حیات شیرپاؤ ،حیات وخدمات
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
خیبر پختون خوا کی سیاسی تاریخ ویسے تو کئی نشیب وفراز کی حامل ہے لیکن اگر اس میں سیاسی شخصیات اور ان کی پختونوں کے لیے خدمات کاتذکرہ کیاجائے تو ان میں باچا خان خاندان کے علاوہ اگر کوئی دوسرا نمایاں خاندان نظر آتاہے تو وہ شیرپائو خاندان ہے۔ اس خاندان کی سیاسی جدوجہد کا آغاز تو آفتاب شیرپائو کے والد بزرگوار خان بہادر غلام حیدر خان کی تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے سے ہوا لیکن اس خاندان کو صوبے کی سیاست میں بام عروج پر پہنچنے کا موقع حیات محمد خان شیرپائو کی سیاسی خدمات کی وجہ سے ملا۔ حیات محمد خان شیرپاؤ 1937 میں ضلع چارسدہ کے شیرپائو نامی گائوں میں پیدا ہوئے۔ حیات شیرپاؤ نے ابتدا ئی تعلیم چارسدہ جبکہ گریجویشن اسلامیہ کالج پشاور سے کیا۔
زمانہ طالب علمی میں وہ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے متحرک رہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد انہوں نے عملی سیاست کا آغاز مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے کیا اور سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کے صدارتی انتخاب کے موقع پر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں پیش پیش رہے۔ 1967 میں جب اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے معاہد ہ تاشقند پر اختلافات کی بنا پر ایوب خان کابینہ سے استعفا دیا اور ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا تو صوبہ سرحد میں مجوزہ نئی سیاسی جماعت کی قیادت کے لیے ان کی نظر انتخاب حیات محمد خان شیرپاؤ پر پڑی چونکہ حیات شیرپاؤ پہلے سے ہی ایوبی آمریت کے خلاف برسر پیکار تھے لہٰذا انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت قبول کرتے ہوئے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ لاہور میں پارٹی کا تاسیسی کنونشن منعقد ہوا تو حیات محمد خان شیرپاؤ کو پیپلز پارٹی صوبہ سرحد کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ 1968میں ذوالفقار علی بھٹو کے زیر قیادت پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایوبی آمریت کے خلاف بھر پور ملک گیر تحریک شروع ہوگئی جس کے دوران حیات شیرپاؤ ہر مرحلے پر ذوالفقار علی بھٹو کے شانہ بشانہ رہے اس دروران انہیں کئی بار ریاستی تشدد، فائرنگ، لاٹھی چارج اور آنسو گیس جیسے حربوں کا شکار بھی ہونا پڑا۔
1968 میں پیپلز پارٹی صوبہ سرحد کا تاسیسی کنونشن موضع شیرپائو میں منعقد ہوا جس میں حیات محمد خان شیرپاؤ کی بحیثیت صوبائی چیئرمین کی توثیق کی گئی اور پارٹی کے دیگر صوبائی عہدیداروں کا انتخاب بھی عمل میں لایا گیا۔ کنونشن کے بعد بھٹو نے حیات شیرپاؤ کے ہمراہ صوبہ سرحدکے مختلف اضلاع کا دورہ کیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے میونسپل پارک میں ان کے جلسہ عام پر فائرنگ کی گئی اور لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا بے دردی سے استعمال کیا گیا لیکن ذوالفقار علی بھٹواور حیات محمد خان شیرپاؤ اسٹیج پر ڈٹے رہے انہوں نے آمریت کے سامنے سر جھکانے کے بجائے جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں حکومتی تشدد کا مقابلہ کرنے کے بعد بھٹو اور حیات شیرپاؤ نے پشاور کے شاہی باغ میں جلسہ عام سے خطاب کیا اور اس طرح ایوبی آمریت کے خلاف عوامی تحریک عروج پر پہنچ گئی اور تحریک کو دبانے کے لیے جنرل یحییٰ خان نے مارشل لا نافذ کر دیا۔
1970 میں عام انتخابات کے نتیجے میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹوکو اقتدار سونپا گیا تو انہوں نے حیات محمد خان شیرپاؤ کو صوبہ سرحد کا گورنر مقرر کر دیا۔ وہ صوبہ سرحد کی تاریخ میں سب سے کم عمر گورنر تھے لیکن انہوں نے جوان سال گورنر کی حیثیت سے اپنے سے سینئر اور بڑے بڑے گھاگ سیاستدانوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ حیات شیرپاؤ 1970 کے انتخابات میں خان عبدالقیوم خان کو شکست دے کر پشاور سے سرحد اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ بعد ازاں جب حیات شیرپاؤ کو بجلی و قدرتی وسائل کا وفاقی وزیر مقرر کیا گیا تو انہوں نے پورے ملک میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھا دیا اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے ہزاروں لوگوں کو ملازمتیں فراہم کیں۔
