عمران خان کے زمانے میں جنرل باجوہ اور وزیراعظم دونوں یو اے ای کے دورے پر گئے‘ متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زید النہیان کے ساتھ ان کی ملاقات تھی‘ ملاقات کا مقصد اسٹیٹ بینک میں 3ارب ڈالر ڈیپازٹ کرانا تھے تاکہ پاکستان ڈیفالٹ سے بچ سکے۔
یو اے ای کے صدر نے رقم دے دی لیکن ساتھ ہی مشورہ دیا ’’وزیراعظم آپ اپنے لوگوں کو دولت بنانے دیں‘ یہ دولت بنائیں گے تو ملک چلے گا ورنہ آپ اسی طرح دوسرے ملکوں کے پیچھے دوڑتے رہیں گے۔
عمران خان کو یہ مشورہ اچھا لگا لہٰذا اس نے واپس آ کر معیشت کو کھول دیا اور یوں ملک کا معاشی پہیہ چلنے لگا اور پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ چھ فیصد کراس کرگئی لیکن اس کے بعد حکومت بدل گئی اور ہم نے ایک بار پھر ملک کو صفر سے اسٹارٹ کر لیا۔
ایف بی آر کے موجودہ چیئرمین راشد لنگڑیال نے چند دن قبل معیشت کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں ٹیکس کے اعدادوشمار دیے‘ ان کے انکشافات کے مطابق25 کروڑ لوگوں کے ملک میں صرف 12 افراد ہیں جن کی دولت 10 ارب سے زیادہ ہے جب کہ 10 کروڑ روپے کے اثاثوں سے زیادہ صرف 3500 لوگ ہیں۔
اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں‘ ایک ہماری معیشت خفیہ ہے‘ لوگ اپنے اثاثے ظاہر نہیں کر رہے اور دو سرا ہماری معیشت کا سائز بہت چھوٹا ہے‘ ہم اگر تحقیق کریں تو ہم میں یہ دونوں نقص موجود ہیں‘ اول لوگ اپنی دولت چھپا کر رکھتے ہیں‘ اس کی وجہ ریاست کا رویہ ہے‘ ریاست عوام کے ساتھ ڈاکوؤں جیسا سلوک کرتی ہے۔
یہ لوگوں سے دن رات چھینتی رہتی ہے اور اس کے بدلے میں انھیں دیتی کچھ نہیں‘ میری اپنی آمدنی کا پچاس فیصد حکومت لے لیتی ہے لیکن اس کے بدلے میں آج تک اس نے مجھے صحت کی سہولت دی اور نہ تعلیم کی‘ میں اپنا کوڑا تک خود اٹھاتا اور اسے ٹھکانے لگاتا ہوں‘ سیکیورٹی کا بندوبست بھی خود کرنا پڑتا ہے اور یہ ذمے داریاں صرف یہاں تک محدود نہیں ہیں بلکہ دوسرے پچیس تیس لوگوں اور ان کے خاندانوں کا بوجھ بھی میرے سر پر لدا ہے۔
یہ لوگ بظاہر میرے پاس کام کرتے ہیں لیکن انھوں نے مجھے ملازم رکھا ہوا ہے اور میں دن رات ان کے لیے کام کرتا رہتا ہوں جب کہ اس کے مقابلے میں میرے چند کلاس فیلوز نے تعلیم کے بعد سرکاری نوکری کر لی تھی‘ انھوں نے ایک امتحان دیا اور پوری زندگی کے لیے ریاست کے داماد بن گئے۔
حکومت اب انھیں رہائش بھی دیتی ہے‘ گاڑی بھی‘ پٹرول بھی‘ ڈرائیور بھی‘ بجلی اور گیس بھی‘ میڈیکل بھی‘ ہوائی سفر کے ٹکٹ بھی اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات بھی‘ ان کے پاس سرکاری ملازم بھی ہیں‘ صرف ایک امتحان سے عمر بھر کے لیے یہ تمام سہولتیں چھوٹا سودا نہیں اوران سہولتوں کے بدلے ان کا کام کیا ہے؟
