حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)ٹنڈوجام کے نزدیک کھٹیاں اسٹیشن دیھ رئیس روڈ کے قریب غیر قانونی اینٹوں کے بھٹوں کے خلاف مکین سراپا احتجاج زہریلے دھوئیں سے جلد اور سانس کی بیماریاں پھیلنے لگی علاقہ مکین پریشا نیوں میں مبتلا ہوگئے۔مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے اورنگزیب بھٹی، محمد رئیس، محمدعرب، وحید نودانی، شاہنواز چانڈیو، امین رئیس اورقربان چانڈیو ودیگر نے کہا کہ بھٹوں کے زہریلے دھوئیں سے سانس جلد اور دیگر امراض پھیل رہے ہیں جس کی وجہ سے مکینوں کو پریشانیوں کا سامنا ہے اور پورے علاقہ دیھ رئیس کا پانی خارہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے کہا زرعی زمینوں کو نقصان ہو رہا ہے ہم فصل لگاتے ہے فصل تباہ ہو جاتی ہے ان بھٹوں کی وجہ سے نجی ہائوسنگ اسکیموں سمیت اہل علاقہ کے لوگوں نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا کہ بھٹوں کے خلاف ایکشن لے کرختم کروایا جائے اور ماحول کی آلودگی کو ختم کیا جائے تاکہ علاقہ مکینوں کو بیماریوں سے نجات حاصل ہوسکے اور بھٹہ معافیا افغانی پٹھان لوگوں کو ہتھیاروں کا زور دکھا کرڈرانے لگے انتظامیہ نے نوٹس نہیں لیا تو احتجاجی تحریک چلائیں گے اور بڑے پیمانے پر احتجاج کریں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

تنہائی میں بھی پاکیزگی اختیار کیجیے۔۔۔ !

خلوت، عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی تنہائی اور علاحدگی ہے۔ دنیاوی زندگی میں خلوت یعنی تنہائی انسان کے لیے اچھائی اور برائی کے درمیان ایک کش مکش کا سبب ہوتی ہے۔

ایک طرف شیطان و شیطانی قوت بُرائی کی لذت کو خوب صورت و مزیّن صورت میں پیش کرتی ہے تو دوسری جانب ایمان و ایمانی طاقت اسے بتاتی ہے، اﷲ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے، تیری ہر بات کو سن رہا ہے، وہ تیرے ساتھ ہے۔ ’’تیری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔‘‘ لہٰذا: ’’جہاں کہیں بھی ہو اﷲ سے ڈرو۔‘‘ (جامع ترمذی) اور: ’’اﷲ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون اﷲ تعالیٰ سے غائبانہ ڈرتا ہے۔‘‘ (المائدہ) چناں چہ ان دو میں سے ایک ندا پر انسان لبیک کہتے ہوئے پھر یا تو اپنی نیکیوں کی بربادی کا راستہ اختیار کرتا ہے یا اﷲ تعالیٰ کے ہاں خوف و خشیت پر موعود تمام انعامات و بشارات کا مستحق بنتا ہے۔

اسی آزمائش کو اﷲ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں یوں ذکر فرمایا ہے، مفہوم:

’’اے ایمان والو! اﷲ ایسے شکار کے ذریعے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور تمہارے نیزوں کی زد میں ہوں گے، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اﷲ سے ڈرتا ہے۔‘‘ (المائدہ)

