Jasarat News:
2025-02-11@08:37:41 GMT

واپسی کے بعد کی ذِلت

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

واپسی کے بعد کی ذِلت

بھارتی ریاست گجرات میں انسانی اسمگلنگ پر تحقیقات میں مصروف ایک افسر کا کہنا ہے کہ امریکا میں اس وقت غیر قانونی تارکین ِ وطن کو برداشت نہ کرنے کا جو جُنونی رجحان پایا جاتا ہے وہ اس حقیقت کی نشاندہی کر رہا ہے کہ وہاں اب غیر قانونی طور پر پہنچنے والوں کو قیام کا موقع نہ ملے گا نہ کام کا۔

امریکی فضائیہ کا C-17 گلوب ماسٹر ٹرانسپورٹ ائر کرافٹ ۵ فروری کو بھارتی ریاست پنجاب کے شہر امرتسر میں اُترا۔ اِس میں وہ ۱۰۴ بھارتی باشندے سوار تھے جنہیں امریکا میں غیر قانونی قیام کی پاداش میں تحویل میں لینے کے بعد ملک بدر کیا گیا تھا۔ اِن کا امریکی خواب چکنا چور ہوچکا تھا۔ بھارت کی ریاستوں پنجاب، ہریانہ، گجرات، اتر پردیش اور راجستھان میں ہزاروں گھرانوں کے خواب راتوں رات چکنا چور ہوگئے ہیں کیونکہ اِن گھرانوں کے نوجوان غیر قانونی طور پر امریکا میں مقیم تھے اور ڈالر بھیج رہے تھے۔ اُن کی کمائی سے ہزاروں افراد اچھی زندگی بسر کرنے کی تمنا پوری کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ جن گھرانوں کے لیے لوگ بھیجے جاچکے ہیں وہ تو پریشان ہیں ہی، وہ ہزاروں گھرانے بھی ذہنی الجھن سے دوچار ہیں جن کے پیارے امریکا میں غیر قانونی قیام پر گرفتار کیے جاچکے ہیں اور شارٹ لِسٹ کیے جانے پر کسی بھی وقت ملک بدری کا سامنا کریں گے۔ اِن لوگوں کے متعلقین اِس لیے پریشان ہیں کہ امریکا میں غیر قانونی تارکین ِ وطن کو برداشت نہ کرنے کی فضا پنپ چکی ہے۔

جن ۱۰۴ بھارتی باشندوں کو امریکا سے نکالا گیا ہے اُن کا واپسی کا سفر ۴۰ گھنٹوں پر محیط تھا یعنی پرواز رُکتی ہوئی آئی تھی۔ اس دوران اُن کی ہتھکڑی نہیں کھولی گئی۔ ٹیکساس سے امرتسر تک اُنہیں شدید ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑا۔ کھانے پینے یا ٹوائلٹ جانے کے دوران بھی اُن کی ہتھکڑیاں نہیں کھولی گئیں۔ یہ معاملہ بھارتی پارلیمنٹ میں بھی اُٹھایا گیا۔ وزیر ِخارجہ ایس جے شنکر نے پارلیمنٹ کے فلور پر کہا کہ بھارتی حکومت ٹرمپ انتظامیہ سے رابطہ کرکے اِس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ جن بھارتی باشندوں کو غیر قانونی قیام کی پاداش میں واپس بھیجا جائے اُن سے بدسلوکی نہ کی جائے۔ دوسری طرف سابق حکمراں جماعت کانگریس اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں مودی سرکار سے سوال کر رہی ہیں کہ بھارتی باشندوں سے بیرونِ ملک ایسے گندے سلوک کی گنجائش پیدا ہی کیوں ہونے دی گئی۔

انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے بارہا کہا کہ غیر قانونی تارکین ِ وطن کے لیے امریکا میں قیام اور کام کی کوئی گنجائش نہیں۔ تب سے سوچا جارہا تھا کہ وہ دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہی اپنی بات پر عمل کریں گے۔ امریکا میں ایک کروڑ ۱۰ لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین ِ وطن ہیں جن میں سوا سات لاکھ بھارتی ہیں۔ یو ایس کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن ڈیٹا کے مطابق اکتوبر ۲۰۲۳ اور ستمبر ۲۰۲۴ کے دوران امریکا میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش کرنے والے ۹۰۴۱۵ بھارتی باشندوں کو گرفتار کیا گیا۔ ۴۳۷۶۴ بھارتیوں کو کینیڈین اور باقی کو میکسیکن سرحد سے گرفتار کیا گیا۔ اِن میں سے نصف گجرات کے تھے اور دیگر میں بیش تر کا تعلق پنجاب، ہریانہ اور آندھرا پردیش سے تھا۔

امریکی حکام نے غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے والے ۱۷۹۴۰ بھارتی باشندوں کی فہرست تیار کی ہے جو قانونی وسائل صرف کرچکے ہیں اور اب اُنہیں ملک بدر کیا جانا ہے۔ بھارتی میڈیا میں کہا جارہا تھا کہ حکومت کو ملک بدر کیے جانے والوں کا علم نہ تھا مگر ایس جے شنکر نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ امریکی حکام نے مودی سرکار کو مطلع کردیا تھا۔ امرتسر پہنچنے والے ۱۰۴ بھارتیوں میں سے ۳۳ گجرات کے، ۳۵ ہریانہ کے، ۳۱ پنجاب کے، ۳ اتر پردیش کے اور ۲ مہاراشٹر کے تھے۔ متعلقہ ریاستی حکومتوں نے اِن لوگوں کو اِن کے گھر پہنچانے کا اہتمام کیا تھا۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ جن لوگوں کو امریکا یا کہیں اور سے ڈی پورٹ کیا جاتا ہے پولیس اُن کی نگرانی کرتی رہتی ہے تاکہ انسانی اسمگلرز کے ریکٹ کو پکڑا جاسکے۔ اِن لوگوں کو پوچھ گچھ کا بھی سامنا رہتا ہے۔ بھارت میں انسانی اسمگلنگ کے بیسیوں گروہ کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ہر سال لاکھوں بھارتی باشندوں کو غیر قانونی طور پر امریکا اور یورپ میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں غیر قانونی داخلے کے انسانی اسمگلرز کو خطیر رقوم دی جاتی ہیں۔ کسی نہ کسی طور ملک سے نکلنے کے لیے لوگ گھر کی چیزیں بیچ دیتے ہیں، قرضے لیتے ہیں اور املاک گِروی بھی رکھنے سے گریز نہیں کرتے۔ دبئی، برطانیہ، افریقا اور جنوبی امریکا کے ممالک سے گزارتے ہوئے اِن لوگوں کو میکسیکن بارڈر تک پہنچایا جاتا ہے جہاں سے یہ غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

جنوری ۲۰۲۲ میں گجرات کے علاقے ڈِنگوچا سے تعلق رکھنے والی ایک فیملی امریکا اور کینیڈا کی سرحد پر ٹھٹھر کر مر گئی تھی۔ تب گجرات پولیس نے ۱۵ ایجنٹس اور دیگر ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کی تھی۔ بہر حال، انسانی اسمگلنگ کے سلسلے نے رُکنے کا نام نہیں لیا۔ عجیب اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ ایجنٹ غیر قانونی طور پر امریکا پہنچانے کے ۷۵ لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک لیتے ہیں۔ پنجاب میں یہ قیمت ۴۵ سے ۵۰ لاکھ روپے کے درمیان ہے۔ پاکستانی کرنسی میں کہا جائے تو یہ قیمت پونے دو کروڑ سے سوا تین کروڑ روپے کے درمیان ہے!

