خدا کی لاٹھی اور اندھے کا لٹھ
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
دنیا سمجھتی ہے کہ امریکا اسے نہیں سمجھتا، امریکا سمجھتا ہے کہ دنیا دراصل اسے نہیں سمجھتی۔ بظاہر یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں، آسان حل یہ ہے کہ آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کو سمجھ سمجھا لو، مگر یہ اتنا ہی آسان ہوتا تو پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہ رہتا۔
سابق وزیرِ خارجہ میڈلین آلبرائیٹ کے بقول ’امریکا ہر اعتبار سے اس وقت بلندی پر ہے، جہاں تم ہم دیکھ سکتے ہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا‘۔
اس ایک فقرے کو آپ تکبر سمجھ لیں، احساسِ برتری سمجھیں، خود شناسی یا کم شناسی یا پھر چھچھورپن، مگر بلندی سے ہر طرف دیکھنے کا بس اتنا نقصان ہے کہ نیچے والے آپ کو بونے نظر آتے ہیں۔ آپ اسی دھوکے میں رہتے ہوئے ان بونوں کے بارے میں حکمتِ عملی بناتے ہیں اور جب آپ ان کے مدِمقابل ہوتے ہیں تب کھلتا ہے کہ یہ تو بونے نہیں شاید میری سوچ بونی ہے۔
تاریخ میں بہت دور جانے کی کیا ضرورت، اس کور چشمی نے امریکا کو ویتنام، افغانستان اور عراق میں پھنسایا اور اب چینی اس برترانہ غلط فہمی کے منہ پر تھوک رہے ہیں۔
ایران پچھلے 45 برس سے امریکا کے حلق میں مستقل کانٹا ہے، خود امریکی ساحل سے صرف 70 میل پرے کے کیوبا کو پچھلے 70 برس سے لگام ڈالنے کی کوششیں آج تک ہورہی ہیں، مگر فیدل کاسترو اور ان کے بعد آنے والے اس لمحے تک واشنگٹن کو شہادت کی کھڑی انگلی مسلسل دکھا رہے ہیں۔
پچھلے ڈھائی سو برس سے امریکا یہی فیصلہ نہیں کر پارہا کہ اسے دنیا پر چھانا ہے یا اپنے خول میں سمٹ کے رہنا ہے۔ کبھی دورہ پڑتا ہے تو بزعمِ خود آزاد دنیا کا محافظ بن جاتا ہے، کبھی اس سنتری گیری سے تنگ آ کے کہتا ہے کہ بھاڑ میں جائے دنیا، سب سے پہلے امریکا۔ آج کے بعد ہم اپنے براعظم تک محدود رہیں گے۔ اور پھر معاً خیال آتا ہے کہ اس خلا کو کہیں چین، روس، انڈیا اور یورپی یونین نہ پُر کرلیں تو ہڑبڑا کے دوبارہ بوٹ کس لیتا ہے۔
اب آپ دیکھیے کہ کینیڈا اور میکسیکو ایک ماہ پہلے تک سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ انہیں کبھی وائٹ ہاؤس سے ابے تبے کے لہجے میں کلام کرنا پڑےگا۔
دونوں ممالک کی معیشتیں امریکا سے جڑی ہوئی ہیں۔ شاید اسی لیے ٹرمپ کو ان سے بدتمیزی کرنے کا خیال آیا۔ بھلا جس سپر پاور کو اس کے ہمسائے نہ سمجھ پا رہے ہوں تو باقی دنیا خاک سمجھے گی۔ اور جس طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کو یہ بنیادی بات سمجھ میں نہ آرہی ہو کہ کوئی لفنگا بھی کم از کم اپنے محلے میں شرافت سے رہتا ہے۔ ایسی ہلکی اسٹیبلشمنٹ کو دیگر بنیادی تہذیبی مبادیات کیسے سمجھائی جا سکتی ہیں۔
