غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ 15 ماہ تک اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور جنگی جرائم کے نتیجے میں ہولناک تباہی اور ہلاکتوں کے بعد بے بس فلسطینیوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا، اب یہاں امن کی صورتحال بہتر ہوگی، تعمیر ِ نو کا کام شروع ہوگا، تعلیمی ادارے دوبارہ کھل جائیں گے،کاروبارِ زندگی معمول پر آجائے گا اور زندگی پھر سے سانس لینے لگے گی، مگراس معاہدے کی سیاہی ابھی خشک بھی نہ ہونے پائی تھی کہ امریکی صدر نے اپنی زبنیل ِ عیاری سے وہ ترپ کا وہ پتا پھینکا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ’’ہم غزہ پر قبضہ کر لیں گے‘‘۔ اب اسی نوع کی چال نیتن یاہو چلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اْسی پرانے بیانیے کی جگالی کر رہے ہیں جو ماضی میں دیتے رہے ہیں، کہتے ہیں سعودی عرب کے پاس بہت زمین ہے وہاں فلسطینیوں کو آباد کر کے ایک الگ فلسطینی ریاست بنادی جائے، 7 اکتوبر 2023 کے بعد فلسطینی ریاست کا تصور ختم ہوگیا ہے، فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، دو ریاستی حل تسلیم نہیں۔ نیتن یاہو کے اس بیان پر سعودی عرب، پاکستان، ترکی، مصر، اردن، ایران نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے قابل ِ مذمت، اشتعال انگیز اور بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فلسطینیوں کو ایک آزاد و خود مختار ریاست کے قیام کا حق حاصل ہے۔ سعودی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کا فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا بیان غزہ میں سنگین جنگی جرائم سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی منظور نہیں، فلسطینیوں کو ان کا جائز حق مل کر رہے گا، یہ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا، سابق سعودی انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے بھی اس امر کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر فلسطینیوں کو غزہ سے منتقل کرنا ہے تو اْن کے آبائی علاقوں جافا، حیفہ اور دیگر مقامات پر بھیجا جائے جہاں ان کے زیتون کے باغات تھے اور انہیں اسرائیل نے ان علاقوں سے زبردستی بے دخل کردیا تھا۔ اس بیان سے پیدا ہونے والی صورتحال پر 27 فروری کو عرب سربراہ اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بے پناہ طاقت کے استعمال کے باوجود اسرائیل غزہ میں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے، حماس کو گھٹنے ٹکوانے کے بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں، حماس آج بھی ایک زندہ عسکری حقیقت ہے، جو اس کے لیے سوہانِ روح اور ڈراؤنا خواب ہے، جب کہ قیدیوں کے تبادلے کے موقع پر حماس نے جو حکمت ِ عملی مرتب کی ہے اس کے نتیجے میں پوری دنیا ہی نہیں خود اسرائیل میں اس کے دعوؤں کی بھد اُڑائی جارہی ہے، جدید ترین اسلحے، توپ، ٹینک اور عسکری طاقت کے باوجود غزہ اسرائیل کی حربی ٹیکنالوجی کے قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے، اس کھلی ناکامی کے خود اسرائیلی حکام بھی معترف ہیں، اسرائیلی آرمی چیف کا اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا اس امر کا کھلا ثبوت ہے، اسرائیلی عوام بھی قومی سلامتی اور تحفظ کے اقدامات پر سوال اٹھا رہے ہیں، اسے داخلی اور خارجی سطح پر دباؤ کا سامنا ہے، اس تناظر میں اس نوع کے بیانات کے ذریعے اسرائیل اپنی ذمے داریوں سے فرار کی راہ تلاش کر رہا ہے۔ انسانی تاریخ اس امر کی حقیقت پر دال ہے کہ جارح قوت اپنی تمام تر طاقت اور آلات ضرب و حرب کے باوجود بھی جب مخالف فریق کو جنگی میدان میں زیر نہیں کرپاتی تو وہ اعصابی و نفسیاتی حربے استعمال کرنا شروع کردیتی ہے، علامتی فتوحات (Symbolic Victories) کی حکمت عملی مرتب کی جاتی ہے، امریکا اور اسرائیل اپنے اپنے جارحانہ تجربات سے اس امر میں طاق ہو چکے ہیں اور اپنی خفت مٹانے کے لیے اسی حربے کو بروئے کار لا رہے ہیں، مغرب سیاست میں میکاولی کے جس نظریے پر عمل پیرا تھا اسرائیل بھی اسی نظریہ پر گامزن ہے جس کے تحت ریاست کے مفادات اور طاقت کے تحفظ کے لیے اخلاقی اصولوں اور ظالمانہ اقدامات بھی روا رکھے جاتے ہیں۔ نیتن یاہو کے جارحانہ بیانات، رعونت پر مبنی لب و لہجہ اور غیر حقیقت پسندانہ عزائم کا اظہار دراصل جارحانہ سفارت کاری کی اس جنگی حکمت ِ عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ مخالف فریق کو دباؤ میں رکھا جاسکے اور اپنی برتری ظاہر کی جاسکے۔ اس حکمت ِ عملی پر امریکا نے عراق، کیوبا، شمالی کوریا اور دیگر ممالک کے خلاف عمل درآمد کیا، جس کی اتباع میں اب اسرائیل یہی حربے آزما رہا ہے، تاہم خوش آئند امر یہ ہے کہ حماس ایسے کسی دباؤ میں نہیں آئے گی۔ غزہ جنگ کے موقع پر جب اسرائیل نے غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والے نیٹزاریم کوریڈور پر قبضہ کر کے اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا تو حماس کی بالغ نظر دور اندیش قیادت نے اس ’’علامتی فتح‘‘ کو عراق جنگ کے دوران امریکی حکمت ِ عملی کو ’’علامتی فتوحات‘‘ سے تعبیر کیا اور صاف لفظوں میں کہا کہ وہ ان چالوں میں نہیں آئے گی اور مزاحمت جاری رہے گی اور یہی ہوا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ فلسطینی اپنی تاریخی اور ثقافتی وابستگی سے کسی صورت دست بردار نہیں ہوں گے، اپنے حقوق کی پامالی انہیں برداشت نہیں، سعودی عرب سمیت کسی بھی خطے میں فلسطینیوں کی آبادکاری کسی طور نافذ ِ عمل نہیں ہوسکتی، اس عمل سے خطہ جو پہلے ہی جنگ کے الاؤ سے دہک رہا ہے مزید شعلہ بار ہوگا، کشیدگی بڑھے گی۔ غزہ پر قبضے کے بیانات کے بعد عرب دنیا میں ایک سراسیمگی اور اضطراب کی سی کیفیت ہے، اس مسئلے پر تمام عرب شیوخ ایک پیج پر نظر آرہے ہیں، نیتن یاہو کے بیان کے بعد تو عرب سربراہ اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے مگر اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے، کے مصداق تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں مسلم حکمرانوں بالخصوص عرب رہنماؤں کی مجرمانہ خاموشی کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، جو طاقت کے آگے زیر ہوگئے، جنہوں نے ملی مفادات کا سودا کیا، پہلے دو ریاستی فارمولے پھر اسرائیل کو تسلیم کیا، اس سے سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کیے، معاہدہ اوسلو پر راضی ہوئے، المیہ یہ ہے کہ غزہ جنگ کے موقع پر بھی جو اجلاس منعقد کیا گیا اس میں بھی کوئی موثر آواز بلند نہیں کی گئی، رسمی مذمت کے ساتھ یہ اجلاس نشستند، گفتند، برخاستند ثابت ہوئی، عالمی طاقتوں نے خلافت ِ عثمانیہ کے خلاف اسی دن کے لیے سازشیں تیار کی تھیں، معاہدہ سائیکس، پیکو کے تحت مشرقِ وسطیٰ کی بندربانٹ کا منصوبہ بھی اسی لیے بنایا تھا کہ قومی ریاستیں قائم کر کے ان پر اپنے پٹھوؤں کو بٹھاکر مسلم وحدت و قوت کو پارہ پارہ کیا جاسکے، آج کی صورتحال اسی عاقبت نا اندیشانہ عمل کا ثمر ہے، تاریخ کے اس المناک باب کے اوراق پلٹ کر کیسے گزرا جاسکتا ہے جس میں درج ہے کہ ان عرب شیوخ کے آبائو اجداد نے اپنی عرب ریاست کے قیام کی لالچ میں مسلم وحدت پر کاری ضرب لگائی تھی۔ پیش آمدہ صورتحال سے عہدہ برآ ہونے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ مسلم حکمران اس مسئلے پر مشترکہ موقف اختیار کریں، اسرائیل سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کریں، عملی، ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کریں، آزادی کی جدوجہد کرنے والے فلسطینیوں کی کھل کر نا صرف اخلاقی، وسفارتی بلکہ عسکری مدد بھی کریں تاکہ اسرائیل اپنے عزائم سے باز رہ سکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کی فلسطینیوں کو نیتن یاہو یہ ہے کہ رہے ہیں طاقت کے کے لیے کے بعد رہا ہے جنگ کے
پڑھیں:
کسی میں جرات نہیں ہے کہ وہ اہل غزہ کو ان کی آبائی وطن سے نکالے. طیب اردوان
انقرہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10 فروری ۔2025 )ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے امریکی ہم منصب کے بیان کو بے کار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی میں یہ جرات نہیں ہے کہ وہ اہل غزہ کو ان کی آبائی وطن سے نکالے” ترکیہ ٹو ڈے“ کے مطابق ملائیشیا روانگی سے قبل رات گئے استنبول ایئرپورٹ پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر رجب طیب اردوان نے کہاکہ کسی کے پاس یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ غزہ کے لوگوں کو ان کے ابدی وطن سے نکال سکے جو ہزاروں سالوں سے موجود ہے غزہ مغربی کنارہ اور مشرقی بیت المقدس فلسطینیوں کے ہیں.(جاری ہے)
صدر اردوان نے غزہ کے بارے میں امریکی انتظامیہ کی تجاویز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ تجاویز صہیونی حکومت کے دباﺅمیں پیش کی گئی ہیں انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلسطینیوں کی منتقلی کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے اسے بات چیت کے قابل نہیں قرار دیا شام کے بارے میں صدر اردوان نے اسد حکومت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شام کے مختلف حصوں میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبریں اس کے ظالمانہ اقدامات کو بے نقاب کر رہی ہیں. اردوان نے صدر احمد الشرا کی قیادت میں شام کے استحکام کی امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جلد ہی امن قائم ہو جائے گا صدر ایردوان نے کہا کہ شام میں دہشت گرد گروہوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور صدر الشرع ان گروہوں کے خلاف لڑیں گے. صدر اردوان نے قیدیوں کے تبادلے کے عمل میں خلل ڈالنے کی اسرائیلی کوششوں کے باوجود اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے پر حماس کی بھی تعریف کی واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے غزہ میں مقیم 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو بے دخل کرنے اور اس کی تعمیر نو کی تجویز پر عالمی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور اس تجویز نے عرب اور مسلم دنیا کو مشتعل کردیا ہے. اس سے قبل اتوار کے روز فلسطینی ٹیلی ویژن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فدان نے غزہ سے فلسطینیوں کو زبردستی نکالنے کے خیال کو مسترد کر دیا تھا ترکی کے سرکاری ٹی وی کے مطابق ترک وزیر خارجہ نے ٹرمپ کی تجویز کو تاریخی طور پر جاہلانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی نقل مکانی ناقابل قبول ہے.