مسجد الحرام سے مسجد جن تک… !
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
میں اور عمران سعی مکمل کرنے کے بعد حلق کرانے (سر کے بال باریک منڈوانے ) کی نیت سے مروہ سے متصل مسجد الحرام کے مشرقی سمت کے گیٹ نمبر ۲۵سے باہر آئے تو رات تقریباً ۳ بجے کا وقت ہو گا۔ باہر آتے ہی ہمارا رابطہ سر کے بال مونڈنے والے ایک صاحب سے ہوا جن سے سر کے بالوں پر باریک مشین پھیرنے کے لیے ۵ ریال اُجرت طے پائی اور ہم ان صاحب کے ساتھ مسجد الحرام کی شمال مشرقی سمت میں دور بنی کئی منزلہ عمارات کی طرف چل پڑے جہاں سر کے بال مونڈنے والے کئی سیلون یا دکانیں موجود ہیں اور بڑی تعداد میں پاکستانی حجام وہاں سر کے بال مونڈنے کے لیے دن رات دستیاب ہوتے ہیں۔ ان صاحب کے ساتھ چلتے ہوئے ہمیں بال مونڈنے والی دکانوں یا سیلونوں تک کے فاصلے جو میرے خیال میں 1 کلو میٹر سے زائد ہی ہو گا کا بخوبی اندازہ تھا کہ 12,13 دن قبل مکہ مکرمہ میں آمد پر عمرے کی ادائیگی کے بعد ہم سر کے بال منڈوانے کے لیے جاتے ہوئے اسی راستے سے گزر چکے تھے۔ ان صاحب (حجام) کے ساتھ چلتے ہوئے ہماری گپ شپ بھی ہو رہی تھی اور ان صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستانی زائرینِ عمرہ و حج سر کے بال منڈوانے (حلق) کے لیے زیادہ اُجرت نہیں دیتے ہیں تقریباً یہی حال بنگلہ دیشی اور ہندوستانی عازمین کا ہے جبکہ انڈونیشیئن ، ملائشین اور دوسرے ممالک کے عازمین ِ حج و عمرہ سے ہم سر منڈوانے کی زیادہ اُجرت وصول کر لیتے ہیں۔
اس سے قبل میں لکھ چکا ہوں کہ مسجد الحرام کی مشرقی اور شمال مشرقی سمت میں جو یہ حصہ ہے اس میں کافی کھلا، لمبا چوڑا ، پختہ احاطہ ہے جس کے بائیں طرف پیدل چلنے کے راستے کے ساتھ قدِ آدم اُونچی دیوار شمال کی طرف کافی آگے تک جاتی ہے ۔ درمیان میں کئی رویہ چوڑی سڑک (شارع) اس پر بنا بس سٹاپ اور اُس کے پار پیچھے ہٹ کر پہاڑ (جبل بوقبیس) ہے اور ذرا بائیں اس کے نیچے منیٰ کو جانے والی اور وہاں سے آنے والی سُرنگی بنی ہوئی ہے۔ 1983ء میں ہم حج پر آئے تھے تو اُس وقت یہ سرنگ نئی نئی بنی تھی ۔ مجھے یاد ہے کہ ذوالحجہ کی ۱۲ تاریخ کو جب ہم نے منیٰ سے مکہ اپنی قیام گاہ پر
واپس آنا تھا تو پیدل یہی سرنگ والا راستہ اختیار کیا تھا۔ 41 برس قبل جیسے یہ کل کی بات ہے کہ گوجر خان سے تعلق رکھنے والے حاجی محمد خان اور اُن کی اہلیہ محترمہ (اللہ کریم غریقِ رحمت فرمائے) جو ہمارے ساتھ ہی مکہ مکرمہ میں ایک کمرے میں رہائش پذیر تھے اور منیٰ میں بھی ہمارا ایک ہی خیمہ تھا اور ہمارا اکٹھا ہی کھانا پینا تھا، ان سے ہم نے طے کیا کہ والدہ محترمہ بے جی مرحومہ و مغفورہ سامان سمیت ان کے ساتھ ٹیکسی پر منیٰ سے مکہ مکرمہ آ جائیں گی جبکہ میں اور میرے بڑے بھائی حاجی ملک غلام رزاق منیٰ سے پیدل مکہ مکرمہ کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں ۔ ہم دونوں بھائیوں نے منیٰ میں مسجدِ خیف میں ظہر کی نماز ادا کی اور پھر پیدل مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ وسط ستمبر 1983ء کا یہ گرم دن تھااور دھوپ کافی تیز تھی ۔ پینے کے لیے ٹھنڈے پانی کی بوتلیں ہمارے پاس تھیں۔ راستے میں ایک جگہ کنٹینر پر برف (فریج) میں یخ کیے ہوئے گرمے بِک رہے تھے ۔ ہم نے وہاں سے ایک گرما بھی لے لیا اور آگے چلتے گئے یہاں تک کہ منیٰ سے مکہ مکرمہ آنے والی اس سرنگ کے دھانے تک پہنچ گئے۔ سرنگ میں تیز روشنیاں ، بڑے بڑے ایگزاسٹ فین(پنکھے ) اور پیدل چلنے والوں کے لیے کشادہ راستہ غرضیکہ بڑی سہولت کے ساتھ ہم اس میں سے پیدل گزر کر باہر آ گئے۔
