Jasarat News:
2025-04-16@15:05:00 GMT

’’میں‘‘ کا علاج

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

’’میں‘‘ کا علاج

تیز گرد آلود آندھی کے بعد ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ آسمانی بجلی کی خوفناک کڑک سے ڈر کر زمینی بجلی خاصی دیر سے غائب تھی۔ یو پی ایس کی سہولت نہیں تھی۔ اتنے میں سرگودھا سے وہ مزدا آخر کار آ ہی گیا جس پر میرا کچھ فرنیچر آنا تھا۔ کل رات بھی اس کے انتظار میں کٹی تھی اور آج کا دن بھی۔ میں نے اپنے رات کے گھریلو لباس اور مشکوک قسم کے حلیے میں گیٹ کھولا۔ مزدا اندر آیا۔ ساتھ آنے والوں نے مجوزہ کمرے میں ساز و سامان درست کیا۔ موبائل فونز کی روشنی میں انہیں کھانا کھلایا اور چائے پلائی۔ چک نمبر 52 عرف نواب دے چک نزد جھال چکیاں سرگودھا کا نوجوان ڈرائیور باہر کھلے میں بچھی لکڑی کی رنگین پایوں والی بان کی چارپائی پر میرے پاس بیٹھ کر سگریٹ پر سگریٹ پیتا رہا۔ اسے واپس سرگودھا بھی پہنچنا تھا۔

کسی کڑوے سگریٹ کے سر بہ فلک دھواں دھار سْوٹوں کے درمیان تقریباً بغیر کسی وقفے کے ہمارے درمیان یہ مزے کا مکالمہ ہوا۔ آغاز نوجوان ڈرائیور نے مجھ سے مئودبانہ سوال کر کے کیا:
بزرگو‘ ڈرائیوری کب سے کر رہے ہیں؟
ہو گئے ہوں گے کوئی بیس پچیس سال۔
ماشاء اللہ‘ صرف لائٹ یا ہیوی بھی؟
نہیں‘ صرف لائٹ۔
پہلے کہیں اور نوکری بھی کی ہے یا شروع سے یہیں کام کر رہے ہیں؟
شروع سے یہیں لگا ہوا ہوں۔
آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی ہے یا رات بھی انہی کے پاس رہتے ہیں؟
ڈیوٹی چوبیس گھنٹے کی ہے۔
مالک اچھے ہی ہوں گے‘ ورنہ اس عمر میں کسی کے پاس اتنا کون ٹِکتا ہے؟
ہاں‘ یہ بات تو صحیح ہے۔
بڑی بات ہے بزرگو‘ اس عمر میں آپ کو بھی اور کہیں ڈرائیوری نہیں ملنی، اس لیے آپ شکر کر کے کام ٹھیک ہی کرتے ہوں گے۔
کوشش تو یہی ہوتی ہے۔
تنخواہ ٹھیک ہے اور وقت پر مل جاتی ہے؟
ہاں‘ شکر ہے۔ پہلی کی پہلی کو کہے بغیر مل جاتی ہے۔
یہ تو کمال ہے۔ اچھا یہ لوگ چائے پانی اور کھانے کا خیال بھی رکھتے ہیں؟
جی ہاں بہت خیال رکھتے ہیں۔
خاندانی لوگ لگتے ہیں‘ ورنہ تو اب ایسا بہت کم ہوتا ہے۔
جی ہاں‘ شاید۔
بزرگو‘ آپ بڑے بختوں والے لگتے ہیں۔
ہاں‘ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

ابھی میں نے ان سب کو رخصت کیا ہے۔ گیٹ کو تالا لگایا ہے۔ بجلی آ گئی ہے۔ موسم بھی خوشگوار ہے۔ انتظار‘ کوفت‘ تھکن اور حوصلہ افزا مکالمے کے بعد شاید نیند بھی کچھ بہتر آ جائے۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے مجھے معمولی سے جھوٹ سے بھی بچایا اور لفظ بہ لفظ سچ بولنے میں نصرت فرمائی۔

