Daily Ausaf:
2025-02-11@13:50:51 GMT

بیت المقدس کی تاریخ : رواداری کے چراغ، جبر کے اندھیرے

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

بیت المقدس جسے یروشلم بھی کہا جاتا ہے دنیا کے قدیم ترین اور مقدس ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ شہر تین بڑے ابراہیمی مذاہب اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے جس میں فتوحات، تنازعات اور مذہبی تقدس کے بے شمار واقعات شامل ہیں۔ عیسائیوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بیت المقدس کی چابی پیش کی تھی۔ جب مسلمانوں نے 637 عیسوی میں بیت المقدس کو فتح کیا تو شہر کے عیسائی پادریوں نے شرط رکھی کہ وہ صرف خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ہتھیار ڈالیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود بیت المقدس پہنچے اور عیسائی پادری صفرونیئس (Sophronius) نے انہیں شہر کی چابی پیش کی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہایت انصاف پسندی اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عیسائیوں کو ان کے مذہبی حقوق دیئے اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر نو کا حکم دیا۔ یہودیوں کو جو صدیوں سے بیت المقدس میں داخلے سے محروم تھے دوبارہ شہر میں رہنے اور عبادت کرنے کی اجازت دی گئی۔اس واقعے میں یہودیوں کا کردار نہیں تھا بلکہ یہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دوراندیشی اور انصاف پسندی کی عکاسی کرتا ہے ۔ دس سو ننانوے عیسوی میں صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے شہر میں قتل عام کیا اور مسلمانوں اور یہودیوں کو بے دردی سے قتل کیا۔ صلیبیوں نے بیت المقدس کو ایک عیسائی بادشاہت کا دارالحکومت بنایا۔ تاہم 1187 عیسوی میں صلاح الدین ایوبی نے حطین کی جنگ میں صلیبیوں کو شکست دے کر بیت المقدس کو دوبارہ فتح کیا۔ صلاح الدین ایوبی نے نہایت انصاف پسندی اور رواداری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے عیسائیوں کو شہر میں رہنے اور اپنے مذہبی مقامات کی زیارت کرنے کی اجازت دی۔ صلاح الدین ایوبی کی فتح بیت المقدس کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔
پندرہ سو سترہ عیسوی میں عثمانی سلطنت کے سلطان سلیم اول نے دوبارہ مسلمانوں کو بیت المقدس کا حاکم بنایا۔ عثمانیوں نے بیت المقدس کو ایک اہم مذہبی اور انتظامی مرکز بنایا۔ سلطان سلیمان القانونی نے شہر کی دیواریں تعمیر کیں اور مسجد اقصی کی تزئین و آرائش کی۔ عثمانی دور میں بیت المقدس نسبتاً پرسکون رہا۔
آج کبھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ پر قبضے کی بات کرتے ہیں تو کبھی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سعودی عرب کو فلسطینیوں کو اپنے ملک میں بسا لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تجاویز بیت المقدس کے مسئلے کا حل پیش کر سکتی ہیں؟ یا یہ محض ایک پیچیدہ مسئلے کو اور الجھانے کا سبب بن رہی ہیں؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان کہ امریکہ غزہ پر قبضہ کر لے گا نہ صرف متنازعہ تھا بلکہ اس نے پوری دنیا میں طوفان برپا کر دیا۔ اسلامی ممالک نے اس بیان کو مسترد کر دیا اور اس کی شدید مذمت کی۔ یہ بیان فلسطینیوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حق خود ارادیت کے خلاف بھی تھا۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو عالمی سطح پر ناقابل قبول سمجھا گیا۔ٹرمپ کے بیان کے بعد دنیا بھر سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے غیر مسلم حکمرانوں نے بھی شدید رد عمل دیا۔ اس بیان کو “انسانی حقوق کی خلاف ورزی” قرار دیا اور فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائی۔ سعودی عرب جو کہ امریکہ کا اہم اتحادی ہینے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کوصرف ان کی سرزمین پر ہی رہنے کا حق حاصل ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا یہ کہنا کہ “سعودی عرب فلسطینیوں کو اپنے ملک میں بسا لے” بھی ایک متنازعہ اور غیر مناسب تجویز ہے۔ یہ تجویز نہ صرف فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے خلاف ہے بلکہ اس نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کوششوں کو بھی واضح کر دیا۔ فلسطینیوں کا مطالبہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ انہیں ان کی تاریخی سرزمین پر رہنے کا حق دیا جائے نہ کہ انہیں کسی دوسرے ملک میں منتقل کر دیا جائے۔نیتن یاہو کی یہ تجویز اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے وجود کو تسلیم نہ کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔
مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کا مقام مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر تمام انبیا کی امامت کی تھی۔ یہ مسجد نہ صرف اسلام کی تاریخ کا اہم حصہ ہے بلکہ یہ مسلمانوں کے ایمان کا بھی مرکز ہے۔ مسجد اقصی کو قبلہ اول ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور یہ مسلمانوں کے لیے انتہائی احترام کی جگہ ہے۔صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو کے بیانات کے بعد فلسطینی مزاحمتی تحریکوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ حماس، القسام بریگیڈ، اور حزب اللہ جیسی تنظیمیں اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے میدان میں موجود ہیں۔ حماس نے ایک نئی طاقت اور جذبے کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھی ہے۔ یہ تنظیم نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق کے لیے لڑ رہی ہے بلکہ وہ بیت المقدس کی آزادی کے لیے بھی پرعزم ہے۔ القسام بریگیڈ اور حزب اللہ بھی اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے سرگرم ہیں۔ایک طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی اور صلاح الدین ایوبی جیسے بہادر حکمرانوں نے بیت المقدس کو فتح کرنے کے بعد عیسائیوں اور یہودیوں کو نہ صرف وہاں رہنے کی اجازت دی بلکہ انہیں مکمل مذہبی آزادی بھی فراہم کی۔ یہ تھا مسلم حکمرانوں کا کردار جو رواداری، انصاف اور انسانیت کے بلند ترین معیارات پر مبنی تھا۔
مگر دوسری طرف آج کے دور میں صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو جیسے لیڈران بیت المقدس اور غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان کی پالیسیاں نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرتی ہیں بلکہ وہ انصاف اور انسانیت کے بنیادی اصولوں کو بھی نظرانداز کرتی ہیں۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ جبر و تشدد کے ذریعے کبھی کوئی حقیقی فتح حاصل نہیں ہو سکی۔ بیت المقدس اور غزہ کے لوگ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے ہمیشہ سے پرعزم رہے ہیں اور ان کے عزم کے آگے ٹرمپ اور نیتن یاہو جیسے لیڈران کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ بیت المقدس صرف ایک شہر نہیں بلکہ امن، رواداری اور انصاف کی علامت ہے، اور اس کی حفاظت کا فریضہ ہر انسان پر عائد ہوتا ہے۔بیت المقدس اور فلسطین کا مسئلہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک جذباتی اور مذہبی مسئلہ ہے اور یہ بات واضح ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو گی۔بیت المقدس اور مسجد اقصی کی حفاظت مسلمانوں کی اولین ترجیح ہے اور وہ کبھی بھی اس مقدس مقام کو دشمن کے حوالے نہیں کریں گے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ صلاح الدین ایوبی فلسطینیوں کے حق بیت المقدس اور نے بیت المقدس بیت المقدس کو بیت المقدس کی فلسطینیوں کو ان کی سرزمین مسلمانوں کے نیتن یاہو عیسوی میں کی حفاظت کی تاریخ کرنے کی کر دیا اور یہ کے لیے اور ان

