پاکستان ہمیشہ علاقائی اور عالمی امن کیلئے پرعزم رہا ، یوسف رضا گیلانی
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
اسلام آباد (خبرنگار)قائم مقام صدر، سید یوسف رضا گیلانی کہا ہے کہ پاکستان ہمیشہ علاقائی اور عالمی امن کے لیے پرعزم رہا ہے، اور اقوام متحدہ کے امن مشنز میں پاکستان کی خدمات اس عزم کا واضح ثبوت ہیں۔ان خیالات کا اظہار قائم مقام صدر نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کے ملکی وغیر ملکی افسران پر مشتمل وفد سے ایوان صدر میں خطاب کرتے ہوئے کیا قائم مقام صدر سید یوسف رضا گیلانی نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کے ملکی وغیر ملکی افسران کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ وہ ان بہادر اور پیشہ ورانہ افسران سے مل کر فخر محسوس کر رہے ہیں قائم مقام صدر سید یوسف رضا گیلانی نے خاص طور پر برطانیہ، نائیجیریا، بحرین، کینیا، روانڈا، چین، سری لنکا، مالدیپ، بوسنیا، عراق، گیمبیا، زمبابوے، سعودی عرب، عمان، ترکی، اردن، انڈونیشیا، نیپال، یمن اور آسٹریلیا سمیت دوست ممالک کے افسران کا خیر مقدم کیا اور ان کی موجودگی کو بین الاقوامی تعاون کا مظہر قرار دیا۔قائم مقام صدر سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور اقوام متحدہ کے درمیان مضبوط ادارہ جاتی تعاون جامع طرز حکمرانی، اقتصادی ترقی، انسانی حقوق کے فروغ اور افغان مہاجرین کے مسائل کے حل کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسی مشترکہ کوششیں پالیسیوں میں مثبت اصلاحات کا ذریعہ بنیں گی، جس سے زیادہ سے زیادہ معاشرہ مستفید ہوگاقائم مقام صدر نے ان خیالات کا اظہار پاکستان میں اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر اور ہیومینٹیرین کوآرڈینیٹر محمد یحیی سے ملاقات کے دوران کیا۔ انہوں نے معزز مہمان کا خیرمقدم کیا اور پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیاقائم مقام صدر نے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے اور ماحولیاتی اقدامات کی حمایت میں اقوام متحدہ کے کردار کو سراہا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ محمد یحیی کی قیادت میں بین الاقوامی برادری پاکستان کے ماحولیاتی ایکشن اہداف کے لیے مثر تعاون فراہم کرے گی ملاقات کے دوران پولیو ویکسینیشن، افغان مہاجرین کے مسائل اور دیگر اہم امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: سید یوسف رضا گیلانی اقوام متحدہ کے
پڑھیں:
فائر بندی ناکام ہوئی تو غزہ میں قحط میں اضافے کا خدشہ، اقوام متحدہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 فروری 2025ء) اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امدادی امور کے سربراہ ٹام فلیچر نے غزہ کے دو روزہ دورے کے بعد اتوار کو خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ''میرے خیال میں قحط کا خطرہ بڑی حد تک ٹل گیا ہے۔ بھوک کی شدت اب اس سطح پر نہیں، جہاں فائر بندی سے پہلے تھی۔ لیکن اگر فائر بندی ختم ہو جاتی ہے، تو یہی خطرہ جلد واپس آ سکتا ہے۔
‘‘پوری غزہ پٹی میں قحط کا شدید خطرہ، عالمی ادارے کی تنبیہ
انیس جنوری کو شروع ہونے والی فائربندی کے بعد سے روزانہ سینکڑوں ٹرک امدادی سامان لے کر غزہ پہنچ رہے ہیں۔
ٹام فلیچر کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب فائر بندی کے تسلسل سے متعلق خدشات بڑھ رہے ہیں اور اس کے زیادہ پیچیدہ دوسرے مرحلے پر بات چیت ہونے والی ہے۔
(جاری ہے)