مزدا والے نوجوان‘ سگریٹ نوش ڈرائیور کا جس بزرگ سے مکالمہ ہو رہا تھا اور جنہیں وہ اس گھر کا ڈرائیور سمجھ رہا تھا‘ وہ ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی ہیں۔ نظامی صاحب پنجاب یونیورسٹی میں ڈین رہے۔ شعبۂ فارسی کے صدر رہے۔ اورینٹل کالج کے پرنسپل رہے۔ لمز میں بھی پڑھاتے رہے۔ ان دنیاوی مناصب سے قطع نظر وہ فقیر منش انسان ہیں۔ علومِ تصوف کے ماہر ہیں۔ ایک بڑے علمی اور روحانی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ استاد ہیں اور ان اساتذہ کی یاد دلاتے ہیں جو چٹائیوں پر بیٹھ کر پڑھاتے تھے اور دنیا اور اہلِ دنیا سے بچتے تھے۔ آج کل جب ہر شخص‘ میرے سمیت‘ ملازمت میں توسیع کا متمنی ہے‘ نظامی صاحب نے ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی چھٹی لے لی اور ملازمت کو خدا حافظ کہہ دیا۔ وہ ڈرائیور کو بتا سکتے تھے کہ وہ گھر کے مالک ہیں مگر فارسی ادب کا کوئی بھی شناور‘ جبکہ وہ اہلِ نظر بھی ہو ’’میں‘‘ سے ہمیشہ پرہیز کرتا ہے۔ فرقۂ ملامتیہ کے بزرگ بھی اہلِ دنیا کے سامنے اپنا مرتبہ گھٹا کر پیش کرتے تھے اور اپنی نیکیوں کو اخفا میں رکھتے تھے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ نظامی صاحب کا تعلق فرقۂ ملامتیہ سے ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خاندانی لوگ‘ خاص طور پر جب وہ بصیرت اور طریقت سے بھی تعلق رکھتے ہوں‘ کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہتے یا کرتے جس سے فخر و مباہات کا اظہار ہو۔ وہ چونکہ گاڑی زیادہ تر خود ہی چلاتے ہیں اس لیے ڈرائیور ہونے کی تصدیق کر کے انہوں نے سچ ہی کہا۔

ہمارے ایک اور بزرگ سردار اسلم خان مگسی کے ساتھ بھی ایک بار اس سے ملتا جلتا واقعہ پیش آیا۔ وہ ان دنوں ملٹری اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان کے منصبِ جلیلہ پر فائز تھے۔ لاہور میں انہیں ایک بڑا‘ محل نما‘ سرکاری گھر ملا ہوا تھا۔ باغبانی وہ خود کرتے تھے۔ ایک دوپہر کو سخت گرمی میں‘ عام لباس پہنے‘ سر پر رومال یا چادر رکھے‘ گھر کے باغ میں گوڈی کر رہے تھے۔ محکمے کا ایک اہلکار کسی دوسرے شہر سے ان کی خدمت میں اپنا کوئی کام کرانے حاضر ہوا۔ گھر کے اندر آکر اس نے دیکھا کہ ’’مالی‘‘ کام کر رہا ہے۔ اس نے پوچھا ’’صاحب گھر میں ہیں کیا‘‘؟ ’’مالی‘‘ نے پوچھا: بتائیے کیا کام ہے؟ سائل پہلے ہی تھکا ہوا تھا۔ اس نے ڈانٹ دیا کہ تمہیں کس حساب سے بتائوں کہ کیا کام ہے۔ صاحب سے ملنا ہے۔ مگسی صاحب عجز و انکسار سے‘ جو اْن کی شخصیت کا خاصہ تھا‘ کہنے لگے: بہتر! میں انہیں بتاتا ہوں! اندر گئے۔ لباس تبدیل کیا۔ اتنی دیر میں ان کے ملازم نے ملاقاتی کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور پانی پلایا۔ پھر مگسی صاحب اندر سے آئے‘ بہت نرمی سے کہا کہ میں ہی ملٹری اکائونٹنٹ جنرل ہوں‘ فرمائیے‘ آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟ وہ پریشان ہوا لیکن سردار صاحب نے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں‘ آخر تم مجھے پہچانتے تھوڑی ہی تھے!

ہمارے ایک اور بزرگ سید شوکت حسین کاظمی ہیں! یہ جو مشہور شعر ہے‘ جسے لوگ اقبال کا شعر سمجھتے ہیں: تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب؍ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے‘ یہ اْن کے والدِ گرامی سید صادق حسین مرحوم کا ہے۔ ایک زمانے میں شوکت کاظمی صاحب برّی فوج کے مالی مشیر کے عہدے پر تعینات تھے اور جی ایچ کیو میں بیٹھتے تھے۔ ان سطور کا راقم ان کا نائب تھا۔ ان سے ہم نے ایک بہت بڑا سبق سیکھا۔ وہ ادنیٰ سے ادنیٰ ماتحت کا تعارف کراتے وقت بھی کبھی نہیں کہتے تھے کہ یہ نائب قاصد ہے یا پی اے ہے یا ڈرائیور ہے۔ ہمیشہ کہتے کہ یہ ہمارے کولیگ (رفیق کار) ہیں! بعد میں وہ وفاقی سیکرٹری کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔ ان کے دفتر اور گھر کے دروازے ہمہ وقت ہر سائل کے لیے کھلے رہتے تھے۔