۲۰۰۹ سے اب تک ۱۵۷۵۶ بھارتی باشندے ڈی پورٹ ہوچکے ہیں۔ ۲۰۲۴ میں امریکا سے ۱۵۰۰ بھارتی باشندے ڈی پورٹ کیے گئے۔ واپس آنے والوں کو قرضوں اور افلاس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ذلت بھی جھیلیں گے کیونکہ اہل ِ خانہ، برادری اور علاقے کے لوگوں کے طعنے بھی تو سُننے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کا انداز دیکھ کر شاید بہت سوں کو ہوش آجائے وہ اپنے وطن ہی میں کام کرنے کا سوچیں۔ (انڈیا ٹوڈے)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: غیر قانونی طور پر امریکا امریکا میں غیر قانونی غیر قانونی تارکین بھارتی باشندوں کو ن لوگوں کو کی کوشش کر ا ن لوگوں ہیں اور

پڑھیں:

ڈونلڈ ٹرمپ اوراُن کے فیصلے

  نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا منصب سنبھالتے ہی بہت ہی تیزی اور پھرتی سے ایسے فیصلے کرنا شروع کردیے جن کی اُن سے توقع نہیں کی جارہی تھی۔خیال کیا جارہا تھاکہ وہ اس بار اُن غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے جو انھوں نے اپنے پہلے دورصدارت میں سرزد کی تھیں۔پہلے دور صدارت میں غیر ذمے دارانہ فیصلوں کی وجہ سے ہی وہ 2020 میں دوبارہ منتخب نہیں ہوپائے تھے ،حالانکہ تاثر یہ دیا جارہا تھا کہ انھیں زبردستی ہرایاگیا ہے۔

یہ حسن اتفاق ہے کہ پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم اور بانی تحریک انصاف اورامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بہت سے خصوصیت ایک جیسی ہیں۔ دونوں کا انداز حکومت بھی ایک جیسا ہی ہے۔دونوں ہی اپنی جیت کو اپنی ذاتی مقبولیت اورذہانت سمجھ کرمخالفوں کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں۔ وہ مخالفوں سے بات چیت تودور کی بات ،ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہیں۔حکومت سے معزول کیے جانے کو اپنی تضحیک اوربے عزتی سمجھتے ہوئے وہ احتجاج کی آخری حدوں کو چھولینے کو تیار رہتے ہیں۔جس طرح ہمارے یہاں 9 مئی کو جوکچھ ہوا ، اسی  طرز پرٹرمپ کے حامیوں نے واشنگٹن میں کیپیٹل ہلز پرہلہ بول دیا۔دونوں پرمقدمات بھی کچھ اسی طرح کے ہیں اوردونوں ہی قسمت کے دھنی تصور کیے جاتے ہیں۔

 آج جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھرمنتخب ہوکر امریکا کے حکمراں بن گئے ہیں ، بانی تحریک انصاف کے حامی بھی انھیں دوبارہ وزیراعظم دیکھنے کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ ہم سمجھا کرتے تھے کہ پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے۔ آج کے حکمراں کل کے قیدی اورآج کا قیدی کل کا حکمراں بن سکتا ہے۔مگر نہیں یہ سب کچھ امریکا میں بھی ممکن ہے۔ کسی سیاستدان کے خلاف بے شمار مقدمات بنائے بھی جاتے ہیں اوروقت بدلنے پروہ سارے مقدمات یکسر ختم بھی کردیے جاتے ہیں بلکہ دوبارہ صدارت یا وزارت عظمیٰ کے منصب سے سرفراز بھی کردیا جاتا ہے۔

