غزہ منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو غزہ واپس جانے کا حق نہیں ملے گا، ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ واپس جانے کا حق نہیں دیا جائے گا، کیونکہ ان کے لیے غزہ سے کہیں بہتر رہائشی علاقے فراہم کیے جائیں گے۔ ٹرمپ نے بتایا کہ غزہ کے باہر فلسطینیوں کے لیے چھ مختلف جگہوں پر نئے رہائشی علاقے بنائے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ فلسطینیوں کے لیے ایک مستقل رہائش گاہ قائم کرنا چاہتے ہیں، اور اگر وہ غزہ واپس بھی آنا چاہیں تو اس میں کئی سال لگیں گے کیونکہ غزہ ابھی رہائش کے قابل نہیں ہے۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ غزہ کے 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کے لیے نئے اور محفوظ رہائشی علاقے بنائے جائیں گے۔ ان کے مطابق، یہ علاقے خوبصورت ہوں گے اور فلسطینی وہاں زیادہ محفوظ اور بہتر زندگی گزار سکیں گے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں غزہ پر اسرائیل کے ذریعے امریکا کا قبضہ کرنے کا اعلان کیا تھا، اور کہا تھا کہ جنگ کے بعد غزہ کی پٹی اسرائیل سے امریکا کو منتقل کر دی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے خطے میں استحکام آئے گا اور اس کے لیے کسی فوجی کارروائی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
وقف قانون میں 44 خامیاں ہیں حکومت کی منشا وقف املاک پر قبضہ کرنا ہے، مولانا فیصل ولی رحمانی
امارت شرعیہ کے امیر نے اس قانون کی مکمل کاپی دکھاتے ہوئے کہا کہ اسمیں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ اس سے غریب مسلمانوں کا بھلا ہوگا یا غریب مسلمانوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ اور جھارکھنڈ کے امیر مولانا احمد ولی فیصل رحمانی نے وقف ترمیمی قانون کے حوالے سے مودی حکومت پر سنگین الزامات لگائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل جلد بازی میں اور غلط ارادوں سے لایا گیا ہے اور اس میں کل 44 بڑی خامیاں ہیں۔ مولانا ولی فیصل رحمانی نے الزام لگایا کہ یہ بل لینڈ مافیا کے مفاد میں تیار کیا گیا ہے اور اس کے ذریعے حکومت کی جانب سے وقف املاک پر قبضہ کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل وقف کے تحفظ کو کمزور کرتا ہے اور ہماری مذہبی اور سماجی شناخت کو بھی خطرہ میں ڈالتا ہے۔
مولانا فیصل رحمانی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس ترمیمی قانون کو واپس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ایس سی ایس ٹی قانون کو واپس لے لیا گیا، زرعی قانون کو واپس لے لیا گیا، پھر حکومت اس قانون کو واپس کیوں نہیں لے رہی ہے۔ انہوں نے اس معاملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حمایت کرنے والی دیگر جماعتوں سے کہا کہ وہ اس قانون کے خلاف کھڑی ہوں اور مرکز پر زور ڈالیں کہ وہ اس قانون کو واپس لے، کیونکہ یہ قانون کسی بھی صورت میں مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے۔
مولانا فیصل رحمانی نے اس قانون کی مکمل کاپی دکھاتے ہوئے کہا کہ اس میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ اس سے غریب مسلمانوں کا بھلا ہوگا یا غریب مسلمانوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔ انہوں نے اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے تحت تمام اختیارات کلکٹر/سرکاری کو دے دیے گئے ہیں جو کہ بالکل درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف عوام کی عطیہ کی گئی جائیداد ہے اور اس پر ایسا قانون بنانا ہرگز مناسب نہیں ہے، یہ قانون کسی بھی حالت میں مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہو سکتا۔