یہ جو بادشاہ پہلے زمانوں میں بھیس بدل کر شہروں کے گلی کوچوں میں پھرتے تھے تو ایک مقصد تو ظاہر ہے یہی تھا کہ رعایا کے احوال سے براہِ راست آگاہی ہو۔ (موجودہ دور کی بات ہے کہ اسکینڈے نیویا کے ایک ملک کا وزیراعظم کچھ عرصہ ٹیکسی ڈرائیوری کرتا رہا تاکہ عوام کے خیالات کا اندازہ لگا سکے) مگر ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ بادشاہ عام آدمی بن کر شہر میں پھرے گا‘ ساتھ پروٹوکول ہو گا نہ ہٹو بچو کی آوازیں‘ تو بادشاہ کی ’’میں‘‘ کچھ دیر کے لیے دب جائے گی اور انانیت کے خول سے باہر نکل سکے گا۔ یہ ایک لحاظ سے نفس کی سرکشی کا علاج بھی تھا۔ کیا عجب‘ اولیا اور فقرا بادشاہوں کو نصیحت کرتے ہوں کہ دن کو نہیں تو رات ہی کو بادشاہی کا طوق گلے سے اتار کر کچھ دیر کے لیے خدا کے عام بندوں کی طرح چلو پھرو۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: گھر کے کے لیے

پڑھیں:

مرزا رسول جوہؔر

ہم سب دوست اس بات پر متفق ہیں مرزا رسول جوہؔر کم از کم 50 کے پیٹے میں ہیں مگر وہ خود کو نہ صرف سفید بالوں والا نوجوان سمجھتے ہیں بلکہ اپنی تھوڑی بہت میڈیکلی خفت کا ذمہ دار شوگر کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ برملا اعتراف کرتے ہیں کہ انسولین کا انجیکشن انہیں رات گئے تک تو ہشاش بشاش رکھتا ہے مگر اندھیرا گہرا ہوتے ہی شوگر تمام اعضا کو معطل کرکے رکھ دیتی ہے۔

مرزا صاحب غالباً سات برس قبل میدانِ صحافت میں آئے تھے جب وہ بجلی میٹر کی ریڈنگ پیچھے کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اور جبری برطرف کردیے گئے۔ ان کے معاشی حالات سے باخبر افسر تعلقات عامہ نے خاص تعلقات استعمال کرتے ہوئے انہیں اخبار میں پروف ریڈر رکھوا دیا۔ یوں چند ہی دنوں میں وہ میٹر ریڈر سے پروف ریڈر بن گئے۔

ان کا پروف شدہ مسودہ پڑھتے ہوئے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے دال کھاتے ہوئے اس میں بار بار کنکر آ جائیں۔ ابھی پروف ریڈنگ میں ان کی مہارت کا سکہ بیٹھنے بھی نہ پایا تھا کہ انہیں بطور سب ایڈیٹر نیوز ڈیسک پر بیٹھنے کا موقع مل گیا۔

قصہ یوں ہے کہ ایک نیا اخبار مارکیٹ میں آنے سے سب ایڈیٹرز کا ایک باغی جتھہ وہاں چلا گیا لہٰذا چند ٹرینی بھرتی کرکے اور مرزا رسول جوہؔر کی عمر رسیدگی کے دھوکے میں انہیں تجربہ کار سمجھتے ہوئے نئے میدان میں اتار دیا گیا مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری بلکہ ان کا حوصلہ اس پرچم کی طرح بلند رہا جسے ہر روز بلند کردیا جاتا اور ہر شام کو اتار لیا جاتا ہے۔

صبح سے شام تک مسلسل اتار چڑھاؤ اور دھینگا مشتی میں انہوں نے سب ایڈیٹنگ پر اپنا ہاتھ صاف کرلیا۔ ان کی بنائی ہوئی چند یادگار سرخیاں آپ سے چھپانا مرزا رسول جوہؔر کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟ ان سرخیوں نے انہیں اسٹاف میں یکدم مشہور کردیا تھا۔ نمونے کی چندسرخیاں:

’شیخ رشید نے گھر گھر الیکشن مہم کا آغاز شروع کر دیا‘
’آفریدی کی فلک بوس چھکوں اور زمین بوس چوکوں کی مدد سے سینچری‘
’نرگس عمرہ سے لوٹ آئیں، آج الحمرا میں پرفارم کریں گی‘
’برڈ فلو سے 4 چینی باشندے جاںبحق‘

