‎لیبر پارٹی نے ہفتے کی شروعات نائجل فراج کی پارٹی، ریفارم یو کے پر سخت حملے کے ساتھ کی ہے، خاص طور پر اس معاملے پر جو ریفارم یو کے کے ووٹرز کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ سر کیئر اسٹارمر اور ان کی کابینہ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر انہیں شکست نہیں دی جا سکتی، تو ان کے ہی طریقے اپنا لیے جائیں۔ اسی لیے وہ نائجل فراج کے قریبی ساتھی، ڈونلڈ ٹرمپ کی حکمت عملی استعمال کر رہے ہیں تاکہ ان پر حملہ کیا جا سکے۔

‎پہلے مرحلے میں ہوم آفس نے ایک بڑا تشہیری مہم چلائی ہے، جس میں غیر قانونی تارکین وطن کی گرفتاریوں اور چھاپوں پر فخر کیا جا رہا ہے۔ یہ چھاپے ریستورانوں، ٹیک اوے مراکز، کار واشز، نیل بارز اور ویپ شاپس پر مارے گئے ہیں۔

‎لیبر حکومت یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ ان کی سخت پالیسیوں کے باعث گرفتاریوں کی تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، جب کنزرویٹو پارٹی اقتدار میں تھی۔

اس پیغام کو مزید مؤثر بنانے کے لیے بارڈر فورس کے افسران کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے، جس میں انہیں دروازے توڑ کر اندر گھستے اور لوگوں کو ہتھکڑیاں لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

کیا واقعی پاکستانی عوام ٹیکس چور ہیں؟ اصل مسئلہ کیا ہے؟

اکثر ہمیں سننے کو ملتا ہے کہ پاکستانی عوام ٹیکس چور ہے، وہ ٹیکس نہیں دیتی اور یہی وجہ ہے کہ ملک کی معیشت مشکلات کا شکار ہے۔ پاکستان میں خوشحالی نہیں آسکتی، نہ صحت کی سہولیات مل سکتی ہیں، تعلیم اور نہ روزگار۔ لیکن کیا یہ دعوے واقعی سچ ہیں؟ اور اگر فرض کرلیں کہ جو لوگ اس وقت ٹیکس دے رہے ہیں وہ پوری زندگی ٹیکس دیتے رہیں، تو کیا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؟ آج ہم ڈیٹا کے ساتھ یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اصل کہانی کیا ہے اور وہ کون سے عوامل ہیں جو ملکی معیشت کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔

سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ عوام نے پچھلے چند برسوں میں کتنا ٹیکس دیا ہے۔ اگر ہم گزشتہ چار سالوں کے اعداد و شمار دیکھیں تو عوام کی جانب سے ادا کیے گئے ٹیکسز میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مالی سال 2020-21 میں عوام نے 4,734 ارب روپے ٹیکس دیا، 2021-22 میں یہ رقم بڑھ کر 6,148 ارب روپے ہوگئی، 2022-23 میں مزید بڑھ کر 7,169 ارب روپے ہوگئی، اور 2023-24 میں یہ 9,306 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ حکومت کا ہدف ہے کہ 2024-25 میں 12,970 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا جائے۔ یہ ڈیٹا واضح کرتا ہے کہ عوام نے ہر سال پہلے سے زیادہ ٹیکس دیا ہے، تقریباً دوگنا سے بھی زیادہ۔ اگر صرف گزشتہ مالی سال کی بات کریں تو انکم ٹیکس کی مد میں 4,528 ارب روپے اکٹھے کیے گئے، جن میں زیادہ تر تنخواہ دار طبقے سے لیے گئے۔ جبکہ سیلز ٹیکس کی مد میں 3,098 ارب روپے جمع کیے گئے، جو ہر شہری کو ادا کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ امیر ہو یا غریب۔

اس کے علاوہ، پیٹرولیم لیوی کی وصولی جولائی تا دسمبر 2024 کے دوران 549.41 ارب روپے سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ گزشتہ مالی سال اسی مدت میں یہ وصولی 472.77 ارب روپے تھی۔ یعنی پٹرول سستاہو سکتا ہے لیکن عوام پر پہلے سے زیادہ بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عوام زیادہ ٹیکس دے رہی ہے، تو پھر بھی حالات کیوں خراب ہو رہے ہیں؟ اس کا جواب ہمیں حکومتی اخراجات میں ملے گا۔

مؤقر انگریزی اخبار بزنس رکارڈر کے مطابق، 2024-25 میں حکومت کے کل اخراجات 18,877 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جنہیں مختلف مدات میں خرچ کیا جائے گا۔ ان میں دفاعی امور کے لیے 2,122 ارب روپے، صوبوں کو گرانٹس اور ٹرانسفرز کے لیے 1,777 ارب روپے، ترقیاتی اخراجات کے لیے 1,674 ارب روپے، شہری حکومت چلانے کے اخراجات 1,152 ارب روپے، سبسڈیز کے لیے 1,363 ارب روپے، اور پنشن کی ادائیگیوں کے لیے 1,014 ارب روپے مختص کیے گئے۔ یہ تمام اخراجات ملا کر 9,102 ارب روپے بنتے ہیں، لیکن سب سے بڑا مسئلہ قرضوں اور سود کی ادائیگی ہے۔ پاکستان نے صرف قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کے لیے 9,775 ارب روپے ہیںجو حکومت کے باقی تمام اخراجات سے زیادہ ہے۔ یعنی اصل مسئلہ قرضوں کا بوجھ ہے، جو ہمارے وسائل کو ختم کر رہا ہے۔

