بھارتی وزیراعظم نریندرمودی دوروزہ دورے پرکل واشنگٹن پہنچیں گے
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
نئی دہلی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 فروری ۔2025 )بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بدھ کو دوروزہ دورے پر واشنگٹن پہنچیں گے اپنے دورے کے دوران وہ اوول آفس میں صدرڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں بھارت کے لیے تجارتی مراعات‘ ٹیرف میں کمی ‘ توانائی اور دفاعی درآمدات میں اضافہ پر بات چیت کریں گے صدرٹرمپ کی جانب سے اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر 25 فیصد ٹیرف سمیت متعدد ممالک پر باہمی محصولات کی دھمکی کے بعد مودی بھارت امریکا تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں.
(جاری ہے)
بھارت تجارتی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے امریکہ سے توانائی کی مصنوعات کی درآمدات میں اضافے کی تجویز پیش کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے جس کا تخمینہ 11 بلین ڈالر سے زیادہ ہے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کے دنیا کے چوتھے سب سے بڑے درآمد کنندہ کے طور پر بھارت اپنی تیل کمپنیوں کو مزید امریکی ایل این جی خریدنے کے لیے دباﺅ ڈال سکتا ہے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نئے پروجیکٹس کے لیے برآمدی اجازت نامے پر پابندی ہٹانے سے خوش ہے برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق نریندر مودی کے دورے کے دوران بھارت ممکنہ طور پر لڑاکا جہازوں کی خریداری اور مشترکہ پیداوار پر بات چیت کرے گا اور لڑاکا جیٹ انجن کے معاہدے کو حتمی شکل دے گا. دورے کے دوران بھارتی سرکاری ادارے ہندستان ایروناٹکس لمیٹڈ اور امریکی کمپنی جنرل الیکٹرک توانائی اور ایرو اسپیس معاہدوں کو حتمی شکل دینے کے لیے مذکرات کو آگے بڑھانے پر بھی بات چیت ہوگی اس کے علاوہ بھارتی وزیراعظم کی ایلون مسک سے ملاقات بھی متوقع ہے جس میں وہ ٹیسلا کاروں کی ہندوستان میں مارکیٹ اور پروڈکشن پلانٹ لگانے کے علاوہ اسٹار لنک پروجیکٹ کے لیے سیٹلائٹ سپیکٹرم کو بھارتی مارکیٹ میں مزید مواقع کے حوالے سے بات چیت کریں گے. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم ممکنہ طور پر امریکہ میں ہندوستانی کمپنیوں کے ذریعہ سرمایہ کاری میں سہولت فراہم کرنے کی تجویز پیش کر یں گے جن میں اسٹیل، ملبوسات اور مواصلات کے شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہے . بھارتی وزیراعظم کی امریکی صدر سے ملاقات میں سب سے اہم معاملہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی اور صنعتی تعلقات کا فروغ ہے ہندوستانی حکام اور صنعتی گروپ پر امید ہیں کہ مودی کے دورے سے امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک اور اقتصادی تعلقات میں اضافہ ہوگا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی خطرات کے پیش نظر نئی دہلی کا مقصد مینوفیکچرنگ اور خدمات بشمول انشورنس سیکٹر میں امریکی کمپنیوں سے بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے. ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نر یندر مودی درآمدات پر ٹیرف کے معاملے پر واشنگٹن کے خدشات کو کم کرنے کے لیے تجارتی شراکت داری کا منصوبہ پیش کریں گے اسٹریٹجک معاملات پر امریکہ اور بھارت دونوں کو چین کی طرف سے اقتصادی اور سلامتی کے شعبوں میں چیلنج درپیش ہیں جبکہ صدر ٹرمپ نے سابق امریکی خارجہ پالیسی کے مقابلے میں بعض معاملات پر نیا موقف اختیار کیا ہے جس میں امریکہ کا اسرائیل اور حماس جنگ کے خاتمے پر غزہ کی تعمیر نو کرنے اور وہاں سے فلسطینیوں کی منتقلی کا منصوبہ بھی شامل ہے اس تناظر میں ماہرین کے مطابق ٹرمپ اور مودی کی ملاقات مزید اہمیت اختیار کر گئی ہے. امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ کے مشیر برائے اقتصادی امور کیون ہیسیٹ نے کہا کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ اسے دوسرے ملکوں کی طرف سے اپنی درامدات پر عائد محصولات کے مساوی تجارتی ٹیرف لگانے چاہیں اور اگر دوسرے ملک ان محصولات کو کم کر دیں تو امریکہ بھی اپنے محصولات میں اتنی ہی کمی لائے گا کیون ہیسیٹ کا کہنا ہے کہ سابق جو بائیڈن انتظامیہ نے دوسرے ملکوں کو ٹیرف کے معاملے پر بہت چھوٹ دی تھی اور اب وائٹ ہاﺅس کا ارادہ ہے کہ دیے گئے استثنی کو مناسب وقت پر روک دیا جائے. بھارتی اعلی حکام کے مطابق نئی دہلی امریکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے الیکٹرانکس سے لے کر طبی آلات اور کیمیکلز تک کم از کم ایک درجن شعبوں میں ٹیرف میں کمی پر غور کر رہا ہے اس کے علاوہ بھارت تجارتی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے امریکہ سے توانائی کی مصنوعات کی درآمدات میں اضافے کی تجویز کا بھی منصوبہ رکھتا ہے. واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ فیلو اور ماہراقتصادیات ڈاکٹر زبیر اقبال نے ”وائس آف امریکا“سے گفتگو میں کہاکہ بھارت کا امریکہ سے توانائی کی مصنوعات کی درآمد میں اضافے کا مطلب روس یا ایران سے برآمدات میں کمی کرنا ہوگا جو کہ بجائے خود ایک بڑا نازک اسٹریٹجک مسئلہ ہے جہاں تک چین سے مسابقت کا تعلق ہے تو ان کے نزدیک ٹرمپ اور مودی کی ملاقات میں یہ سب سے اہم موضوع ہو سکتا ہے انہوں نے کہاکہ میرے خیال میں سب سے اہم سوال یہ ہو گا کہ بھارت کس حد تک امریکہ کے ساتھ چین مخالف اتحاد میں اپنے عزم کا اظہار کرتا ہے اور یہ کہ واشنگٹن اور نئی دہلی کس حد تک ایک دوسرے کی چین کے مقابلے میں حمایت کریں گے یہ شاید تجارت سے بھی زیادہ اہم معاملہ ہوگا. ڈاکٹر زبیر اقبال نے کہا کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان تجارتی محصولات پر تقریباً ایک دہائی سے بات ہورہی ہے امریکہ نے جو اب تک کے محصولات لگائے ہیں وہ مخصوص مصنوعات پر عائد ہوئے ہیں بھارت اگر درآمدی ڈیوٹی کم کرتا ہے تو وہ مخصوص اشیا پر ہی کرے گا کیونکہ اگر عمومی طور پر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے لیے ڈیوٹی یا محصولات پر چھوٹ دیتا ہے تو اسے دوسرے ملکوں کو بھی یہ مراعات دینی پڑتی ہے. انہوں نے کہاکہ اگر تمام ملکوں کے ساتھ تجارت میں یکساں ٹیرف عائد نہ کیے جائیں تو یہ عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیو ٹی او کے طے کردہ ضوابط کی خلاف ورزی ہوگی اور ایسے اقدام کو امتیازی قرار دیا جا سکتا ہے لہذا امریکہ اور بھارت کو بہت غور و فکر کے ساتھ تجارتی ٹیرف کے معاملے سے باہمی طور پر نمٹنا ہوگا . صدر ٹرمپ کی جانب سے اسٹیل اور ایلومینیم کی اشیا پر اضافی 25 فیصد محصولات کے اعلان کے بھارت کی اسٹیل اور ایلومینیم کی مصنوعات کی برآمد ات پر اثرات مرتب ہوں گے فیڈریشن آف انڈیین منرل انڈسٹریز کے سیکرٹری جنرل بی کے بھاٹیا نے کہا کہ نئے امریکی محصولات کے بھارتی برآمدات پر گہرے اثرات ہو سکتے کیونکہ بھارت یہ مصنوعات برآمد کرنے والے بڑے ملکوں میں شامل ہے ماہرین کے خیال میں تجارت کے علاوہ دوسرے اہم امور میں امریکہ سے غیرقانونی طور پر امریکہ میں رہنے والے بھارتی شہریوں کی بے دخلی‘چین سے مقابلے کرنے والے گروپ کواڈ کو موثر بنانا‘ دفاع کے شعبے میں تعاون اور امریکہ اور بھارت کے عالمی