسف رضا گیلانی 
  • بلوچستان نیشنل پارٹی کے دھرنے کا سترھواں روز
  • بلوچستان میں مذاکراتی تعطل، بلوچ خواتین کی رہائی پر ڈیڈلاک برقرار
  • ایک سال میں یواے ای اور پاکستان کا تجارتی حجم 10ارب ڈالر سے تجاوز