چابہار پر امریکی پابندیاں، پاکستان کے لیے نئے امکانات
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 12 فروری کو امریکا جارہے ہیں، یہ دورہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب انڈیا کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ’ٹیرف ابیوزر‘ کا خطاب بھی مل چکا ہے۔ انڈین شہریوں کو امریکا سے ڈی پورٹ بھی کیا گیا ہے، امریکا نے ایران کی چابہار پورٹ کو امریکی پابندیوں سے استثنیٰ دے رکھا تھا، اب ٹرمپ نے یہ استثنیٰ ایگزیکٹیو آڈر جاری کرکے ختم کردیا ہے۔
آرڈر میں کہا گیا ہے کہ امریکی ڈپارٹمنٹ اور سرکاری ایجنسیاں ان ملکوں کے خلاف اقدمات اٹھائیں جو ایران کو کسی بھی لیول کی معاشی، فائنانشل مدد یا ریلیف فراہم کرتے ہیں، یا چابہار پورٹ پراجیکٹ میں شامل ہیں، ان کے لیے استثنیٰ ختم کردیا جائے۔ ایران کی تیل کی ایکسپورٹ کو زیرو کیا جائے، اور چین کو ایرانی کروڈ آئل کی فروخت بھی ختم کرائی جائے۔
انڈیا اور افغانستان دونوں نے ہی چابہار پورٹ میں سرمایہ کاری کررکھی ہے، دونوں ملک پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے ’بارو بار‘ مزے لوٹنا چاہ رہے ہیں اور اب حیران پریشان ہیں۔ 2016 میں انڈین وزیراعظم نے ایران کا دورہ کیا تھا، اس دورے کے دوران انڈیا ایران اور افغانستان کے درمیان چابہار کے شہید بہشتی پورٹ ٹرمینل پر انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ کوریڈور تعمیر کرنے کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔
افغان طالبان حکومت نے 2016 کے تین ملکی معاہدے کو برقرار رکھا۔ 2024 میں افغان طالبان حکومت نے بھی چابہار پورٹ میں 35 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ انڈیا نے چابہار پورٹ کے لیے آلات خریدنے پر 120 (12 کروڑ) ملین ڈالر لگا رکھے ہیں اور انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے لیے 250 ملین کی کریڈٹ لائن فراہم کر رکھی ہے۔
چابہار پورٹ کو افغانستان سے کئی ریل اور روڈ پراجیکٹ منسلک کرتے ہیں، چابہار زاہدان ریلوے ٹریک بھی ایسا ہی اہم پراجیکٹ ہے، انڈیا نے اس 500 کلومیٹر طویل ریل پراجیکٹ پر ایک ارب 60 کروڑ ڈالر سرمایہ کاری کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ زاہدان افغانستان کے قریب واقع اہم ایرانی شہر ہے۔
خاف ہرات ریلوے پراجیکٹ براہِ راست چابہار سے منسلک نہیں ہے، یہ ان میگا پراجیکٹس کا حصہ ہے جو آخر کار چابہار سے جا ملتے ہیں۔ ایران نے اس ریلوے ٹریک کا زیادہ تر حصہ تعمیر کرلیا ہے، ہرات تک ٹریک تعمیر کرنے کے لیے اٹلی بھی مالی تعاون کررہا ہے۔
زرنج دل ارام ہائی وے چابہار کو افغانستان سے ملاتی ہے، انڈیا نے یہ روڈ 2005 سے 2009 کے درمیان تعمیر کردی تھی، افغانستان میں یہ شاہراہ اس رنگ روڈ سے جا ملتی ہے جو ہرات، قندھار، کابل اور مزار شریف کو ملاتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور اقتدار میں ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل ختم کردی تھی، تب انڈیا کو ایران سے تیل کی خریداری مکمل ختم کرنی پڑی تھی، انڈین وزیراعظم نے تب ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ سے چابہار پورٹ کے لیے استثنیٰ لے لیا تھا جو ایک بڑی فیور تھی۔
انڈیا کو تو ٹرمپ نے ’ٹیرف ابیوزر‘ کا خطاب دیا ہے لیکن ایران اور ایرانیوں بارے اچھے خیالات کا اظہار کیا۔ ایران پر نئی پابندیاں لگاتے ہوئے ٹرمپ نے ایرانیوں کے لیے تعریفی جملے بھی کہے ہیں کہ ایرانی عظیم قوم ہیں، میں چاہتا ہوں کہ وہ ترقی کریں، اس کے لیے ایران کو اپنا نیوکلیئر پروگرام بم بنانے کی حد تک ترک کرنا ہو گا، یہ اس طرح پروگرام ختم کریں جس کی پھر تصدیق بھی کرائی جا سکے۔ ایران کی اتنی تعریف کرتے ہوئے انڈیا کو رگڑا زیادہ لگا دیا گیا ہے۔