جس روز آخری سرخی اخبار میں شائع ہوئی تو قارئین نے فون کرکے شکایت کی کہ جاں بحق صرف مسلمانوں کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ ایڈیٹر صاحب نے ان کی سرزنش کی تو مرزا رسول جوہؔر نے دل ہی دل میں ادارہ چھوڑ دینے کی ٹھان لی تھی اور ڈیڑھ ماہ بعد ہی بالوں میں اتری چاندی کی بدولت دوسرے روزنامے میں رپورٹر ہو گئے۔

مرزا کی بطور رپورٹر تقرری بذات خود بریکنگ نیوز تھی مگر ٹی وی چینلز بہت بعد میں آئے۔ بہر کیف یہاں بھی صورتحال حسب سابق ہی رہی انہیں ایک سیاسی شخصیت کا انٹرویو کرنے کا ٹاسک ملا تو مرزا صاحب نے سوالنامہ تیار کیا اور فوٹو گرافر کے ہمراہ انٹرویو لینے پہنچ گئے چند ابتدائی اہم سوالات یوں تھے:

سوال: موجودہ سیاسی حالات میں قائداعظم کے 14 نکات کی اہمیت و افادیت کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
سوال: اگر آپ اس مرتبہ بھی الیکشن ہار گئے تو اسے دھاندلی قرار دیں گے یا اپنی پرانی پارٹی میں واپس چلے جائیں گے؟
سوال: جونیجو کی نئی روشنی اسکیم کا مشرف کی روشن خیالی سے موازنہ کریں؟

اس پر وہ صاحب زچ ہو کر بولے یا تو آپ انٹرویو کی تیاری نہیں کرکے آئے یا پھر آپ میرے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ مرزا رسول جوہؔر نے صورتحال کو سنبھالا دیا اور سوالات کا رخ پسند و ناپسند کی جانب موڑتے ہوئے جیب سے ’نجی سوالنامہ‘ نکالا اور بالترتیب سوالات کی بوچھاڑ کردی۔

نجی سوالات میں تیسرا اور چوتھا سوال جو سوالنامے کے عین مطابق تھے کچھ یوں کیے گئے جو بمعہ جواب درج ہیں:
سوال: ٹی وی دیکھتے ہیں؟
جواب: جی نہیں، ٹی وی دیکھنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔
سوال: آپ کا پسندیدہ ڈرامہ کون سا ہے؟

اس سوال کے بعد انٹرویو اختتام کو پہنچ گیا۔ مرزا رسول جوہؔر نے فوٹو گرافر سے صورتحال پر خاموشی اختیار کرنے کی درخواست کی اور دفتر میں صاحب انٹرویو سے وقت نہ ملنے کا بہانہ کردیا۔ (یاد رہے اس واقعے بشمول اگلے واقعات کے راوی فوٹو گرافر صاحب ہی ہیں۔ حالانکہ صحافت میں سورس نہیں بتایا جاتا لیکن مرزا رسول جوہؔر کے معاملے میں سورس چھپایا جائے تو واقعات من گھڑت لگتے ہیں)۔

فوٹو گرافر کے مطابق دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے’8 اکتوبر 2005کے زلزلے پر ایک ماہر ارضیات سے انٹرویو کا وقت لیا گیا۔ زلزلے کے حوالے سے کئی سوالات زیر بحث آئے۔ انٹرویو دینے والے صاحب پٹھان تھے اور مشکل سے اردو بولتے تھے۔

مرزا صاحب نے انٹرویو کا اختتام ان الفاظ سے کیا، ان تمام سوالات، ان کے جوابات اور سیرحاصل گفتگو سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آپ کا تعلق صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) سے ہے؟ بقول فوٹو گرافر وہ اس منطق پر پریشان تھے کہ خان صاحب اس اخذ شدہ نتیجے پر برہم ہی نہ ہو جائیں مگر وہ اس وقت حیران رہ گئے جب خان صاحب سیٹ سے اٹھ کر آگے بڑھے اور مرزا سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولے ’آفرین ہے آپ نے خوب پہچانا، میرا تعلق چارسدہ سے ہے۔‘