عصر حاضر میں یہ شکاری جس کے ذریعے تنہائی میں ہر انسان ایک آزمائش میں مبتلا ہے وہ آج اس کے ہاتھ کا کنگن اسمارٹ فون ہے۔ جس کے صارفین کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ ارب کے لگ بھگ ہے اور اس کی رسائی برائی اور گناہ کے تمام اسباب و صورتوں تک اس قدر وسیع و سریع ہے کہ ایک کلک پر اس کی ہوش ربا صورتیں منکشف ہو کر اس کے ایمان و اعمال کواپنے گھیرے میں لے کر دیمک کی طرح چاٹ کر صاف کر دیتی ہیں۔ حتیٰ کہ بہت سے نیک، شریف النفس و سلیم الفطرت طبقات بھی نافرمانی، شہوت رانی کے ٹھاٹھیں مارتے سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق، مفہوم: ’’یہی وہ لوگ ہیں جن کے تمام (نیک) اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے۔‘‘ کا مصداق بنتے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ نے انسان میں طبعی طور پر یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ نیکی کے ماحول اور شرم و حیاء کے وصف کی بناء پر لوگوں کے سامنے بہت سے گناہوں سے صرف اس جذبہ کی بناء پر محفوظ رہتا ہے کہ ’’دیکھنے والے کیا کہیں گے‘‘ مگر تنہائی میں جب بہ ظاہر ہر نظر سے اوجھل ہوتا ہے اور صرف ایک اﷲ کی نظر کے سامنے ہوتا ہے، اپنے آپ کو برائی و گناہ کے سپرد کر بیٹھتا ہے۔ حقیقت میں یہی اس کی حقیقی کیفیت اور اصلی چہرہ ہوتا ہے۔ جو بہ ظاہر لوگوں سے پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس لیے خلوت (تنہائی) میں کیا گیا عمل ہمیں ہماری پہچان دیتا ہے کہ ہم اصلاً اچھے ہیں یا بُرے۔

اسی کیفیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے کسی نے کہا تھا:

بہت مشکل ہے بچنا بادۂ گلگوں سے خلوت میں

بہت آسان ہے یاروں میں معاذ اﷲ کہہ دینا

اور نبی کریم ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے، مفہوم: ’’اے اﷲ! میرے باطن کو میرے ظاہر سے اچھا کردے۔‘‘ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’تین چیزیں باعث نجات ہیں، غضب اور خوشی دونوں صورتوں میں عدل کرنا، امیری اور فقیری میں میانہ روی اختیار کرنا اور خلوت (تنہائی) اور جلوت (ہجوم) میں اﷲ کا خوف قائم رکھنا۔‘‘ یہی تنہائی میں خوف و خشیت ’’صفت احسان‘‘ کا تقاضا ہے یعنی: ’’تم اﷲ تعالیٰ کی بندگی ایسے کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اﷲ تعالیٰ کو نہیں دیکھ رہے تو (یقین رکھو) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ چناں چہ ظاہر میں نیک رہنا اور چھپ کر گناہ کرنا تقویٰ نہیں بل کہ ریاکاری ہے۔

حضرت عدی بن حاتمؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’قیامت کے دن کچھ لوگوں کو جنّت کی طرف لے جانے کا حکم ہوگا یہاں تک کہ جب وہ جنت کے قریب پہنچ کر اُس کی خوش بُو سونگھیں گے، اس کے محلات اور اس میں اہل جنّت کے لیے اﷲ تعالیٰ کی تیار کردہ نعمتیں دیکھ لیں گے تو آواز دی جائے گی: انہیں جنت سے لوٹا دو کیوں کہ ان کا جنت میں کوئی حصّہ نہیں۔ (یہ ندا سن کر ) وہ ایسی حسرت کے ساتھ لوٹیں گے کہ ان جیسی حسرت کے ساتھ ان سے پہلے لوگ کبھی نہ لوٹے ہوں گے۔ پھر وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! اگر تو اپنا ثواب اور اپنے نیک بندوں کے لیے تیار کردہ نعمتیں دکھانے سے پہلے ہی ہمیں جہنم میں داخل کر دیتا تو یہ ہم پر زیادہ آسان ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں نے ارادتاً تمہارے ساتھ ایسا کیا (اور اس کی وجہ یہ ہے کہ) جب تم تنہائی میں ہوتے تھے تو بڑے بڑے گناہ کرکے میرے ساتھ اعلان جنگ کرتے تھے اور جب لوگوں سے ملتے تھے تو عاجزی و انکساری کے ساتھ ملتے تھے اور لوگوں کو اپنی وہ حالت دکھاتے تھے جو تمہارے دلوں میں میرے لیے نہیں ہوتی تھی۔ تم لوگوں سے ڈرتے تھے مگر مجھ سے نہیں ڈرتے تھے۔ تم لوگوں کی عزت کرتے تھے مگر میری نافرمانی کرتے تھے۔ تم لوگوں کی وجہ سے بُرا کام کرنا چھوڑ دیتے تھے لیکن میری وجہ سے برائی نہ چھوڑتے تھے۔ آج میں تمہیں اپنے ثواب سے محروم کرنے کے ساتھ اپنے عذاب کا مزہ بھی چکھاؤں گا۔ (معجم الاوسط)