اگر کوئی مقدر کا مارا ان کے پاس انصاف کے لیے چلا جائے یا کسی کاروبار کی اجازت کے لیے ان کے پاس آ جائے تو یہ اسے ذلیل کر کے رکھ دیں‘ اس کی عزت نفس کچل کر اس کا مرونڈا بنا دیں‘ آپ اسی طرح ملک میں کوئی کاروبار کر کے دکھا دیں‘ اول آپ کو کاروبار کی فیزیبلٹی نہیں ملے گی۔
حکومت کے درجنوں ادارے ہیں لیکن کسی ادارے کے پاس کسی کاروبار کی فیزیبلٹی نہیں ہو گی‘ دوم آپ کو شروع میں کاغذات مکمل کرنے اور اجازتیں لینے کے لیے لاکھوں روپے چاہیے ہوں گے‘ انسان کا آدھا سرمایہ اور توانائی اس میں ضایع ہو جاتی ہے‘ اس کے بعد آپ کو ٹرینڈ ورکرز نہیں ملیں گے‘ آپ لوگ بھرتی کریں گے‘ آپ کے پاس ’’سی ویز‘‘ کا انبار لگ جائے گا۔
ملازمت کے متمنی امیدوار اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں گے‘ یہ ایم بی اے اور ایم اے پاس ہوں گے مگر کام کسی کو نہیں آتا ہوگا‘ اس کی وجہ ہمارا نظام تعلیم ہے‘ ہم تعلیمی اداروں میں صرف ڈگری دیتے ہیں‘ صلاحیت پیدا نہیں کرتے چناں چہ نوجوان تعلیم کے بعد بھی والدین کا پلو پکڑ کر پھرتے رہتے ہیں۔
یہ ابو سے پوچھتے ہیں ہم کیا کریں اور والدین بے چارے ان کا سی وی اٹھا اٹھا کر سفارشیں تلاش کرتے رہتے ہیں‘ کاروبار کے لیے اس ہجوم سے لوگ تلاش کرنے پڑتے ہیں‘ ہمارے ملک میں کوئی ادارہ نہیں جو نوجوانوں کو ٹرینڈ کر سکے‘ سافٹ سکلز تو دور یہاں ہارڈ سکلز تک ڈویلپ نہیں کی جاتیں۔
ہم نے آج تک کسی کو پلمبرنگ‘ الیکٹریشننگ‘ پینٹنگ اور کارپینٹنگ کی ٹریننگ بھی نہیں دی‘ ملک میں ڈرائیونگ اسکول تک نہیں ہیں‘ آپ کسی ڈرائیور سے پوچھ لیں تم نے کس اسکول سے ڈرائیونگ سیکھی‘ آپ کو سو میں سے ایک بھی ٹرینڈ اور سرٹیفائیڈ ڈرائیور نہیں ملے گا۔
چناں چہ پھر ہیومین ریسورس کہاں سے آئے گا؟ بہرحال آپ جیسے تیسے لوگ بھرتی کرتے ہیں اور انھیں ٹرینڈ بھی کر لیتے ہیں لیکن اصل ذلالت اس کے بعد شروع ہوتی ہے‘ آپ کام اسٹارٹ کرتے ہیں اور کبھی بجلی چلی جاتی ہے اور کبھی گیس‘ یہ دونوں اگر موجود ہوں تو ان کے ریٹس ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔
فیکٹری اور کمرشل ایریا میں سڑکیں‘ پانی اور سیکیورٹی نہیں ہوتی‘ آپ ملک کے کسی انڈسٹریل ایریا میں چلے جائیں آپ کو وہاں بنیادی سہولتیں نہیں ملیں گی‘ فیکٹریوں میں ڈاکے پڑ جاتے ہیں‘ روز ملک میں احتجاج ہوتے ہیں اور ریاست خود سڑکیں‘ شہر اور انٹرنیٹ بند کر دیتی ہے‘ رہی سہی کسر ملازمین پوری کر دیں گے‘ یہ ہڑتال کر دیں گے یا پھر کوئی دوسرا ان سب کو توڑ کر لے جائے گا اور یہ جاتے جاتے وہ ایڈوانس بھی لے جائیں گے جو انھوں نے وقتاً فوقتاً والدین اور بچوں کی بیماری اور تعلیم کے نام پر لیا ہوگا۔