چھ ہفتے کی فائر بندی کا پہلا مرحلہ اپنے نصف کو پہنچ چکا ہے۔غزہ میں ’نصف سے زائد زرعی زمین ناقابل کاشت‘ ہو چکی
فائر بندی کے معاہدے کے تحت اسرائیل نے روزانہ 600 امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دینے کا وعدہ کیا تھا جو کئی ماہ کی تاخیر اور سکیورٹی خدشات کے بعد ایک نمایاں بہتری ہے۔
فریقین سے معاہدے پر کاربند رہنے کی اپیلاقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد کے دفتر کے مطابق جنگ بندی کے بعد سے اب تک 12,600 سے زیادہ امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو چکے ہیں۔
فلیچر نے حماس اور اسرائیل دونوں پر زور دیا کہ وہ اس معاہدے پر کاربند رہیں جس نے ''بہت سی جانیں بچائی ہیں۔‘‘
تاہم انہوں نے کہا، ''حالات اب بھی بہت خراب ہیں، لوگ اب بھی بھوکے ہیں۔ اگر فائر بندی ختم ہو گئی تو قحط جیسی صورت حال دوبارہ بہت جلد واپس آ جائے گی۔"
اسرائیلی فورسز کا غزہ کی مرکزی راہداری سے مکمل انخلا
بین الاقوامی طور پر قحط کا تعین کرنے کا معیار یہ ہے کہ ہر 10 ہزار افراد میں سے روزانہ کم از کم دو افراد بھوک سے مر جاتے ہوں۔
موجودہ فائر بندی سے پہلے کئی ماہ تک غذائی تحفظ کے ماہرین، اقوام متحدہ کے حکام اور دیگر تنظیمیں غزہ میں، خاص طور پر شمالی حصے میں قحط کے خطرے سے خبردار کرتے رہے تھے جو سولہ ماہ کی جنگ کے ابتدائی ہفتوں سے تقریباً باقی حصوں سے کٹ چکا تھا۔ تاہم فائر بندی کے دوران لاکھوں فلسطینی شمالی غزہ واپس لوٹنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
غزہ کی بیشتر آبادی بے گھر ہو چکی ہے، فلیچرفلیچر نے کہا کہ 20 لاکھ سے زیادہ افراد پر مشتمل غزہ کی آبادی، جس میں سے زیادہ تر افراد بے گھر ہو چکے ہیں، کو مزید خوراک اور طبی امداد کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے صحت کی بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے بیماریوں کے پھیلنے کے خدشے کا اظہار کیا اور اس علاقے میں فوری طور پر مزید خیمے اور پناہ گاہیں فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا، ''ہمیں ہزاروں خیمے فوری طور پر پہنچانا ہوں گے تاکہ جو لوگ واپس آ رہے ہیں وہ سخت موسم کی مار سے بچ سکیں۔‘‘
فلیچر نے غزہ میں تباہ شدہ علاقوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد کہا، ''تباہی کے باعث وہاں یہ فرق کرنا مشکل تھا کہ کون سی عمارت اسکول تھی، کون سا ہسپتال تھا، اور کون سا گھر تھا۔
‘‘انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے لوگوں کو اپنے گھروں کی باقیات تلاش کرتے اور ملبے میں دبے اپنے پیاروں کی لاشیں نکالتے دیکھا۔ یہاں تک کہ کچھ کتوں کو بھی ملبے میں لاشوں کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے پایا گیا۔
فلیچر کا کہنا تھا، ''یہ کسی ہولناک فلم جیسا منظر ہے۔ یہ ایک بھیانک حقیقت ہے جو بار بار دل توڑ دیتی ہے۔ آپ یہاں میلوں سفر کریں لیکن ہر طرف یہی کچھ نظر آتا ہے۔
‘‘ فلسطینی عوام عالمی برادری کے رویے سے ناراضفلیچر نے تسلیم کیا کہ فلسطینی عوام عالمی برادری کے رویے سے ناراض ہیں۔
انہوں نے کہا، ''وہاں مایوسی اور غصہ موجود ہے اور میں سمجھ سکتا ہوں کہ دنیا پر ان کا غصہ کیوں ہے، کیونکہ یہ سب کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے۔ لیکن میں نے ایک مزاحمتی جذبہ بھی دیکھا۔ لوگ کہہ رہے تھے، ''ہم اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔ ہم ان جگہوں پر واپس جائیں گے جہاں ہم نسلوں سے رہ رہے ہیں اور ہم انہیں دوبارہ تعمیر کریں گے۔‘‘
ج ا ⁄ ص ز، م م (اے پی، اے ایف پی)