1974 میں جب صوبہ سرحد میں تخریب کاری اور بموں کے دھماکے عروج پر تھے اور لا اینڈ آرڈر کی صورتحال تباہ ہورہی تھی تو انہیں حالات کو معمول پر لانے کے لیے صوبہ سرحد کا سینئر وزیر مقرر کیا گیا۔ انہوں نے صوبے کے سینئر وزیر کی حیثیت سے سرحد میں تخریب کاری کو ختم کرنے اور امن و امان کی بحالی کے لیے انتہائی بہادری سے صورتحال کا مقابلہ کیا اور عوام میں پائی جانے والی عدم اعتماد کی فضا ختم کرنے کے لیے صوبے بھر کے طوفانی دورے شروع کر دیے۔ 8 فروری 1975 حیات شیرپاؤ کو پشاور یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے طالب علموں کی یونین کے نو منتخب عہدیداروں کی حلف برداری کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا جہاں پہلے سے ایک پلانٹڈ بم دھماکے میں انہیں شہید کردیاگیا۔ ان کی شہادت پر پورا صوبہ سوگوار ہو گیا۔ ان کے جنازہ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی ان کے جنازے کا اس سے بڑا اجتماع صوبہ سرحد کی تاریخ میں اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ حیات شیرپاؤ کی شہادت کے بعد صوبے کی سیاست میں پیدا ہونے والے خلا کو فوج میں ان کے زیر ملازمت چھوٹے نوجوان افسر بھائی آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے فوج سے استعفا دے کر پر کیا جو اس وقت سے حیات شیرپائو کے سیاسی فلسفے کی روشنی میں صوبے کی سیاست میں ہمہ وقت مصروف عمل ہیں جب کہ اس جدوجہد کو ایک منظم شکل دینے کے لیے انہوں نے 2012 میں حیات محمد خان شیرپائو کے دیگر ہم خیال راہنمائوں پر مشتمل قومی وطن پارٹی کے نام سے ایک نئی قوم پرست جماعت کی بنیاد رکھی لہٰذا تب سے وہ حیات شیر پائو کے ادھورے مشن کی تکمیل کے لیے صوبے کی سیاست میں ہمہ تن مصروف عمل ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ذوالفقار علی بھٹو صوبے کی سیاست میں صوبہ سرحد کا ا مریت کے انہوں نے کیا گیا کے لیے کے بعد
پڑھیں:
رجب بٹ نے جنگلی حیات سے متعلق آگاہی ویڈیوز بنانے کا وعدہ پورا نہ کیا، وائلڈلائف کا عدالت سے رجوع
لاہور: پنجاب وائلڈلائف نے مشہور ٹک ٹاکر رجب بٹ کے خلاف عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے پر دوبارہ عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ رجب بٹ پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر قانونی طور پر ایک شیر کے بچے کو اپنی تحویل میں رکھا تھا، جس پر عدالت نے انہیں جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق آگاہی ویڈیوز بنانے کی سزا سنائی تھی۔
عدالتی فیصلے کے تحت رجب بٹ کو ہر ماہ کے پہلے ہفتے میں جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق ویڈیوز بنا کر اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ کرنا تھا، تاہم وہ فروری کے پہلے ہفتے میں یہ ویڈیو شیئر کرنے میں ناکام رہے۔
پنجاب وائلڈلائف لاہور ریجن کے ڈپٹی ڈائریکٹر میاں عاصم کامران کے مطابق رجب بٹ نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی ہے، جس پر وائلڈلائف حکام نے عدالت سے رجوع کرنے اور ان کے خلاف مزید قانونی کارروائی کی درخواست دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ رجب بٹ کو شادی کے موقع پر تحفے میں ملنے والے شیر کے بچے کو غیر قانونی طور پر رکھنے پر تین آپشنز دیے گئے تھے: قید، بھاری جرمانہ یا جنگلی حیات سے متعلق آگاہی ویڈیوز بنانے کی ذمہ داری۔ انہوں نے تیسرا آپشن قبول کرتے ہوئے عدالت سے عہد کیا تھا کہ وہ اپنی مقبولیت کو استعمال کرتے ہوئے عوام میں جنگلی حیات کے تحفظ کا شعور اجاگر کریں گے، تاہم وہ اپنے وعدے پر پورا نہ اتر سکے۔
پنجاب وائلڈلائف حکام نے اس خلاف ورزی کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے رجب بٹ کے خلاف مزید قانونی کارروائی کے لیے عدالت جانے کا عندیہ دیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ عدالتی احکامات کو نظر انداز کرنے کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں اور اس معاملے کو مثال بنایا جائے گا تاکہ کسی کو بھی جنگلی حیات کے قوانین کی خلاف ورزی کی جرات نہ ہو۔