کسی بھی یورپی بالخصوص برطانوی پڑھے لکھے سے بات کرلیں، وہ یہ تو تسلیم کرےگا کہ امریکا پہلوان ہے، مگر ایسا پہلوان جس کی کھوپڑی بقیہ جسامت کے تناسب میں چھوٹی محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ یورپ لحیم شہیم امریکا سے مادی اور اسٹریٹیجک فوائد حاصل کرنے کے باوجود اسے ایک مستند مدبر کا درجہ دینے سے ہمیشہ ہچکچاتا آیا ہے۔ پہلوان جی کو اکثر بعد میں احساس ہوتا ہے کہ ان کے دوست بھی انہیں ماموں بنا رہے ہیں۔
امریکا کو شاید یہ بھی دیر میں ٹپائی دے کہ اسرائیل اپنی تاریخی دشمنیاں کتنے آرام سے امریکا کے کھاتے میں ڈال کر کیپیٹل ہل کی کانگریسی گائے مسلسل دوہ رہا ہے۔ اس عاشقی میں عزتِ سادات اب تک نہیں تو کل تک یقیناً جائے گی۔
ٹرمپ کا پہلی بار صدر بننا تو یوں سمجھ میں آتا تھا کہ ایک عام امریکی واشنگٹن میں قلعہ بند اسٹیبلشمنٹ کے روایتی گورننس ڈھانچے سے اکتا چکا تھا اور اپنے جیسے کسی باہرلے کو آزمانا چاہتا تھا۔
مگر ٹرمپ کے پہلے چار برس چکھنے کے بعد بائیڈن کی شکل میں دوبارہ روایتی اسٹیبلشمنٹ کا دامن پکڑنا اور اس سے پھر مایوس ہو کر پھر ٹرمپ کو صدر چننا خود امریکی سماج کی ذہنی بے سمتی کے بارے میں بہت کچھ بتا رہا ہے۔ یہ وہی سماج ہے جو چند عشرے پہلے تک صدارتی امیدواروں کی ذاتی اخلاقی سطح کو خوردبینی نگاہ سے دیکھنے کا عادی تھا۔
اس تناظر میں زرا سوچیے کہ بدلے امریکی سماج کا چنیدہ صدر دنیا کی سب سے طاقتور ریاست کو کہاں پہنچا سکتا ہے اور اس ریاست کے اوپر تلے ہونے سے باقی دنیا کو کیسے کیسے جھٹکے سہنے پڑ سکتے ہیں۔
گورننس کا موجودہ عالمی نظام بھلے کتنا ہی ناقص اور غیر منصفانہ ہو مگر یہ ٹوٹا پھوٹا نظام بھی کچھ بنیادی ستونوں پر کھڑا ہے اور اس میں علاقائی سالمیت اور بنیادی انسانی حقوق کے تھوڑے بہت احترام کی امید اور گنجائش اب بھی باقی ہے۔
امریکا اگر کل کلاں گرین لینڈ اور پاناما کینال پر بزور قبضہ کر لیتا ہے، کینیڈا اور میکسیکو کو اپنی شرائط پر گھٹنوں کے بل جھکا دیتا ہے، غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کروا لیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ناپسندیدہ ذیلی اداروں سے لاتعلقی اختیار کرلیتا ہے۔ عالمی ماحولیاتی اہداف کو سائنسدانوں کا پھیلایا ہوا جھوٹ قرار دے کر مسترد کردیتا ہے۔ دفاعی بجٹ جو پہلے ہی دیگر پانچ بڑے ممالک کے مجموعی فوجی بجٹ سے بھی زیادہ ہے اسے مسلسل بڑھاتا رہتا ہے تو سوچیے کیسی دھماچوکڑی مچے گی۔
ایسی نئی دنیا میں تائیوان کا تحفظ امریکا کس منہ سے کرے گا۔ جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا امریکا کی ایٹمی چھتری کی مضبوطی پر کب تک یقین کر پائیں گے۔ یورپ دفاعی، اقتصادی و سیاسی امور میں بے جا امریکی عمل دخل سے جان چھڑانے کی کوششیں تیز کیوں نہیں کرےگا اور یہی یورپ امریکی مفادات کو افریقہ اور ایشیا میں محفوظ بنانے کے بجائے ابھرتے ہوئے چین سے برابری کی بنیاد پر سودے بازی سے کیوں باز رہے گا۔ روس اگر پورے یوکرین کو بھی نگل لے تو کون انگلی اٹھائے گا۔ اور اسی طرح آزاد کشمیر سمیت پورے شمالی علاقے پر دعوے کو عملی جامہ پہنانے کا خیال بھارت کو سنجیدگی سے کیوں نہیں ستائے گا؟
