پاکستان کا سلامتی کونسل سے تحریک طالبان پاکستان اور مجید بریگیڈ کے خلاف عالمی اقدام کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 فروری ۔2025 )پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے افغانستان سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور مجید بریگیڈ کے خلاف عالمی اقدام کا مطالبہ کیا ہے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل کے داعش کے حوالے سے دنیا کو لاحق خطرات پر ہونے والے اجلاس میں کہا کہ اپنی سرزمین سے کامیاب کارروائیوں کے ذریعے القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے کے باوجود پاکستان کو ٹی ٹی پی‘داعش اور مجید بریگیڈ جیسے دہشت گرد گروپوں کے خطرے کا سامنا ہے جو سرحدوں پار محفوظ پناہ گاہوں سے فعال ہیں.
(جاری ہے)
منیر اکرم نے کہا کہ داعش کا خطرہ خطے سے آگے تک پھیل چکا ہے آج اس ٹیبل پر داعش کے خطرے کا ذکر تو ہے مگر پاکستان کو ٹی ٹی پی اور مجید بریگیڈ جیسے لاحق خطرات کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا انہوں نے کہا کہ جیسا کہ سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ داعش اور اس سے منسلک تنظیمیں دنیا بھر کے لیے خطرہ برقرار ہے اور ان تنظیموں نے ثابت کیا ہے کہ وہ مزاحمت پیدا کرنے اور انسداد دہشت کے دباﺅ جیسے غیر موافق ماحول میں خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس لیے عالمی برادری کو دہشت گردی کے خطرے کا جامع اور مربوط حکمت عملی سے مل کر مقابلہ کرنا ہو گا. انہوں نے تجویز دی کہ عالمی برادری کو شام اور افغانستان سے پیدا ہونے والے دہشت گردی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی اور اس کے تمام مظاہر کی مذمت کرتا ہے ہم گذشتہ چار دہائیوں سے انسداد دہشت گردی کی مہم اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی محاذ پر پیش پیش رہے ہیں . انہوں نے کہاکہ ہم دہشت گرد حملوں کا شکار رہے جس کو خطے میں ہمارے دشمنوں کی مالی حمایت حاصل رہی اور ہم نے اس کی بھاری قیمت چکائی ہے جہاں ہمارے 80 ہزار شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ہماری معیشت پر بھی کاری ضرب لگائی گئی منیر اکرم نے کہا کہ عالمی دہشت گردی کا منظر نامہ سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 1373 کی منظوری کے بعد نمایاں طور پر تبدیل ہو چکا ہے. اپنے خطاب میں انہوں نے کہاکہ دنیا بھر میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے جس میں مشرق وسطیٰ اور افریقہ شامل ہیں اور خاص طور پر افغانستان میں اور یہاں سے ہونے والی دہشت گردی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے پاکستانی مندوب نے کہا کہ جیسا کہ القاعدہ کا مرکزی ڈھانچہ افغانستان میں تباہ کر دیا گیا تھا جس میں پاکستان نے نمایاں کردار ادا کیا تھا، اب یہ تنظیم شمالی افریقہ اور سب صحارا خطے میں ابھر رہی ہے اسی طرح داعش کو عراق اور شام میں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ اب افغانستان میں پھل پھول رہی ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اور مجید بریگیڈ منیر اکرم نے کے خطرے کا نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
افغان حکومت پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث، لاشوں کی وصولی بڑا ثبوت
افغان حکومت کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے واضح شواہد سامنے آگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، افغان حکومت نے پاک فوج کے ہاتھوں 6 فروری 2025 کو آپریشن کے دوران مارے گئے افغان دہشت گرد کی لاش وصول کرلی۔ ہلاک دہشت گرد کی شناخت لقمان خان ولد کمال خان کے نام سے ہوئی، جو افغانستان کے ضلع خوست کا رہائشی تھا۔
اس سے قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں ہلاک کیے گئے دہشت گرد احمد الیاس عرف بدرالدین کی لاش بھی افغان طالبان نے وصول کی تھی۔ ذرائع کے مطابق احمد الیاس صوبہ بادغیس کے نائب گورنر مولوی غلام محمد کا بیٹا تھا، جس کی ہلاکت پر افغان عبوری حکومت نے جشن منایا۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک فوج کی مختلف کارروائیوں میں اب تک بڑی تعداد میں افغان دہشت گرد ہلاک کیے جا چکے ہیں، اور ان کی لاشیں افغان حکومت وصول کر رہی ہے۔
دفاعی ماہرین کے مطابق، لاشوں کی وصولی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ افغان عبوری حکومت فتنہ الخوارج کے ساتھ ملی بھگت رکھتی ہے اور پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک جانب افغان طالبان دہشت گردوں کی مدد سے انکار کرتے ہیں، جبکہ دوسری جانب ہلاک دہشت گردوں کی لاشیں وصول کر کے اپنے ہی دعوؤں کو جھوٹا ثابت کر رہے ہیں۔ یہ دوہرا معیار ثابت کرتا ہے کہ افغان عبوری حکومت ایک ملیشیا کی طرز پر کام کر رہی ہے اور پاکستان میں براہ راست دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
دفاعی ماہرین نے افغان عوام کو خبردار کیا ہے کہ وہ طالبان اور فتنہ الخوارج کے عزائم سے ہوشیار رہیں، کیونکہ یہ دہشت گرد گروہ نوجوانوں کو لالچ دے کر پاکستان میں دہشت گردی پر مجبور کر رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، فتنہ الخوارج شریعت کا لبادہ اوڑھ کر منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر جرائم میں ملوث ہے، جس کی حقیقت بے نقاب ہونے کے بعد کئی افغان شہری ان سے بدظن ہوچکے ہیں۔