یہی کچھ آج ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہوچکا ہے ، اُن پر کیپٹل ہلز پرحملے سمیت سارے مقدمات ختم کردیے گئے ہیں اورجس میں وہ سزا کے مستحق بھی سمجھے جارہے تھے انھیں بھی معطل کردیا گیا ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی سخت ناپسندیدگی کے باوجود وہ آج امریکا کے دوبارہ صدر منتخب ہوچکے ہیں بلکہ جلد بازی اورعجلت میں وہ ایسے خطرناک فیصلے بھی کررہے ہیں جن کے نتائج خود امریکا کے حق میں اچھے نہیں ہونگے۔ ایسا لگتا ہے وہ اسٹبلشمنٹ سے اپنا بدلہ چکا  رہے ہیں۔

وہ آج جو فیصلے کررہے ہیں اگر اپنی انتخابی مہم میںاُن کاعندیہ دے دیاہوتا تو شاید وہ اتنی اکثریت سے جیت بھی نہیں پاتے۔ امریکا میں رہنے والے مسلمانوں نے انھیں اپنے لیے بہتر سمجھ کرانھیں بھاری تعداد میں ووٹ بھی دیاتھا مگر اقتدار میں آتے ہیں انھوںنے فلسطین اورغزہ سے متعلق جواپنے ارادے اورعزائم ظاہر کیے ہیںاُن سے وہاں کے مسلمانوں کو بہت مایوسی ہی ہوئی ہے۔اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہوکے ساتھ پریس کانفرنس میں انھوں نے جس یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے وہ دنیا کے مسلمانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔

ساتھ ہی ساتھ انھوںنے کینیڈا ، فرانس اورچین کو بھی اپنا دشمن بناڈالا ہے۔غزہ کے فلسطینیوں سے ہمدردی کرنے کے بجائے انھوں نے انھیں اپنی ہی سرزمین سے بے دخل کردینے کی باتیں کی ہیں اوربظاہر تعمیرنو کے نام پروہاں اپنا قبضہ قائم کرنے کے ارادوں کا جو اظہار کیا ہے اُس نے ساری دنیا کو ابتلا میں مبتلا کردیا ہے،جو مسلمان انھیں اپنا خیرخواہ سمجھ رہے تھے انھیں جان لینا چاہیے کہ ٹرمپ اپنے سابقہ حکمرانوں سے مختلف نہیں ہیں ۔امریکا میں خواہ کوئی بھی شخص حکمران بن جائے لیکن اُس کی اولین ترجیح اسرائیل کی حمایت اورگریٹر اسرائیل کی تعمیر ہی ہوتی ہے۔

خلیج اورمڈل ایسٹ کے اسلامی ممالک کی تعریف اورتوصیف کے پیچھے بھی اُن کے وہی عزائم کارفرما ہوتے ہیں۔جناب ٹرمپ نے آتے ہی اپنے اس مشن پرکام شروع کردیا ہے۔ سوا سال جاری رہنے والی غزہ کی جنگ کے خاتمے کاکریڈٹ اپنے نام کرکے جس طرح انھوں نے وہاں تعمیرنو کی باتیں کی ہیں وہ دراصل گریٹر اسرائیل کی جانب ہی اُن کے عزائم کی نشان دہی کررہا ہے۔دنیا کے دیگر ممالک سے درآمد کی جانے والی اشیاء پراضافی ٹیکس لگا کرانھوں نے ایک اوربڑا فیصلہ کرڈالا ہے ۔اِن فیصلوں کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔

اس سے قطع نظرانھوں نے اپنی دانست میں ایک درست فیصلہ کیا ہے۔جس طرح ہمارے بانی تحریک انصاف صوبہ پنجاب میں عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ لگاکرایک دانشمندانہ فیصلہ تصورکرتے رہے ہیں اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنے ایسے ہی فیصلوں کو انتہائی دانشمندانہ سمجھتے ہیں۔اُنکی باڈی لینگویج اورانداز گفتگو اس بات کا غماز ہے کہ جیسے سارے امریکا میں وہی ایک سب سے ذیادہ ذہین اورعقلمند شخص ہیں۔اُپنی اس خوش فہمی میں وہ یکے بعد دیگرے غلط اورخطرناک فیصلے کرتے جارہے ہیں جن کا خمیازہ آنے والے دنوںمیں امریکا ہی نہیں ساری دنیا بھگتے گی۔وہ دنیا کو ایک بڑی جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