یہ خسارہ کہاں سے پورا ہوگا؟ حکومت مزید قرض لے گی، اور اس کا بوجھ عوام پر ڈالے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایف بی آر کے مطابق، 2023-24 میں بجلی کے بلوں پر 364.66 ارب روپے سیلز ٹیکس کی مد میں جمع کیے گئے۔ گیس کے بلوں پر بھی اضافی ٹیکس عائد کیا گیا ہے، جس سے عام آدمی کے لیے زندگی مزید مشکل ہو چکی ہے۔ پانی اور نکاسی آب کی سہولیات پر بھی ٹیکس لاگو ہے، جو عام صارفین کے لیے اضافی مالی بوجھ بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں تقریباً ہر شے پر 18 فیصد جی ایس ٹی لاگو ہے، جو براہ راست عوام پر اثر انداز ہوتا ہے۔

ان بڑھتے ہوئے ٹیکسوں اور مہنگائی کا سب سے زیادہ نقصان مڈل کلاس کو ہو رہا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق، 2024 میں پاکستان میں غربت کی شرح 25.3 فیصد ہوگئی ہے، اور صرف ایک سال میں 1 کروڑ 30 لاکھ پاکستانی مزید غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، موجودہ مالی سال کی پہلے 6 ماہ میں ایکسپورٹرز اور پرچون فروشوں کے مقابلے میں تنخواہ دار طبقے نے 300 فیصد زیادہ ٹیکس دیا۔ ایف بی آر کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں تنخواہ دار طبقے نے 243 ارب روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ اگر یہ کولیکشن جاری رہی، تو یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا مالی سال ہوگا جب حکومت تنخواہ دار طبقے سے 30 جون 2025 تک قومی خزانے میں 500 ارب روپے کی خطیر رقم جمع کرے گی۔ سال 2023-24 کے دوران تنخواہ دار طبقے سے 368 ارب روپے ٹیکس وصول کیا گیا، جو 2022-23 کے مقابلے میں 103 ارب 74 کروڑ روپے زیادہ تھا۔

سرکلر ڈیٹ ایک اور بڑا مسئلہ ہے، جس نے ملکی معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ 2023 کے اختتام پر تقریباً 2,500 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا، جبکہ گیس سیکٹر میں سرکلر ڈیٹ بھی 1,500 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس کا براہ راست اثر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں عوام پر پڑتا ہے۔

یہ صورتحال صاف بتاتی ہے کہ اصل مسئلہ عوام کا ٹیکس نہ دینا نہیں، بلکہ حکومتی قرضوں اور غیر متوازن اخراجات کا ہے۔ جب تک حکومت اپنے مالی معاملات کو درست نہیں کرے گی، صرف عوام پر مزید ٹیکس عائد کرنے سے معیشت بہتر نہیں ہوگی۔ حل یہی ہے کہ بے جا حکومتی اخراجات کم کیے جائیں، خاص طور پر غیر ضروری سبسڈیز اور غیر پیداواری منصوبے۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے تاکہ زیادہ افراد اور کاروبار ٹیکس کے دائرے میں آئیں۔ قرضوں پر انحصار کم کیا جائے اور ملکی وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ سب سے بڑھ کر، مڈل کلاس کو مزید ٹیکسوں سے بچانے کے لیے پالیسیاں تشکیل دی جائیں، تاکہ وہ مہنگائی کے طوفان میں مزید نہ پھنسیں۔

جب تک حکومت آئی ایم ایف کے شکنجے سے آزاد نہیں ہوگی اور خود کفیل پالیسیوں کو اپنانے کی طرف نہیں جائے گی، تب تک یہ صورتحال جوں کی توں رہے گی۔ قرضوں پر انحصار اور غیر متوازن ٹیکس پالیسیوں کی وجہ سے معیشت مسلسل بگڑتی جائے گی اور عام شہری مزید مشکلات میں گرفتار ہوتا چلا جائے گا۔ اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، تو خود انحصاری، پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور ایک متوازن معاشی پالیسی اپنانا ناگزیر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چاہت فتح علی خان ایک بار پھر تنقید کی زد میں
  • لیبر پارٹی کا اینڈریو گوئن واٹس ایپ گروپ اسکینڈل میں ملوث مزید ارکان کیخلاف کارروائی کا عندیہ
  • خاتون میزبان کو بار بار شادی کی پیشکش، چاہت فتح علی خان پھر تنقید کی زد میں آگئے
  • واٹس ایپ گروپ میں نامناسب تبصرے پر برطانوی وزیر صحت عہدے سے فارغ ، پارٹی رکنیت بھی معطل
  • کیا واقعی پاکستانی عوام ٹیکس چور ہیں؟ اصل مسئلہ کیا ہے؟
  • ’امید ہے کہ خاتون اگلے انتخابات سے پہلے مر جائیں گی‘ برطانوی وزیر صحت نامناسب تبصرے پر معطل
  • آخر کچھ تو مسئلہ ہے!
  • کراچی ائرپورٹ سے مشکوک دستاویز پر دو مسافرآف لوڈ
  • کراچی ایئرپورٹ: ایف آئی اے نے جعلی دستاویزات پر دو مسافر آف لوڈ کر دیے