سوم ملک میں ہر کاروبار کی اصل مالیت سے زیادہ رقم مارکیٹ میں پھنس جائے گی‘ آپ کی فیکٹریاں یا کاروبار کی راس دس کروڑ ہے لیکن مارکیٹ میں آپ کا 20 کروڑ پھنس جائے گا اور اس کو کور کرنے کے لیے آپ کو مسلسل کام کرنا پڑے گا‘ آپ جس دن کام بند کردیں گے اس دن آپ کی رقم ختم ہو جائے گی۔
کوئی دکان دار آپ کو رقم واپس نہیں کرے گا اور چہارم اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے سیکڑوں ادارے تلواریں لے کر آپ کا پیچھا کرتے رہیں گے‘ دنیا بھر میں بزنس کے دو طریقے ہیں‘ آپ حکومت کو ٹیکس دیں یا پھر رشوت‘ پاکستان میں آپ کو دونوں دینے پڑتے ہیں لیکن اس کے بعد بھی آپ کی جان نہیں چھوٹتی کیوں کہ اس کے بعد آپ کے پاس جو بچ جاتا ہے وہ ڈاکو لے جاتے ہیں اور آپ جب پرچہ درج کرانے کے لیے تھانے جاتے ہیں تو پولیس آپ کے کپڑے اتروا لیتی ہے۔
ہم اگر کسی دن ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچیں تو ہمیں ماننا ہو گا ہم من حیث القوم اینٹی بزنس‘ اینٹی پراگریس اور اینٹی سکسیس ہیں‘ ہم کام یاب لوگوں سے نفرت کرتے ہیں‘ پوری دنیا میں کام یاب لوگوں کی تعریف ہوتی ہے‘ انھیں ایوارڈز دیے جاتے ہیں جب کہ پاکستان میں انھیں ذلیل کیا جاتا ہے‘ ہم اینٹی پراگریس بھی ہیں‘ آپ کسی جگہ سڑک‘ ڈیم یا اسکول بنانا شروع کر دیں مقامی لوگ ڈنڈے لے کر آ جائیں گے‘ عدالت سے بھی اسٹے آرڈر آ جائے گا۔
اور رہ گیا بزنس تو آج بھی پوری ریاست بزنس مینوں کو چور سمجھتی ہے‘ یہ انھیں پیسے کا پتر اور لٹیرا کہتی ہے چناں چہ پھر کام کیسے ہو گا؟ ملک آگے کیسے بڑھے گا؟ آپ اس کے مقابلے میں انڈیا چلے جائیں‘ آپ کو اپروچ میں زمین آسمان کا فرق ملے گا‘ بھارت میں آج بھی 334 بلینئرز ہیں اگر ان کی دولت ایک بلین ڈالر بھی ہو تو یہ بھارتی روپوں میں 80 ارب اور پاکستانی میں 280 ارب روپے ہو گی،
جب کہ پاکستان میں صرف 12 لوگ ہیں جن کی دولت 10 ارب روپے سے زیادہ ہے لہٰذا آپ خود اندازہ کر لیجیے گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا‘ آپ ان سے کیا وصول کر لیں گے؟ آپ اگر ان 12 لوگوں کی ساری دولت بھی ضبط کرلیں تو بھی ریاست کے سر درد کی ایک گولی نہیں آئے گی۔
