سپریم کورٹ میں 6 نئے ججز، 26 ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کا مستقبل کیا ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے 2 جج اراکین جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے پیر کو ہونے والے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ ساتھ ہی ساتھ جوڈیشل کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف کے 2 نمائندگان بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر گوہر علی خان نے بھی بائیکاٹ کر دیا جس کے بعد کمیشن اجلاس کو جاری رکھنے کے لیے ووٹنگ کرائی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا ایک اور فیصلہ، سینیارٹی تبدیل کرنے کے خلاف 5 ججوں کی ریپریزنٹیشن مسترد
کیا 4 اراکین کے بائیکاٹ کے بعد جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کی آئینی و قانونی حیثیت برقرار رہ سکتی ہے؟ اِس نمائندے نے یہ سوال جب بیرسٹر علی ظفر کے سامنے رکھا تو ان کا کہنا تھا ہم نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا کہ پہلے ججوں کی سینیارٹی کے معاملے کو دیکھا جائے لیکن انہوں نے اس بات سے اختلاف کیا جس کے جواب میں ہم نے بائیکاٹ کر دیا۔ لیکن رولز کے مطابق اِس بائیکاٹ کے باوجود جوڈیشل کمیشن اپنی کارروائی جاری رکھ سکتا ہے۔
دوسری طرف آج کے روز ہی وکلا 26 ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر سراپا احتجاج نظر آئے، وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ سپریم کورٹ کے سارے ججز فل کورٹ شنوائی کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ کریں اور فیصلے تک سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے عمل کو روکا جائے۔ گو کہ یہ احتجاج وکلا کی کم تعداد میں شرکت کے باعث زیادہ پراثر ثابت نہیں ہو سکا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا 26 ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر اپوزیشن کو شکست ہو چکی ہے یا ابھی سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف زیرالتوا درخواستوں کے معاملے پر کوئی امید رکھی جا سکتی ہے؟ اس معاملے پر بات کرنے کے لیے ہم نے آئینی ماہرین سے بات کی۔
اب اگر فل کورٹ بن بھی جائے تو شاید ترمیم کے خلاف فیصلہ نہ دے، کامران مُرتضٰیجیعت علمائے اسلام کے سینیٹر اور معروف قانون دان کامران مُرتضٰی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں جو ججز کی تعداد بڑھی ہے اس سے تو معلوم یہی ہوتا ہے کہ جس طرح سے وکلا تنظیمیں 26 ویں آئینی ترمیم کے معاملے میں فل کورٹ سماعت کا مطالبہ کر رہی ہیں، اب اگر فل کورٹ بن بھی جائے تو شاید فیصلہ اُن کے خلاف ہی آئے لیکن یہ ابھی محض ایک قیاس آرائی ہے اور ہوسکتا ہے کہ نئے تعینات ہونے والے ججز اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں اس ترمیم کو ختم کر دیں۔
مزید پڑھیے: جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ میں 6 ججوں کی تعیناتی کی منظوری دے دی
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ایک بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سے نہیں بڑھی بلکہ یہ عام قانون سازی یا بل پاس کیے جانے سے بڑھی ہے، 26 ویں آئینی ترمیم اُس وقت ہوچکی تھی جبکہ ججز کی تعداد بڑھانے کے لیے بل بعد میں پیش کیا گیا۔
ایک سوال کے جواب کہ آیا وکلا احتجاج کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے یا وکلا اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، کامران مرتضٰی نے کہا کہ ایسا صرف اسی وقت ممکن تھا جب وکلا کسی ایک نقطے پر متفق ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ وکلا کے اندر بہت زیادہ تقسیم ہے، پیر کو اگر صرف راولپنڈی اسلام آباد کے وکلا ہی نکل آتے تو اچھا خاصا کامیاب احتجاج ہو سکتا تھا لیکن وکلا کی بہت کم تعداد احتجاج میں شامل ہوئی جو اِس تقسیم کا ثبوت ہے۔ دوسرا میں ان وکلا قائدین سے سوال کرتا ہوں کہ 26 ویں آئینی ترمیم ایک دن میں منظور تو نہیں ہوئی اس میں ہمیں 5 ہفتے لگے تھے، اس وقت یہ وکلا کدھر تھے لہٰذا یہ احتجاج لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکا ہے۔
نئے تعینات ہونے والے جج بھی مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں، امان اللہ کنرانیسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر تو حکومت نے اپنا انتظام کر لیا ہے لیکن ہم مایوس نہیں ہیں اور ماضی کی مثالوں کو سامنے رکھا جائے تو جو کچھ یہ لوگ کرتے ہیں انہی کے گلے پڑ جاتا ہے۔