پاکستانیوں کا اس مبارک موقع پر اپنے بھارت مہان سے پوچھنا بنتا ہے کہ ہن آرام اے، انڈیا اور اٖفغانستان دونوں ایک ہی وجہ سے پاکستان کو بائی پاس کرنا چاہتے تھے اور ہیں۔ وہ وجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کا ماننا ہے کہ پاکستان سیاسی، سفارتی اور سیکیورٹی پالیسی کو اکانومی پر ترجیح دیتا ہے، جب تناؤ بڑھتا ہے تو پاکستان پھر معاشی نقصان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سہولتیں بند کر دیتا ہے۔
یہ بات کافی حد تک ٹھیک بھی ہے، پر آج کا پاکستان مختلف ہے، تھینکس ٹو کپتان جس نے سر جی کو ٹوکرا پکڑایا اور ان کو بھی پیسے مانگنے دوست اور برادر ملکوں کے پاس بھیجا۔ اب حوالدار بشیر ایس آئی ایف سی کی افادیت بھی جانتا ہے اور معیشت کی ترقی کے بھی اس کو سارے فوائد پتا ہیں۔ پاکستان کے لیے اس صورتحال میں نئے امکانات بھی ہیں۔
پاکستان اپنے دونوں ہمسایہ ملکوں کے ساتھ نئے ورکنگ ریلیشن قائم کرنے پر بات چیت کرنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔ انڈیا کو ایران تک مختصر روٹ پاکستان زمینی راستے سے بھی فراہم کرسکتا ہے۔ پاکستان سنٹرل ایشیا تک بھی افغانستان کے راستے مختصر روٹ فراہم کر سکتا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن پاکستان کو انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کاریڈور میں شمولیت کی دعوت دے چکے ہیں۔ یہ نارتھ ساؤتھ کاریڈور بھی پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے انڈیا کو ایران کے راستے روس اور آگے یورپ سے ملانے کا منصوبہ ہے، یہ منصوبہ وقت اور پیسے دونوں کی بچت کرتا ہے۔
اس خطے کے مسائل ایک ہی صورت حل ہو سکتے ہیں، وہ یہ کہ پیسا اور پرافٹ، وار انڈسٹری کے بجائے ٹریڈ، ٹرانسپورٹ اور کنیکٹیوٹی انرجی کی طرف چلا جائے۔ جب ایسا ہوگا تو خطے میں جاری عسکریت پسندی، علیحدگی پسندی اور دہشت گردی میں خود ہی کمی آجائے گی۔ امریکا کی چابہار پورٹ پر پابندیاں ایک نیا امکان بھی سامنے لائی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
wenews امریکا امریکی پابندیاں بھارت پاکستان چابہار روس نئے امکانات وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکی پابندیاں بھارت پاکستان چابہار نئے امکانات وی نیوز پاکستان کو کرتے ہوئے انڈیا کو فراہم کر کو ایران کے لیے
پڑھیں:
تہران کا جوہری پروگرام: عمان میں امریکی ایرانی مذاکرات شروع
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اپریل 2025ء) عمان سے ہفتہ 12 اپریل کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران اپنے متنازع جوہری پروگرام کو تیزی سے آگے بڑھا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش ہے کہ تہران کے ساتھ اس کے نیوکلیئر پروگرام سے متعلق بات چیت شروع کر کے اسے جلد از جلد نتیجہ خیز بنایا جائے۔
ساتھ ہی اس سال جنوری میں دوسری مرتبہ امریکی صدر کے عہدے پر فائز ہونے والے ریبپلکن ڈونلڈ ٹرمپ کئی مرتبہ یہ دھمکی بھی دے چکے ہیں کہ ایران کو اپنے جوہری پروگرام سے متعلق امریکہ کے ساتھ بلاتاخیر ڈیل کرنا چاہیے، دوسری صورت میں واشنگٹن ایران کے خلاف فوجی کارروئی بھی کر سکتا ہے۔
مذاکرات کے لیے عمان کی میزبانیاس پس منظر میں ایران اور امریکہ کے اعلیٰ نمائندوں کے مابین ہفتہ 12 اپریل کو جو بالواسطہ مذاکرات مسقط میں شروع ہوئے، ان کی میزبانی خلیجی عرب ریاست عمان کر رہی ہے۔