امور پر موقف میں ہم آہنگی شامل ہوں گے . بھارتی وزیراعظم کے دورے سے قبل امریکہ میں غیرقانونی طور پر مقیم بھارتی شہریوں کی واپسی کو ماہرین واشنگٹن کی جانب سے دہلی کے لیے ایک پیغام کے طور پر دیکھ رہے ہیں اس سلسلہ میں بھارت کی امریکہ میں سابق سفیر میرا شنکر کہتی ہیں کہ ان جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے بھارت اور امریکہ کو مضبوط بنیادوں پر ایک ایسی شراکت داری استوار کرنے کی ضرورت ہے جس میں تعاون اور حقیقی عملیت پسندی کے درمیان توازن حاصل ہو. نشریاتی ادارے” سی این بی سی“ سے بات کرتے ہوئے میرا شنکر نے کہا کہ بھارت سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن شہریوں کی واپسی جیسے پیچیدہ موضوعات پر تعمیری انداز میں مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ بغیر دستاویزات کے بغیر افراد کوفوجی طیاروں کے بجائے ماضی کی طرح زیادہ خاموش طریقے سے بھیجنا ایک ترجیحی عمل ہے جبکہ ڈاکٹر زبیر کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ یہ بھی چاہیں گے کہ وزیر اعظم مودی ان کی غزہ کی تعمیر نو سمیت مشرق وسطی کے معاملات پر کھل کر حمایت کا اظہار کریں واشنگٹن میں موجود تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ عالمی سطح پر اپنے پیش کردہ منصوبے کی زیادہ سے زیادہ حمایت چاہتے ہیں مگر بھارت کے لیے یقینی طور پر یہ بہت مشکل ہوگا کیونکہ سعودی عرب‘متحدہ عرب امارات سمیت مشرق وسطی کے دیگر ممالک کے علاوہ روس اورایران کے ساتھ بھی اس کے بہت زیادہ اقتصادی‘سیاسی اورعلاقائی مفادات جڑے ہوئے ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکہ اور بھارت بھارتی وزیراعظم کی مصنوعات کی امریکہ میں کی جانب سے امریکہ سے نے کہا کہ کہ بھارت نئی دہلی کے مطابق بھارت کے کے علاوہ کرنے کی کریں گے بات چیت کے ساتھ پیش کر کے لیے
پڑھیں:
چیمپئینز ٹرافی؛ کیا بھارتی ٹیم وارم اَپ میچز نہیں کھیلے گی؟
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی کے آغاز سے قبل بھارتی ٹیم وارم اَپ میچز میں حصہ نہیں لے گی۔
بھارتی میڈیا نے اپنی رپورٹس میں دعویٰ کیا ہے کہ انگلینڈ کیخلاف وائٹ بال سیریز کی میزبانی کرنیوالے انڈین کرکٹ ٹیم 15 فروری کو چیمپئینز ٹرافی کیلئے دبئی کا رخ کرے گی۔
رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ انگلینڈ کیخلاف حال ہی میں ون ڈے اور ٹی20 سیریز کھیلنے والی بھارتی ٹیم چیمپئینز ٹرافی سے قبل وارم اَپ میچز میں حصہ نہیں لے گی۔
مزید پڑھیں: "شاہین، نسیم کو ٹیم سے باہر کرو" سابق کرکٹر کا مطالبہ
دوسری جانب بنگلادیش کرکٹ ٹیم کو اپنا میچ بھارت کیخلاف دبئی میں کھیلنا ہے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ بنگال ٹائیگرز کی ٹیم ورم اپ میچ کھیلنا چاہتی ہے یا نہیں۔
ٹورنامنٹ کا آغاز 19 فروری کو پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان میچ سے ہوگا، بعدازاں گرین شرٹس کو بھارت کا چیلنج درپیش ہوگا۔
مزید پڑھیں: چیمپئینز ٹرافی؛ پاک بھارت میچ سے قبل انڈین میڈیا کا نسیم شاہ پر الزام
ادھر بھارت نے گزشتہ ماہ آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی کیلئے 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کیا تھا تاہم اب جسپریت بمراہ کی دستیابی تاحال غیر یقینی ہے۔
مزید پڑھیں: پہلے صائم اب حارث! چیمپئینز ٹرافی میں پاکستان کا مستقبل کیا؟
فاسٹ بولر کی ایونٹ میں شرکت سے متعلق فیصلہ آج ہوگا کیونکہ 11 فروری رات 12 بجے تک تمام ٹیمیں اپنے اسکواڈ میں حتمی تبدیلیاں کرسکتی ہیں جس کے بعد آئی سی سی کی ٹیکنیکل کیمٹی کی اجازت درکار ہوگی۔