پڑھیں:

ٹرمپ نے حماس کو ہفتے تک یرغمالی رہا نہ کرنے پر سخت دھمکی دے دی

واشنگٹن:

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کو دھمکی دی ہے کہ اگر اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا تو صورتحال بے قابو ہو جائے گی۔

غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کی یہ دھمکی حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کے بعد سامنے آئی ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ ہفتے کے دن 12 بجے تک تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنا ہو گا ورنہ بہت نقصان ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ مقررہ وقت تک یرغمالی رہا نہ ہوئے تو میں اسرائیل سے معاہدے کو منسوخ کرنے کا کہہ دوں گا جس کے بعد سب کچھ ملیا میٹ ہو جائے گا، اور کچھ نہیں بچے گا۔

فلسطینیوں کی غزہ سے بے دخلی کے اپنے بیان پر قائم ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اردن ممکنہ طور پر پناہ گزین لینے پر راضی ہو جائے گا، ٹرمپ نے اردن اور مصر کو دھمکی دیتے ہوئے کہ اگر فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر پناہ نہیں دی تو دونوں ممالک کی امداد بند کر دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ کا کنٹرول اور کینیڈا کو ریاست بنانے میں سنجیدہ ہوں، ٹرمپ
  • ٹرمپ نے حماس کو ہفتے تک یرغمالی رہا نہ کرنے پر سخت دھمکی دے دی
  • فلسطینیوں کی بیدخلی کا مذموم منصوبہ
  • زیادہ سے زیادہ دباو کی پالیسی ناکام بنا کر تاریخ کا سب سے بڑا معاہدہ انجام دیا ہے، ایرانی وزیر تیل
  • زیادہ سے زیادہ دباو کی پالیسی ناکام بنا کر تاریخ کے سب سے بڑا معاہدہ کر دیا ہے، ایرانی وزیر تیل
  • فلسطینیوں کو بیدخل کرنے کی سازشیں ناکام بنادیں گے، حماس
  • ملتان، ایم ڈبلیو ایم کے وفد کی کمشنر ملتان سے ملاقات، مذہبی رواداری کے فروغ پر تبادلہ خیال 
  • ملتان، ایم ڈبلیو ایم کے وفد کی کمشنر ملاقات سے ملاقات، مذہبی رواداری کے فروغ پر تبادلہ خیال 
  • مجھے5 روز تک مکمل اندھیرے میں رکھا، بانی کا دوسرا مبینہ خط