ترک صدر رجب طیب اردوان کل پاکستان پہنچیں گے
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کل پاکستان پہنچیں گے ،اسلام آباد آمد پر ترک صدر کا شاندار خیرمقدم کیا جائے گا ،پاک فضائیہ کے جے ایف سیونٹین تھنڈرز تک صدارتی طیارے کو ایسکورٹ کریں گے۔ذرائع کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان ملائشیا اور انڈونیشیا کا دورہ مکمل کرنے کے بعد پاکستان پہنچیں گے، ترک صدر رجب طیب اردوان کی پاکستان میں وزیراعظم شہباز شریف سمیت اعلی سیاسی قیادت کے ساتھ ملاقاتیں ہوں گی، وزیراعظم شہباز شریف اور ترک صدر اردوان پاک ترک ہائی لیول سٹرٹیجک کونسل کے اجلاس کی مشترکہ صدرات بھی کریں گے۔پاک ترک قیادت اہم علاقائی و بین الاقوامی امور بشمول غزہ اور مشرق وسطی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کریں گے، پاکستان اور ترکی کے تعلقات گزشتہ چند برسوں میں پائیدار دو طرفہ سٹریٹیجک شراکتداری میں ڈھل چکے ہیں ، پاکستان اور ترکی کے درمیان خاص طور پر دفاعی شعبے میں تعاون اور شراکت داری فروغ پا رہی ہے ۔پاکستان ترکی سے نہ صرف جنگی بحری جہاز پاکستان اور ڈرونز خرید رہا ہے ،دونوں ملک دیگر شعبوں میں بھی تعاون کو نئی منزلوں کی جانب لے جا رہے ہیں ، پاکستان ترکی سے ملجم پروجیکٹ کے تحت جنگی بحری جہاز خریدنے والا پہلا ملک ہے ۔پاکستان ترکی سے آقنچی،بیرکتار اور ٹی بی ٹو جیسے ڈرونز بھی خرید چکا ہے، پاکستان اور ترکی کا ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ جوائنٹ وینچر بھی کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے، پاکستان اور ترکی ٹی ایف ایکس ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کی پاکستان میں اسمبلی لائن قائم کرنے پر متفق ہو چکے ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
ترکی: پراسیکیوٹر کی کہانی شائع کرنے پر صحافیوں کی گرفتاریاں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 فروری 2025ء) ترکی میں بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ایک معروف اخبار بیر جون نے اتوار کے روز حکام پر پریس کے خلاف دباؤ ڈالنے اور دھمکانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس کے تین صحافیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
اخبار کے ایڈیٹر انچیف ابراہیم ورلی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ صحافی اوگور کوک، برکات گلٹیکن اور ان کے مینیجنگ ایڈیٹر یاسر گوکدیمیر کو ہفتے کی رات گئے ان کے گھروں سے اٹھا لیا گیا۔
جرمنی نے 'آزادی صحافت' کے تنازع پر ترک سفیر کو طلب کرلیا
بیر جون کے مطابق استنبول کے چیف پراسیکیوٹر کے بارے میں ایک اسٹوری شائع کرنے پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت تینوں صحافیوں کو کئی گھنٹوں تک حراست میں رکھا گیا۔
(جاری ہے)
جس رپورٹ کی وجہ سے صحافیوں کو حراست میں لیا گیا، وہ حکومت کے حامی میڈیا ادارے صباح کے ایک صحافی کے حوالے سے تھی، جنہوں نے چیف پراسیکیوٹر اکن گورلیک سے ملاقات بھی کی تھی۔
خود صباح نے بھی اسی طرح کی ایک رپورٹ کی اطلاع بھی دی تھی۔’دہشت گردوں کی مدد‘: ترکی میں چودہ صحافیوں کو سزائے قید
ترکی میں انسداد دہشت گردی کا قانون ان لوگوں کے خلاف بھی مقدمہ چلانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، جنہوں نے انسداد دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو "نشانہ" بنایا ہو۔
حراستیں 'ناقابل قبول' ہیں، رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرزترک حکام نے صحافیوں کو اتوار کے روز استنبول کی ایک عدالت میں پیش کیا، جس کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا اور انہیں باضابطہ طور پر گرفتار نہیں کیا گیا۔
دو ہزار سولہ میں صحافیوں کی ہلاکتیں کم لیکن شدید خطرات باقی
میڈیا پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) اور ترکی میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعت نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔
آر ایس ایف کے ایرول اونڈروگلو نے ایکس پر لکھا، "پراسیکیوٹر کی غیر جانبداری پر تنقید کرنے والی ایک خبر پر یہ کارروائی بلاجواز ہے۔
" ادارے نے کہا کہ اس طرح کی حراستیں "ناقابل قبول" ہیں۔انقرہ حکومت نے ڈی ڈبلیو کا ویڈیو مواد ضبط کر لیا
صحافیوں کی گرفتاریوں میں اضافہحالیہ مہینوں میں استنبول کے اعلیٰ پراسیکیوٹر اکین گرلیک کے بارے میں مضامین لکھنے یا تبصر کرنے جیسے اسی طرح کے الزامات کے تحت کئی افراد کے خلاف قانونی تحقیقات شروع کی گئی ہیں۔
حزب اختلاف کے رہنما اوزگور اوزیل نے اس حوالے سے کہا کہ صحافیوں کی حراست "ایک بے مثال رسوائی" ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ "اس طرح کے واقعات کے حوالے سے جرم گھڑنے کی کوشش کرنا ایک جرم کی علامت ہے۔"
ترکی میں آزادیٴ صحافت پر حملے اور یورپی یونین پر بڑھتا دباؤ
اوزیل کو بھی اسی طرح کے الزامات کے تحت نشانہ بنایا جا چکا ہے، جن پر نومبر میں "ایک سرکاری اہلکار کی توہین" اور "انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں ملوث افراد کو نشانہ بنانے" کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر آکن گورلیک کے بارے میں بعض تبصرے کیے تھے۔سنسر شپ کی شکار ترک صحافت ہانپتی ہوئی
ترکی میں ایم ایل ایس اے میڈیا رائٹس گروپ کا کہنا ہے کہ ملک میں کم از کم تیس صحافی اور میڈیا کارکن جیل میں ہیں، جبکہ چار گھروں میں نظر بند ہیں۔
تنظیم نے گزشتہ برس کہا تھا کہ اس نے آزادی اظہار سے متعلق 281 مقدمات کی نگرانی کی، جس میں اہک ہزار آٹھ سو چھپن مدعا علیہان شامل تھے اور اس میں سے تین سو چھیاسٹھ صحافی تھے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی ڈبلیو ذرائع)