چناں چہ تنہائی کے گناہ اﷲ تعالیٰ کے غضب و قہر کے نزول کا سبب ہیں۔ اسی لیے حضرت علی ؓ فرمایا کرتے تھے: ’’تنہائی میں اﷲ تعالیٰ کی مخالفت کرنے سے ڈرو کیوں کہ جو گواہ ہے وہی حاکم ہے۔‘‘ (نہج البلاغہ) جب گواہ اور گرفت پر قادر ایک ہی ہستی ہوگی تو سزا سے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہو سکتا۔ مزید برآں ابن ماجہ کی روایت میں تنہائی کے گناہ کی سزا میںسب نیک اعمال کے ضیاع و بے کار جانے کی وعید بھی مذکور ہے۔

حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے دن تہامہ (مکہ مکرمہ کا ایک نام) کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے اﷲ تعالیٰ ان کو فضا میں اڑتے ہوئے ذرّے کی مانند بنا دے گا۔‘‘ حضرت ثوبانؓ نے عرض کیا: اﷲ کے رسول ﷺ ان لوگوں کا حال ہمیں بیان فرمائیے اور کھول کر بیان فرمائیے تاکہ لا علمی اور جہالت کی وجہ سے ہم ان میں سے نہ ہوجائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جان لو کہ وہ تمہارے بھائیوں میں سے ہیں اور تمہاری قوم میں سے ہیں۔ وہ بھی رات کو اسی طرح عبادت کرتے ہوں گے جیسے تم عبادت کرتے ہو۔ لیکن وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب تنہائی میں ہوں گے تو حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے۔‘‘ (ابن ماجہ)

اگر ہم تنہائی میں درپیش خطرات ِگناہ اور ارتکاب معصیت پر نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان روایات میں ہمارے زمانے کے موبائل فون کی تنہائی کی تباہ کاریوں کا بھی تذکرہ ہے۔ چناں چہ خلوت کی حفاظت کے متعلق آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’جو کام لوگوں کے سامنے کرنے کو ناپسند کرتے ہو وہ تنہائی میں بھی نہ کیا کرو۔‘‘ (جامع صغیر) جیسا کہ تنہائی میں گناہوں کے ارتکاب پر سخت و عیدیں منقول ہیں ایسے ہی تنہائی میں (برائی کے اسباب مہیا ہونے کے باوجود) یادِ الہٰی اور خشیت و تقویٰ پر اجر ثواب بھی بہت زیادہ ہے۔ حضرت قتادہ ؓ سے روایت ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص (تنہائی میں) کسی حرام کام پر قادر ہو پھر اسے صرف اﷲ کے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے تو اﷲ تعالیٰ آخرت سے پہلے دنیا ہی میں اس کا ایسا بدل عطا فرماتا ہے جو اس حرام کام سے (بہ درجہ) بہتر ہو۔ (جامع الاحادیث)

حضرت کعب الاحبارؓ بیان فرماتے ہیں: ’’جس نے ایک رات بھی اﷲ تعالیٰ کی ایسے عبادت کی کہ اسے کوئی جاننے والا نہ دیکھے تو وہ گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے (سورج طلوع ہوتے ہی) اپنی رات سے نکل جاتا ہے۔ (حلیۃ الاولیاء)