(جاری ہے)
اس بات چیت میں ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ عباس عراقچی جبکہ امریکی وفد کی سربراہی صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی مندوب اسٹیو وٹکوف کر رہے ہیں۔
اس مکالمت کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ اور ایران کے مابین ہونے والے اولین مذاکرات ہیں۔ ایسی کوئی دوطرفہ بات چیت صدر ٹرمپ کے 2017ء سے لے کر 2021ء تک جاری رہنے والے پہلے دور صدارت میں ایک بار بھی نہیں ہوئی تھی۔
علاقائی کشیدگی کے تناظر میں مذاکرات کی اہمیتعمان میں اس امریکی ایرانی مکالمت کا بنیادی مقصد تہران کے ساتھ مل کر کسی ایسے قابل عمل حل تک پہنچنا ہے، جس کے نتیجے میں ایران کو اس کے جوہری پروگرام، خاص کر یورینیم کی غیر معمولی حد تک افزودگی کے ذریعے ممکنہ طور پر فوجی مقاصد کے لیے اس پروگرام کو آگے بڑھانے سے روکا جا سکے۔
مغربی ممالک کا ایران پر الزام ہے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو ممکنہ طور پر فوجی مقاصد کے لیے آگے بڑھا رہا ہے۔ اس کے برعکس تہران کی طرف سے اپنے خلاف ایسے تمام الزامات کی تردید کی جاتی ہے۔ بلکہ ایران کا اصرار ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
ان مذاکرات کے حوالے سے ایران کا کہنا ہے کہ یہ بالواسطہ مکالمت عمانی وزیر خارجہ کی ثالثی میں ہو رہی ہے اور اسی لیے عمان اس بات چیت کی میزبانی بھی کر رہا ہے۔
ایران مذاکرات میں شمولیت کے باوجود ڈیل کے حوالے سے کم امیدمختلف خبر رساں اداروں نے ایرانی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ایران عمان میں اس بات چیت میں شریک تو ہے، تاہم امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے بار بار دی جانے والی دھمکیوں کے باعث اس سلسلے میں زیادہ پرامید نہیں کہ اس عمل کے نتیجے میں تہران اور واشنگٹن کے مابین کوئی ڈیل طے پا جائے گی۔
ہفتے کے روز شروع ہونے والی اس بالواسطہ بات چیت کے بارے میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ''عمانی وزیر خارجہ کی ثالثی میں ایران اور امریکہ کے مابین بالواسطہ مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔‘‘
دونوں وفود علیحدہ علیحدہ کمروں میںعمان میں اس امریکی ایرانی مکالمت کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے لیے دونوں ممالک کے وفود ایک ہی جگہ پر موجود نہیں تھے بلکہ وہ دو علیحدہ علیحدہ کمروں میں بیٹھ کر عمانی وزیر خارجہ کے ذریعے آپس میں پیغامات کا تبادلہ کر رہے تھے۔
اس بات چیت کے بارے میں ایک عمانی سفارتی ذریعے نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ''ان مذاکرات میں اس وقت توجہ موجودہ علاقائی کشیدگی میں کمی پر دی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ قیدیوں کے تبادلے اور ایران کے خلاف عائد پابندیوں میں نرمی کے ایسے محدود معاہدوں پر بھی، جن کے نتیجے میں ایرانی جوہری پروگرام کو کنٹرول کیا جا سکے۔‘‘
عمانی سفارتی ذریعے کے اس موقف کی ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے تاہم تردید کی، مگر یہ واضح نہ کیا کہ ان مذاکرات کی مقصدیت سے متعلق عمانی موقف میں غلط پہلو کیا تھا۔
خلیجی عرب ریاست عمان ماضی میں کئی مرتبہ ایران اور مغربی ممالک کے مابین کامیابی سے ثالثی کر چکی ہے، خاص کر ایسے غیر ملکی شہریوں یا ایران کے ساتھ ساتھ کسی مغربی ملک کی دوہری شہریت رکھنے والے ایسے افراد کی رہائی کے بارے میں، جو اپنی رہائی سے قبل ایرانی جیلوں میں قید تھے۔
ادارت: امتیاز احمد