Jasarat News:
2025-02-11@09:09:16 GMT

عدل سے مایوسی؟؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

عدل سے مایوسی؟؟

حیدر آباد میں قانون کے رکھوالے وکلا اور قانون پر عملدرآمد کے ذمے دار پولیس کے اہلکار کے درمیان زور آزمائی کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔ پولیس نے ایک کار جس کی فینسی نمبر پلیٹ اور سیاہ شیشے پر قانون کی عملداری کرنے کی خاطر ایف آئی آر درج کی تو کار جو وکیل کی ہے وہ اس کو گستاخی قرار دے کر اپنے مددگار ساتھیوں کے ہمراہ ایس پی آفس حیدرآباد جا پہنچا اور پھر مطالبہ ہوا کہ ایس پی سے لے کر اُن تمام لوگوں کو معطل کیا جائے جو قانون کے رکھوالے پر قانون کا اطلاق کرنے کی جسارت کر بیٹھے۔ دوسری طرف پولیس اہلکاروں نے بھی چھٹی کی درخواستیں دے کر اس صورت حال میں کنارہ کشی کا بڑے پیمانے پر فیصلہ کر ڈالا۔ یوں رسہ کشی میں شدت آئی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قانون کے رکھوالے اور عمل در آمد کرانے والے دونوں فریق عدالت سے رجوع کرتے اور انصاف کے طلب گار بنتے مگر یہ کیا ہوا؟ قانون کے رکھوالے وکلا نے وہی کچھ کیا کہ شاہراہوں کو بند کرنا اور بوڑھے، بیمار، بچوں کو جو سفر میں ہیں عذاب سے دوچار کرنا شروع کردیا۔ یہ تو وتیرہ اُن کا ہے جو قانون کی پیچیدگی اور ہتھکنڈوں سے مایوس ہو کر دھرنے پر روتے دھوتے ہیں کہ کہاں جائیں۔ وہ تو عدالتوں کے چکر کاٹنے، وکلا کی بھاری بھرکم فیس ادا کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتے اگر کہیں سے رقم کا بندوبست ہوجائے تو پھر دادا کی انصاف طلبی پوتے تک بھی مشکل ہوتی ہے۔ کیا وکلا نے اس بات کو گھر کے بھیدی کے طور پر تسلیم کرلیا ہے کہ عدالتوں کا نظام، اُن کو کب انصاف دلا سکے گا۔ ویسے بھی ایک محترم جج نے حال ہی میں کہا ہے کہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ ہے اور ججوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ وہ ان کو نمٹانے میں تاخیر کا شکار ہوتی ہے۔ بلکہ اب یوں کیا جائے کہ اسلاف کی روایت کے تحت جھگڑے باہمی مشاورت سے نمٹا لینا ہی مسائل عدل کا حل ہے یعنی ’’جرگہ‘‘ جس کی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی رو سے ممانعت ہے اس کو نظریہ ضرورت کے تحت نرم کرلیا جائے۔

مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر سے کہتے ہیں کہ ایک سبب وکلا بھی ہیں۔ جسٹس کاظم ملک کا ارشاد گرامی ہے کہ آدھے سے زیادہ مقدمات ایک پیشی پر ختم کیے جاسکتے ہیں اور قتل کے مقدمے کا فیصلہ تین پیشیوں پر سنایا جاسکتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو وکلا کی اکثریت مالی مشکلات کا شکار ہوجائے گی اور اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وکلا کی آمدنی حلال ہوجائے گی۔ وکلا کا دھرنا مبینہ قانون شکنی پر اس بات کو ثابت کرنے کو کافی ہے کہ وہ قانون کی عدالتوں سے انصاف کو وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔وکلا کا عدلیہ پر عدم اعتماد بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ چرچل نے برطانیہ کی جنگ عظیم میں تباہی کے بعد کہا تھا کہ عدالتیں کام کررہی ہیں تو ہم اپنے پیروں پر پھر کھڑے ہوجائیں گے۔ عدل مظلوم و مقبور کا سہارا ہوتا ہے، محکمہ پولیس عدالتوں کی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے جعلی مقابلے اور ہاف فل فرائی کا نسخہ آزما رہا ہے۔ ایک بڑے صحافی نے اپنی کتاب میں مسلم لیگ کے وزیر داخلہ کے حوالے سے لکھا کہ ایک خفیہ میٹنگ جس کی راز داری کا حلف تھا اُس کے بعد یہ ہاف اور فل فرائی کا سلسلہ چل پڑا۔ مگر اب ان کالی وردی والوں کے مابین زور آزمائی اور جتھا بندی یہ بتانے کو کافی ہے کہ نظام عدل لرزہ براندام ہے ویسے بھی عدلیہ کی تاریخ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے 9 رکنی بنچ نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل محمد ضیا الحق کے پارلیمنٹ کو توڑنے اور مارشل لا نافذ کرنے کے عمل کو ریاست کی ضرورت اور فلاح عامہ کی خاطر جائز قرار دیا اور کہا کہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر قانون سلامتی کے تحت جو چاہے وہ کرسکتا ہے، اور اب تو عدالتوں کے جج صاحبان کے درمیان رسہ کشی کی خبریں بھی اخبارات میں آرہی ہیں۔ ملک میں کیا اب قانون نام کی کوئی چیز ہے جو بچی ہے۔ قانون سے حق دلانے والے اور قانون کو نافذ کرنے والے دونوں غیر قانونی جنگ میں مصروف ہیں، اس کو المیہ نہ کہیں گے تو اور کیا کہیں گے۔ مجھے ایک گوشہ سے یہ قرآن کی آواز آرہی ہے کہ: ’’ہم ظالموں کو آپس میں لڑا دیتے ہیں‘‘۔ عدل سے مایوسی ملک کی تباہی کے سوا کیا ہے!