امان اللہ کنرانی نے کہا کہ میاں نواز شریف نے سنہ 1997 میں سینیارٹی کے معاملے پر ججوں کو اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے لڑوایا اب اسی سینیارٹی کے معاملے کو انہوں نے خود ختم کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنرل مشرف نے 17 ججوں سے پی سی او کے تحت حلف لیا اور بعد میں وہی 17 جج جسٹس افتخار محمد چودھری کی قیادت میں مشرف سے لڑ گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو بھی نئے ججز آئے ہیں یہ کوئی باہر سے نہیں آئے، اسی ماحول اور معاشرے سے آئے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جج صاحبان بھی اپنا مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین میں تو ججوں کی تعداد متعین ہے جبکہ یہ تو انہوں نے خود سے اس تعداد میں اضافہ کر لیا ہے۔
مزید پڑھیں: نئے ججز کی تقرری کے خلاف وکلا سراپا احتجاج،ڈی چوک میں دھرنے کا اعلان
وکلا احتجاج کے بارے میں بات کرتے ہوئے امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ وکلا کے علاوہ اس ترمیم کے خلاف کون احتجاج کرے گا اور پیر جس طرح سے حکومت نے سپریم کورٹ آنے والے راستوں کو سیل کیا اور ان رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے وکلا پہنچے اور ملک کے کونے کونے سے کراچی، کوئٹہ، ایبٹ آباد، مانسہرہ، لاہور ہر جگہ سے وکلا آئے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وکلا کا احتجاج کامیاب ہو گیا اور یہ جذبہ تو ابھی شروع ہوا ہے، ابھی یہ اور بڑھے گا۔
جج حکومت کی مرضی سے نہیں سینیارٹی کی بنیاد پر لگائے گئے، سید امجد شاہ ایڈووکیٹپاکستان بار کونسل کے رکن سید امجد شاہ نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حکومت کی مرضی کے جج صاحبان سپریم کورٹ میں تعینات ہو گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد، سندھ اور پشاور ہائیکورٹس سے اگر دیکھا جائے تو جوڈیشل کمیشن نے چیف جسٹس صاحبان کو سپریم کورٹ میں جج تعینات کیا ہے اور اس کے بعد بھی سینیارٹی کی بنیادوں پر ہی تعیناتیاں ہوئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: وکلا احتجاج: اسلام آباد کی کون سی شاہراہیں بند ہیں؟
سید امجد شاہ نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے گزشتہ دور حکومت میں جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر کو جب سپریم کورٹ میں جج تعینات کیا گیا تو وکلا نے بھرپور احتجاج کیا کیونکہ مذکورہ جج صاحبان کو سینیارٹی کے اُصول کے برخلاف سپریم کورٹ لایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح سے جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی کے خلاف بھی وکلا نے احتجاج کیا تو اب اگر حکومت بدلی ہے تو کیا وہ جج صاحبان ٹھیک اور دوسرے غلط ہو گئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آتا کس کو ٹھیک کہا جائے اور کس کو غلط۔ کہا جائے کیوں کہ کچھ ایسے جج صاحبان تھے جو آئین کو ازسرنو تحریر کر رہے تھے اور اپنے دائرہ اختیار سے صاف باہر جا کر فیصلے کر رہے تھے۔
سید امجد شاہ نے کہا کہ وکلا کا موجودہ احتجاج ایک سیاسی جماعت یعنی پاکستان تحریک انصاف کی ایما پر کیا گیا جس کو ناکام ہی ہونا تھا۔
مزید پڑھیے: ہمارے مہمان بن کر پولیس لائن آجائیں، پولیس اور احتجاجی وکلا کے درمیان دلچسپ مکالمہ
انہوں نے کہا کہ حامد خان گو کہ ایک بڑے وکیل ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ پی ٹی آئی کے سیینئر نائب صدر اور سینیٹر بھی ہیں تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ احتجاج سیاسی نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وکلا کی بڑی تنظیموں نے اس احتجاج سے لاتعلقی کا اظہار بھی کیا ہے اس لیے ایسے احتجاج کو ناکام ہی ہونا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جوڈیشل کمیشن بائیکاٹ سپریم کورٹ وکلا احتجاج.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جوڈیشل کمیشن بائیکاٹ سپریم کورٹ وکلا احتجاج ویں ا ئینی ترمیم کے سپریم کورٹ میں جج امان اللہ کنرانی جوڈیشل کمیشن ا ترمیم کے خلاف کے معاملے پر سید امجد شاہ وکلا احتجاج سینیارٹی کے کہنا تھا کہ کا کہنا تھا کرتے ہوئے نے کہا کہ کی تعداد انہوں نے جائے تو نے والے فل کورٹ ججوں کی ججز کی کے لیے کے بعد وکلا ا
پڑھیں:
قاضی احمد میں وکلا کا احتجاج
قاضی احمد( نمائندہ جسارت) ایس ایس پی حیدرآباد۔فرخ لنجار کی جانب سے حیدرآباد کے وکیل کے کی جانے والی بداخلاقی اور بلاوجہ ایف آئی آر درج کرنے والے عمل کے خلاف تعلقہ بار قاضی احمد کے وکیلوں کا عدالتی کاروائیوں کا بائیکاٹ کرکے احتجاجی ریلی نکالی گئی اور قومی شاھراہ پر دھرنا دے کرپولیس انتظامیہ کے خلاف سخت نعرے بازی کی گئی اسموقع پر وکیل رھنماء الطاف حسین رند حفیظ الرحمن جونو غلام اللہ مری الھبخش چانڈیو اشتیاق مہر عابد انڑ نیاز حسین جتوئی علی گل کھورکھانی علی گوھر مہر ودیگر نے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیاکہ ایس ایس پی حیدرآباد کو عہدے سے ہٹانے تک وکلاء کی یہ تحریک جاری رہے گئی۔