ایسا لگتا ہے اُن کے پاس وقت بہت کم ہے اوروہ بہت ہی عجلت میں امریکا کو ایک نئی شکل دینا چاہتے ہیں۔ نئے پاکستان کی طرح نیا امریکا جنم لے رہا ہے جس کا دنیا میں شاید ہی کوئی دوست باقی رہے ، وہ سب سے دشمنی مولتے جارہے ہیں۔ یورپی ممالک ابھی اُن کے فیصلوں کو بغوردیکھ رہے ہیں۔ وہ اپنا مؤقف اورجواب بعد میں ظاہرکرینگے ۔ٹرمپ جب اس بازیچہ اطفال سے کھیل کرتھک چکے ہونگے پھر اُن کی طرف سے کوئی ری ایکشن یاردعمل ظاہرکیاجائے گا۔ٹرمپ کے سارے فیصلے اِن میچوراورعاجلانہ ہیں۔ہر روز اُن کا کوئی ایسا فیصلہ آجاتا ہے جس پرساری دنیا تبصرہ کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیںکہ اس طر ح وہ دنیا کی خبروں میں دیر تک زندہ اورمقبول رہیں گے۔

ابھی عہدہ صدارت سنبھالے انھیں ایک ماہ بھی نہیںگزرا ہے اورانھوں نے بے شمارمتنازع فیصلے کرڈالے ہیں۔وہ خود کو دنیا کاسب سے طاقتورحکمراں سمجھ کر غلطیوں پر غلطیاں کرتے جارہے ہیں ۔

فی الحال اُن کی توجہ مشرق وسطیٰ پرمرکوز ہے۔ پاکستان اُنکی نظرالتفات سے محروم ہے۔ وہ جب ایک محاذسے نمٹ چکے ہونگے تو پھر انھیں ہمارا جوہری پروگرام اورسی پیک یاد آئے گا۔ اپنے پچھلے دور میں انھوں سی پیک پرقدغنیں لگاکر اسے رول بیک کروادیاتھا۔ اب دیکھتے ہیں وہ کیاکرتے ہیں، ہم پاکستانیوںکو اُن سے وفا کی کوئی امید نہیںرکھنا چاہیے۔امریکا کاکوئی بھی حکمراں ہماری محبت میں اپنا سینہ چوڑا نہیں کرے گا۔ جس طرح وہ اسرائیل کے لیے کرتا رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں شاندار استقبال کیے جانے کو اپنا اعزاز سمجھ کرکاندھے اچکانے کے بجائے ہمیں اس حقیقت کو ہرگز فراموش نہیںکرنا چاہیے کہ اس استقبال کے پیچھے بھی ان کے مکروہ عزائم کارفرما ہوتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • خدا کی لاٹھی اور اندھے کا لٹھ
  • فلسطینیوں کو غزہ واپسی کا حق نہیں دیا جائے گا، صدر ٹرمپ
  • امریکا افغانستان میں دوبارہ جنگ پر غور کررہا ہے، مولانا فضل الرحمان
  • چیمپیئنز ٹرافی؛ جسپریت بمراہ کی بھارتی اسکواڈ میں شمولیت سے متعلق اہم پیشرفت
  • ڈونلڈ ٹرمپ اوراُن کے فیصلے
  • انٹر بورڈ کراچی؛ چیئرمین اور سیکریٹری کے عہدے سے فارغ کیے گئے افسر سے گاڑیوں کی واپسی کا تقاضا 
  • لڑکی کی محبت میں پاکستان آنیوالے بھارتی شہری بابو بادل نے وطن واپسی سے انکار کردیا
  • ملک بدر بھارتی امریکی فوجی طیارے میں وطن واپس بھیج دیے گئے
  • توازن، چین اور امریکا