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: قانون کے رکھوالے

پڑھیں:

متنازعہ قانون پیکا عدالت میں زیر سماعت ہونے کی بنا پر پارلیمانی کارروائی کے دوران احتجاج اور واک آؤٹ عدالتی کارروائی مکمل ہونے تک موخر کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پارلیمنٹیری رپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے فیصلے تک پارلیمان میں کارروائی کا بائیکاٹ موخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر پی آر اے پاکستان عثمان خان، سیکرٹری نوید اکبر اور تمام باڈی نے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ پیکا ایکٹ باالخصوص ترمیمی ایکٹ 2025 ایک ڈریکونین قانون ہے جس پر پارلیمنٹیری رپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان مختلف طریقوں سے تاحال احتجاج جاری رکھے ہوئے ہے۔

پی آر اے پاکستان یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ حکومت کی جانب سے متنازعہ قانون کی منظوری کسی صورت قبول نہیں اور اس کے خلاف احتجاج جاری رکھا جائے گا. عدالت میں معاملہ زیر غور ہونے کی بناء پر فی الوقت بائیکاٹ موخر کیا گیا ہے۔تاہم پی آر اے پاکستان متنازعہ قانون سازی پر پہلے دن سے پارلیمانی، سیاسی قائدین، قومی اور بین الاقوامی اداروں کو خط کتابت کے زریعے اپنے خدشات سے آگاہ کرنے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں. پی آر کے پاکستان نے پہلے روز سے ہی شدید احتجاج کے زریعے حکومتی بدنیتی کو احتجاج کے زریعے اجاگر کیا تھا، پی آر اے پاکستان نے پارلیمنٹ کے محاذ پر احتجاج کی پہل کر کے پاکستان کی تمام صحافتی تنظیموں، دھڑوں کو بھی احتجاج پر مجبور کرنے اور ہمارے موقف کو تسلیم کئے جانے کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتی ہے،پی آر اے پاکستان کی قیادت اس عزم کا اظہار کرتی ہے. کہ میڈیا یا میڈیا نمائندوں پر ہر مشکل وقت میں پی آر اے انتہائی سنجیدگی سے بروقت اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی رہے گی.

متعلقہ مضامین

  • متنازعہ قانون پیکا عدالت میں زیر سماعت ہونے کی بنا پر پارلیمانی کارروائی کے دوران احتجاج اور واک آؤٹ عدالتی کارروائی مکمل ہونے تک موخر کرنے کا فیصلہ
  • جوڈیشل کمیشن :عدالت عظمیٰ میں 6 ججز تعینات کرنے کی منظوری(جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے اجلاس کا بائیکاٹ کر د یا)
  • کراچی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کا جعلی میجر گرفتار
  • کراچی؛ قانون نافذ کرنے والے ادارے کا جعلی میجر گرفتار
  • اسلام آباد: ڈی چوک میں احتجاج کرنے والے وکلا واپس روانہ، ریڈ زون کے راستے کھل گئے
  • وکلا کا احتجاج: آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کی سماعت ملتوی کردی
  • سیاسی عزائم والے وکلا کا مقصد جوڈیشل کمیشن کا اجلاس سبوتاژ کرنا ہے، بارایسوسی ایشنز
  • پنجاب حکومت سے مایوسی؟ کسانوں نے گندم کی کھڑی فصل تباہ کرنا شروع کردی، ویڈیوز وائرل
  • امریکی صدر کو عدالتی محاذ پر دھچکا، یو ایس ایڈ، شہریت سے متعلق آرڈرز پر عملدرآمد روک دیا گیا