Nawaiwaqt:
2025-04-15@09:48:28 GMT

سپریم کورٹ ، 6مستقل جج تعینات کرنیکی منظوری 

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

سپریم کورٹ ، 6مستقل جج تعینات کرنیکی منظوری 

اسلام آباد (اعظم گِل/ خصوصی رپورٹر+ وقائع نگار) جوڈیشل کمشن نے سپریم کورٹ میں 6 مستقل اور ایک قائم مقام جج کی تعیناتی کی منظوری دیدی ہے۔ جوڈیشل کمشن اجلاس کا اعلامیہ بھی جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا کہ اجلاس میں 6 ججز کی بطور سپریم کورٹ جج تقرری کی منظوری دی گئی۔ اجلاس چیف جسٹس یحیی آفریدی کی سربراہی میں ہوا۔ کمیشن نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق‘ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ شفیع صدیقی،  بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہاشم کاکڑ اور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اشتیاق ابراہیم، سندھ ہائیکورٹ کے جج صلاح الدین پنور اور پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس شکیل احمد کی سپریم کورٹ جج کی منظوری دی گئی ہے۔ اعلامیے کے مطابق جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ میں قائم مقام جج لگانے کی منظوری دی گئی۔ ذرائع کے مطابق جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ کا عارضی جج تعیناتی کی منظوری دی گئی، ان کی تقرری ایک سال کے لیے کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں ٹیکس مقدمات کے بڑھتے بوجھ کی وجہ سے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی تعیناتی آرٹیکل 181 کے تحت کی گئی ہے۔قائم مقام جج بننے کے بعد جسٹس گل حسن اورنگزیب چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔ قائم مقام جج کی تعیناتی مخصوص مدت کیلئے ہوتی ہے کوئی آئینی مدت مقرر نہیں  ہے، آئین کے مطابق صدر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی بطور عارضی جج تعیناتی کریں گے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں ججز تعینات کرنے کا معاملہ موخر کردیا گیا۔ چیف جسٹس یحیی آفریدی کی سربراہی میں ہونے والے جوڈیشل کمشن کے اجلاس کا جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر‘ بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر گوہر نے بھی اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمارا اعتراض تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم پر فیصلے تک اجلاس مؤخر کیا جائے۔ اس اعتراض پر ووٹنگ ہوئی اور اکثریت سے فیصلہ ہوا کہ اجلاس جاری رکھا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ 2 جج صاحبان جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ واضح رہے کہ 6 نئے مستقل ججز کی تعیناتی کے بعد سپریم کورٹ میں اب مستقل ججز کی تعداد 22 جبکہ قائم مقام ایک اور دو ایڈہاک ججز ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحق خان سے عدالت کے قانونی امور کی ذمہ داری واپس لے لی گئی اور ان کی جگہ ایڈیشنل جج جسٹس راجا انعام کو قانونی امور کا جج مقرر کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق کی منظوری سے ڈپٹی رجسٹرار نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا، جس کے مطابق جسٹس راجا انعام امین اسلام آباد ہائی کورٹ کے قانونی ونگ کے امور کو سپروائز کریں گے۔ جسٹس راجا انعام امین منہاس کو عوامی مفاد میں فوری طور پر قانونی امور کا جج مقرر کیا جاتا ہے۔ 2022 ء میں جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحق کو قانونی ونگ کو سپروائز کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ واضح رہے کہ 7 فروری 2025  کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق کو خط لکھ کر کہا تھا کہ 9 ویں نمبر کے جج جسٹس خادم سومرو کو کمیٹی میں شامل نہیں کر سکتے تھے۔ 26ویں آئینی ترمیم اور جوڈیشل کمشن کے اجلاس کے خلاف وکلاء ایکشن کمیٹی نے احتجاج کے دوران اسلام آباد کے سرینا چوک سے سپریم کورٹ جانے کی کوشش کی تو وکلاء اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپ ہوگئی۔ پولیس نے احتجاجی وکلاء پر لاٹھی چارج بھی کیا۔ وکلاء نے احتجاج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب مارچ کا آغاز کیا۔ اس دوران انتظامیہ نے سرینا چوک کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا تھا۔ انتظامیہ نے ریڈ زون کو بھی مکمل سیل  رکھا۔ وکلاء اس وقت ڈی چوک پہنچ گئے  جہاں انہوں نے دھرنا دے دیا۔ پولیس اور وکلاء کے درمیان جھڑپ کے بعد احتجاجی وکلاء منتشر ہوگئے اور سری نگر ہائی وے پر دھرنا دے دیا اور مری جانے والی سڑک کو بند کر دیا، تاہم مری سے آنے والی سڑک پر ٹریفک رواں دواں رہی۔ انتظامیہ کی جانب سے اسلام آباد کے ریڈ زون کے تمام راستوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی اور تمام گیٹ بند کر دیے گئے تھے۔  اسی وجہ سے شہریوں کو آمد و رفت میں شدید پریشانی کا بھی سامنا رہا۔ اسلام آباد پولیس کی پیش قدمی پر وکلاء ایکشن کمیٹی نے سری نگر ہائی وے بھی خالی کر دیا۔ وکلاء سری نگر ہائی وے خالی کر کے ایک بار پھر سرینا چوک روڈ پر پہنچ گئے، پولیس اور وکلاء میں آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا۔ بعد ازاں وکلاء ایکشن کمیٹی کی احتجاجی ریلی ڈی چوک پہنچ گئی، وکلاء نے ڈی چوک پر احتجاجی دھرنا دیا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی منظوری دی گئی سپریم کورٹ میں باد ہائی کورٹ جوڈیشل کمشن اسلام ا باد اسلام آباد کی تعیناتی اور جسٹس کے مطابق چیف جسٹس کورٹ کے کر دیا