ایسے ہی ایک دوسری روایت میں منقول ہے۔ حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص کو (تنہائی میں) کسی عورت نے برائی کی دعوت دی اور وہ محض اﷲ کے خوف کی وجہ سے اس سے باز رہا تو قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اسے عرش کے سایے میں جگہ عطا فرمائے گا۔‘‘ (معجم الکبیر) ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’سات طرح کے لوگ وہ ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ اپنے سایہ میں پناہ دے گا ان میں ایک وہ شخص بھی ہے جس نے تنہائی میں اﷲ کو یاد کیا تو (خوف یا محبت کی وجہ سے) اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔‘‘ (بخاری) نیز حضرت علیؓ سے مروی ہے: ’’جس نے اﷲ تعالیٰ کے خوف سے اور اُس کی رضا حاصل کرنے کی خاطر (تنہائی میں) گناہ چھوڑ دیا تو اﷲ تعالیٰ اسے راضی فرمائے گا۔‘‘ (کنزالعمال)

چناں چہ جیسے اس موبائل فون کے غلط استعمال سے تنہائی میں نافرمانی باعث غضب الہٰی ہے، ایسے ہی ہر معصیت و نافرمانی کی صورت کو تنہائی میں اختیار کرنے پر قدرت کے باوجود محض رضا باری تعالیٰ کی خاطر اختیار نہ کرنے پر اجر و ثواب بھی بے حد و حساب ہے۔ البتہ اس حفاظت کو رحمت و فضل اﷲ رب العزت سمجھے۔ حدیث میں ظاہر و باطنی گناہوں سے بچنے کے لیے ایک دعا تعلیم فرمائی گئی ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ تنہائی کے گناہوں سے حفاظت کے لیے اسے اپنا معمول بنائے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے یہ دعا سکھائی، مفہوم:

’’اے اﷲ! میرے باطن کو میرے ظاہر سے اچھا کردے اور ظاہر کو نیک و صالح بنا دے۔ اے اﷲ! میں تجھ سے لوگوں کو عطا کی جانے والی بہترین چیزیں یعنی مال، اچھا گھربار اور وہ اولاد مانگتا ہوں جو نہ گم راہ ہو اور نہ گم راہ گر ہو۔‘‘ (ترمذی)

اسی لیے تنہائی کے لمحات ایک بیش قیمت خزانہ ہے جس کے خطرات اور ہلاکت کے ذرایع معصیت اور ارتکاب گناہ ہے اور اس کی حفاظت کا سامان خوف و خشیتِ باری تعالیٰ ہے۔

اﷲ  تعالی ہمیں ہر حال میں  رضائے الہی کا خُوگر بنائے رکھے اور ہم سے راضی ہوجائے۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • پشاور، جماعت اسلامی کیجانب سے اسرائیل کیخلاف بھرپور احتجاج
  • آئی ایس او کراچی کے تحت فلسطین پر جاری مظالم کیخلاف احتجاجی مظاہرے
  • فلسطین میں اسرائیلی ظلم و بربریت، ایم ڈبلیو ایم کا ضلع غربی کراچی میں احتجاج
  • غزہ میں اسرائیلی جارحیت، جماعت اسلامی کا سندھ بھر میں احتجاج
  • جماعت اسلامی کے تحت غزہ میں اسرائیلی جارحیت کیخلاف سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرے
  • تیمرگرہ میں سکیورٹی فورسز کاآپریشن، ہائی ویلیو ٹارگٹ حفیظ اللہ  سمیت 2خوارج ہلاک
  • وہ دن جس کا وعدہ ہے
  • کینالزمنصوبے کیخلاف قرارداد قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل نہ کرنے پرپیپلزپارٹی کا احتجاج
  • تنہائی میں بھی پاکیزگی اختیار کیجیے۔۔۔ !
  • سندھ کے پانی کے پر ڈاکا ڈالنے نہیں دیں گے،لوگ اپنے حق کیلئے نکلیں، آفاق احمد