ایک واقعے کا میں خود عینی شاہد بلکہ کردار ہوں۔ ایک مرتبہ مرزا رسول جوہؔر نے کوئی تقریب کور کی مگر فوٹو گرافر سے ٹائمنگ سیٹ نہ ہو سکی۔ اس پر انہوں نے کسی دوسرے اخبار کے فوٹو گرافر سے تصاویر بذریعہ انٹرنیٹ ای میل کرنے کی درخواست کی۔ اس دوران مرزا نے میرے سامنے بھی اس فوٹو گرافر کو SMS بھیجے۔

کچھ دیر بعد دوران گفتگو مرزا رسول جوہؔر کو ایک میسج موصول ہوا جسے پڑھتے ہی انہوں نے بڑبڑانا شروع کردیا اور فوٹو گرافر کو سخت برا بھلا (گالیاں) کہا، میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے ’یار اس بے وقوف نے 500 روپے نقد لیکر بھی تصاویر مجھے ای میل کرنے کے بجائے APPکو میل کردی ہیں۔

بولے اب کونAPP (ایسوسی ایٹیڈ پریس آف پاکستان) جا کر تصاویر لائے۔ میں نے انہیں میسج دکھانے کے لیے کہا، فوٹو گرافر کا مسیج پڑھ کر مجھے ہنسی آئی مگر میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے مرزا رسول جوہؔر سے ان کی ای میل آئی ڈی اور پاس ورڈ (بقول ان کے کوڈ) پوچھا اور تصاویر اوپن کرکے انہیں دکھا دیں۔ اس پر مرزا بھی حیران رہ گئے۔ وہ یادگار میسج یوں تھا:
App Ko Tsaveer Mail Kar Di Hain

مرزاAPP یعنی آپ کو ’اے پی پی‘ پڑھ کر مشتعل ہو گئے تھے۔ عقدہ کھلنے پر مرزا نے کھسیانی بلی کی مانند، شوگر کو بطور کھمبا نوچتے ہوئے سارا ملبہ اسی پر گرا دیا۔

مرزا خود کو 18، 20 برس سے صحافت کی دنیا کا راہی بتاتے ہیں مگر یہ پول بھی اس وقت کھل گیا جب مرزا رسول جوہؔر صحافیوں کو پلاٹ ملنے کے لیے 10 سالہ تجربے کی شرط بھی پوری نہ کرسکے لیکن مرزا نہایت ڈھٹائی سے اسے سینیئر صحافیوں کی سازباز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کے ساتھی پروف ریڈر بھی موجود ہیں جن کے ساتھ انہوں نے اس وادی پرخار میں قدم رکھا مگر مرزا رسول جوہؔر بضد ہیں کہ ان کے گاؤں والے صحافتی تجربے کو ڈال کر اتنے برس بن ہی جاتے ہیں۔

مرزا رسول جوہؔر کے اور بھی کئی دلچسپ واقعات ہیں، ان شاء اللہ آئندہ کسی ملاقات پر ان کا ذکر اٹھا رکھتے ہیں۔ ویسے بھی وہ آج کل پرنٹ میڈیا سے تنگ آ کر الیکٹرانک میڈیا میں جانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ ’یار زندہ صحبت باقی‘

پسِ تحریر: ان کا اصل نام مرزا رسول گوہر تھا لیکن ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے شاعری کی دنیا میں قدم رکھا تو پہلی بار علامہ اقبال کے ’جوابِ شکوہ‘ کا یہ شعر سنتے ہی گوہر کو جوہؔر کرلیا تھا۔

’تربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

شیخ رشید علامہ اقبال مرزا رسول جوہؔر مشکورعلی نرگس

متعلقہ مضامین

  • افغانستان: غذائی قلت کا شکار بچے امریکی امداد کے بغیر موت کے خطرے سے دوچار
  • شامی ڈاکٹر وطن میں مفت علاج کرنے کے لیے جرمنی سے جانے لگے
  • بہت سے لوگ بانی پی ٹی آئی کو بطور ہیرو پسند کرتے ہیں، علی محمد
  • کراچی: ندی سے ڈوبنے کے دوران زندہ نکالے جانیوالا شخص دم توڑ گیا
  • اندر کی کہانی کا علم نہیں شاید بات چیت ہوئی ہو گی، محمد زبیر
  • سانس کی تکلیف، اشرف طائی این آئی سی وی ڈی میں زیر علاج ہیں، ترجمان
  • کانگریس کسی مسلمان کو پارٹی کا صدر کیوں نہیں بناتی، نریندر مودی کی اپوزیشن پر تنقید
  • مرزا رسول جوہؔر
  • بنگلہ دیش: 31 جولائی تحریک کے متاثرین کا پاکستان میں علاج کیا جائے گا
  • 85 ہزار پاکستانیوں نے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کیا، وفاقی وزیر صحت