مشرقِ وسطیٰ میں امریکا نواز حکومتیں کیوں امریکا کی جانب بقائی نگاہوں سے دیکھیں گی، ان حکومتوں اور اسرائیل کے خلاف نفرت سے بھری جنتا موجودہ نظام اکھاڑ پھینکنے سے کیوں ہچکچائے گی؟
سوچیے ٹیرف کی جاری جنگ میں اگر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن شہید ہو جاتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے اداروں کو نشانہ بنانے کے سبب مرکزی تنظیم ہی معذور ہو جاتی ہے۔ عالمی عدالت انصاف اور انٹرنیشنل کرمنل کورٹس کے فیصلوں کے احترام کے بجائے خود ان اداروں کو ہی ہر غصیلی طاقت جوتے کی نوک پر رکھ لیتی ہے تو پھر چاروں طرف کتنے ہٹلر دندنا رہے ہوں گے؟
علمِ سیاسیات کے برہمنوں کا کہنا ہے کہ ایک بائی پولر دنیا ہمیشہ یونی پولر دنیا کے مقابلے میں متوازن ہوتی ہے، لیکن اگر دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی لگام کسی بائی پولر کے ہاتھ میں آجائے تو یہ مسخرے پن کا نہیں گھمبیر سنجیدگی اختیار کرنے کا مقام ہے۔
بے شک خدا کی لاٹھی بے آواز ہے مگر اندھے کے لٹھ سے خدا بچائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں
wenews اسٹیبلشمنٹ امریکا اندھے کا لٹھ جوبائیڈن خدا کی لاٹھی دنیا ڈونلڈ ٹرمپ وسعت اللہ خان وی نیوز یورپ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسٹیبلشمنٹ امریکا جوبائیڈن دنیا ڈونلڈ ٹرمپ وسعت اللہ خان وی نیوز یورپ اور اس
پڑھیں:
امریکا کا پُراسرار ’’پروجیکٹ 2025‘‘ کیا نیا ورلڈ آرڈر ہے؟
امریکی میڈیا کا دعوی ہے، صدر ٹرمپ دو سال قبل قدامت پسند دانشوروں کے بنائے ’’پروجیکٹ 2025‘‘کے مطابق کام کر رہے ہیں, پْراسرار ’’پروجیکٹ 2025‘‘ کیا نیا ورلڈ آرڈر ہے؟ ۔
یہ منصوبہ امریکا ہی نہیں دنیا بھر میں اہم تبدیلیاں لا سکتا ہے کہ یہ امریکا کو طاقتور ترین ملک بنانا چاہتا ہے۔
اسی لیے ٹرمپ الیکشن جیتتے ہی متنازع اقدامات کرنے لگے ہیں۔ کینیڈا، میکسکیو، پانامہ سے لڑائی کی۔ چین کی مصنوعات پہ ٹیکس لگائے۔ عالمی سماجی اداروں اور معاہدوں کو چھوڑ دیا۔ غزہ پہ قبضے کا اعلان کیا۔ مہاجر مخالف متشدد مہمات شروع کردیں۔
چین سے بڑھتی مخاصمت پاکستان کے لیے بھی پریشان کن ہے کہ ٹرمپ پاکستانی حکومت کواپنے یا چینی کیمپ میں شامل ہونے کا کہہ سکتے ہیں, پاکستان کا نیوٹرل رہنا شاید انھیں منظور نہ ہو۔
پروجیکٹ 2025 کی مزید تجاویز یہ ہیں کہ 21 لاکھ امریکی بیوروکریسی سے ہزارہا لوگوں کو نکالنا ہے تاکہ ٹرمپ اپنے سیاسی ساتھی بھرتی کر کے اپنا ایجنڈا بڑھا سکیں۔
محکمہ تعلیم ، علاج کی سستی خدمات فراہم کرنے والے ادارے سمیت مختلف سرکاری اداروں کا خاتمہ ، صرف دو جنسوں مرد اور عورت کا تسلیم کرنا، اسقاط حمل پہ پابندی لگانے جیسے منصوبے بھی ہیں۔
صدر مخالف ماہرین کا کہنا ہے اس انوکھے پروجیکٹ پہ عمل درآمد ٹرمپ کو ڈکٹیٹر بنا کر امریکا سے جمہوریت اور آزادی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