سر مونڈنے والے صاحب کے ساتھ اُس کے سیلون کی طرف جاتے ہوئے دائیں طرف فاصلے پرمنیٰ جانے والی اس سرنگ کے دھانے کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ ساری باتیں یا د آ رہی تھی تو اب یہ سطور لکھتے ہوئے مسجد الحرام کے شمال مشرقی سمت کے مناظر میری نگاہوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ مکہ مکرمہ کا یہی شمالی حصہ ہے جو نبی پاک ﷺ کی جائے پیدائش بھی ہے ۔ اُس دور کا محلہ بنو ہاشم اِدھر ہی تھا اور اُس سے آگے پہاڑوں کے دامن میں شعبِ ابی طالب (حضرت ابو طالب کی گھاٹی) جہاں مشرکین مکہ (قریش) کے ظالمانہ بائیکاٹ کی وجہ سے نبی پاک ﷺ اپنے خاندان بنو ہاشم کے ساتھ نبوت کے ساتویں برس سے دسویں برس کے دوران تین سال تک محصور رہے، وغیرہ ساری جگہیں میرے خیال میں مکہ مکرمہ کے اسی حصے میں آتی ہیں۔ اسی حصے میں مکہ مکرمہ کا تاریخی قبرستان جنت المعلیٰ بھی ہے جس کا مدینہ منورہ کے تاریخی قبرستان جنت البقیع جس میں ہزاروں کی تعداد میں صحابہ کرام ؓ مدفون ہیں کے بعد بلند مقام ہے۔اور پھر اسی طرف آگے شمال مشرق میں تاریخی وادی نخلہ بھی ہے کہ نبی پاک ﷺ صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ یہاں فجر کی نماز میں قرآن ِ پاک کی تلاوت فرما رہے تھے کہ اِدھر سے جنوں کے ایک گروہ کا گزر ہوا ۔ انہوں نے آپﷺ کی آوازمیں اللہ کا کلام سُنا تو وہ مسحور ہو کر ہی نہ رہ گئے بلکہ انہوں نے اسلام بھی قبول کر لیا۔ قرآنِ پاک کی سورہ جن میں تفصیل کے ساتھ اس کا ذکر کیا گیا ہے تو سورۃ احقاف کی آیت ۲۹ میں بھی اس کا حوالہ موجود ہے۔
یہ ساری باتیں میں یاد کر رہا ہوں تو سچی بات ہے کہ میرا دل شدت سے چاہ رہا ہے کہ اللہ رحمن اور رحیم کا کرم ہو اور مجھے پھر ایک بار حرمین شریفین کی زیارت نصیب ہو تو ان ساری جگہوں کو پھر دیکھوں اور صرف دیکھوں ہی نہیں بلکہ اپنے دل میں بھی بسا لوں لیکن سفرِ حرمین شریفین کا موقع ملے بھی تو کیسے؟ خیر ہم اپنے حلق (سرکے بال منڈوانے) کی طرف آتے ہیں ۔ جیسے میں نے اُوپر لکھا ہے کہ سر کے بال مونڈنے کی یہ دکانیں یا سیلون مسجد الحرام سے کافی فاصلے پر بنے ہوئے ہیں۔ ہم وہاں پہنچے تو میں اور عمران الگ الگ کرسیوں پر بیٹھ گے۔ سر کے بال جو 12,13 دن قبل حلق کروانے کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر تھے اُن پر دوبارہ باریک مشین پھروائی اور کچھ ہی دیر میں ہم اس سے فارغ ہو گئے۔ اس دوران عمران نے شاید اُن لوگوں سے مسجدِ جن جس کے بارے میں ہمارا پہلے سے اندازہ تھا کہ اسی سمت میں ہے پوچھا کہ یہاں سے کتنی دور ہے ۔ اُن میں سے کسی نے بتایا کہ یہاںسے آگے جائیں 100-150 میٹر فاصلے پر دائیں طرف ایک کشادہ سڑک نکلتی ہے ، اُس پر مُڑ جائیں۔ کچھ آگے جائیں گے تو بائیں ہاتھ سڑک کے کنارے پر ایک مینار والی مسجد ہے یہی مسجدِ جن ہے۔ میں نے اور عمران نے فیصلہ کیا کہ مسجد الحرام میں ابھی فجر کی اذان کا وقت باقی ہے کیوں نہ مسجدِ جن میں نوافل ادا کر لیے جائیں۔ اللہ کا نام لے کر ہم مسجد جن کی سمت پر چل پڑے ، کچھ دیر میں وہاں پہنچے ، وضو کیا اور دو نوافل ادا کیے اور باہر آ گئے ۔ اب ہمیں مسجد الحرام میں واپس آنا تھا کہ فجر کی نماز ہم نے وہاں ادا کی جا سکے۔ (جاری ہے)
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سر کے بال مونڈنے مسجد الحرام مکہ مکرمہ کے ساتھ نے والی تھا کہ کی طرف باہر ا کے لیے
پڑھیں:
فضل محمد واجبات کے ساتھ ملازمت پر بحال
فضل محمد سائٹ میں واقع جرابوں (سوکس) کی فیکٹری میسرز انم فیبرکس پرائیوٹ لمیٹڈ میں سات سال سے مستقل ملازم تھے۔ ان کی ملازمت کوغیر قانونی طور پر ختم کیا گیا تھا۔ انہوں نے لیبر کورٹ میں مقدمہ دائر کیا کہ وہ بیمار تھے اور ولیکا سوشل سیکورٹی سے زیر علاج تھے جبکہ کمپنی کا موقف تھا کہ یہ فیس ریٹیڈ عارضی ملازم تھے اور بغیر اطلاع کے غیر حاضر تھے۔ عدالت کے معزز ڈسٹرک اینڈ سیشن جج خالد حسین شاہانی (موجودہ جسٹس سندھ ہائی کورٹ ) نے دونوں فریقین کی گواہیاں ریکارڈ کی اور میرٹ پر اس برطرفی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فضل محمد کو واجبات کے ساتھ ملازمت پر بحال کرنے کا حکم دیا۔ ورکر کی طرف سے باچا فضل منان ایڈوکیٹ نے پیروی کی۔