پڑھیں:

سپریم کورٹ: اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے اور ٹرانسفر ججوں کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد

اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سمیت دیگر ٹرانسفر ہونے والے ججز کو کام سے روکنے اور نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے کی استدعا سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مسترد کردی۔

سپریم کورٹ کے ججز جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں ججز تبادلہ کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان نے اہم سوالات اٹھادیے

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججوں کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیے اور کہاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونے والے ججز کے معاملے کو آرٹیکل 175 کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔

دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججوں کی ٹرانسفر آرٹیکل 200 کے تحت ہوئی، بہتر ہوگا کہ آپ دلائل کا آغاز بھی یہیں سے کریں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ جب کسی جج کی دوسری عدالت میں ٹرانسفر کی جاتی ہے تو اس سے قبل اس کی مرضی معلوم کی جاتی ہے، جبکہ جس ہائیکورٹ سے ٹرانسفر کرنی ہو اس کے چیف جسٹس کی بھی رضامندی معلوم کی جاتی ہے۔

انہوں نے منیر اے ملک کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیاکہ آپ کو ججز کی ٹرانسفر پر اعتراض ہے یا سنیارٹی پر؟ جس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ ہمیں دونوں پر اعتراض ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ آپ کی بات کا مطلب ہے کہ نئے الفاظ آئین میں شامل کیے جائیں۔ انہوں نے آرٹیکل 62 ایف کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ آئین میں نئے الفاظ شامل کرکے نااہلی تاحیات کردی گئی، اس فیصلے پر شدید تنقید ہوئی جسے نظرثانی میں تبدیل کیا گیا۔

دوران سماعت جسٹس نعیم اختر افغان نے کہاکہ جب ہائیکورٹ میں ججوں کی آسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفر کے بجائے ان کی صوبوں سے نئے ججوں کو تعینات کیوں نہ کیا گیا؟ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ جج کون سے ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہا ہے؟ جس پر وکیل منیر اے ملک نے جواب دیا کہ حلف کے ڈرافت میں بالکل صوبے کا ذکر ہوتا ہے، جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا جج اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کی عدالت کا حلف اٹھاتا ہے۔

عدالت نے سماعت مکمل ہونے پر ہائیکورٹ ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی، جبکہ ٹرانسفر ہونے والے ججوں کو کام سے روکنے کی استدعا بھی مسترد کردی گئی۔

یہ بھی پڑھیں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے ججز ٹرانسفر کی حمایت کیوں کی؟

عدالت نے ٹرانسفر اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججوں کی درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے مزید سماعت 17 اپریل تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews استدعا مسترد اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر ججز سپریم کورٹ عدالت عالیہ منیر اے ملک وکیل وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں مزید 2 ججز شامل کرنے کا فیصلہ
  • چیف جسٹس آف پاکستان نے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کرلیا
  • سپریم کورٹ: اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے اور ٹرانسفر ججوں کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد
  • ججز ٹرانسفر کیس، قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد، 3ججز کو نوٹس جاری کردیے
  • سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے کی استدعا مسترد
  • سپریم کورٹ نے جنگلات اراضی کیس میں واگزار کروائی گئی اراضی کی تفصیلات طلب کر لیں
  • ججز تبادلہ، سنیارٹی کیس: سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے 3 ججز کو نوٹس جاری کردیے
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سنیارٹی  سپریم کورٹ کا آئینی بنچ آج سماعت کریگا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی تنازع، سپریم کورٹ کا 5رکنی بینچ کل سماعت کریگا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی تنازع، سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ سماعت کرے گا