اب سوال یہ ہے اس کا حل کیا ہے؟ حل بہت سادہ ہے‘ سرکار کا بوجھ کم کریں ‘ جتنے محکمے ہیں اتنی ہی رکاوٹیں ہیں ‘ بزنس کے راستے کی رکاوٹیں ختم کر دیں‘ کسی بھی شخص کو کام کرنے کے لیے ایک سرٹیفکیٹ سے زیادہ کی ضرورت نہ ہو اور وہ بھی آسانی سے مل جائے‘ کاروبار کے شروع میں ٹیکس میں رعایت دیں اور پھر آہستہ آہستہ ٹیکس بڑھاتے چلے جائیں۔
لوگ اپنے اثاثے اور دولت جتنی ڈکلیئر کرتے جائیں انھیں اتنی ہی سہولت ملتی جائے اگر دولت ڈکلیئر ہو گی تو پھر یہ استعمال بھی ہو گی اور اگر یہ استعمال ہو گی تو پھر سرکار کو ٹیکس ملے گا‘ لوگوں نے اگراسے ڈالر یا سونے یا کرنسی کی شکل میں دفن کر رکھا ہے تو ریاست کو کیا فائدہ؟۔
بزنس مینوں کے تمام مقدمے فوری طور پر نبٹا دیں اگر انھوں نے فراڈ کیا ہے تو انھیں سزا دیں اور فائل بند کر دیں اور اگر ان کے ساتھ زیادتی ہوئی تو اس کا ازالہ کر دیں تاکہ یہ لوگ کام کر سکیں‘ ہم جب لوگوں کا بہترین وقت سرکاری برآمدوں‘ عدالتوں اور جیلوں میں ضایع کر دیں گے تو پھر ملک آگے کیسے بڑھے گا‘ یہ کیسے چلے گا؟
حکومت کو چاہیے یہ سلیبس تبدیل کردے‘ ہمارا سلیبس نان پریکٹیکل ہے‘ حکومت کو چاہیے یہ اسے 80 فیصد پریکٹیکل اور 20 فیصد تھیوریٹیکل کر دے تاکہ نوجوان ڈگری کے ساتھ ساتھ مہارت لے کر مارکیٹ میں آئیں اور آخری مشورہ جو لوگ ٹیکس دے رہے ہیں آپ انھیں کچھ نہ دیں لیکن کم از کم عزت تو دے دیں۔
انھیں گاڑیوں کی آسان سیریز دے دیں‘ ان کا پراپرٹی ٹیکس معاف کر دیں یا پھر پراپرٹی کی خریدوفروخت میں سہولت دے دیں یا انھیں فیکٹری یا کمرشل پلاٹ قسطوں میں دے دیں‘ آپ انھیں کسی قسم کی عزت تو دیں‘ آخر ہم کب تک ان کی خدمات کا اعتراف جوتوں کی شکل میں کرتے رہیں گے۔
شاید یہی وجہ ہے لوگ جب کام کرتے ہیں تو ہم انھیں اتنا تنگ کرتے ہیں کہ یہ دوبئی جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور دوبئی کی حکومت انھیں سر پر بٹھا لیتی ہے لہٰذا سوال یہ ہے اگر دوبئی ہمارے کارآمد لوگوں کو عزت دے سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں دیتے؟ چناں چہ پلیز بزنس مینوں کو عزت دیں ورنہ 25کروڑ لوگوں میں سے صرف 12 ہی سامنے آئیں گے باقی دوسرے ملکوں میں بس جائیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کاروبار کی اس کے بعد کرتے ہیں لے جائیں جاتے ہیں سے زیادہ ہیں لیکن انھوں نے تعلیم کے کے ساتھ ہیں اور جائے گا چناں چہ ملک میں کام کر اگر ان گا اور دیں گے کے لیے ہے اور کے پاس
پڑھیں:
واپسی کے بعد کی ذِلت
بھارتی ریاست گجرات میں انسانی اسمگلنگ پر تحقیقات میں مصروف ایک افسر کا کہنا ہے کہ امریکا میں اس وقت غیر قانونی تارکین ِ وطن کو برداشت نہ کرنے کا جو جُنونی رجحان پایا جاتا ہے وہ اس حقیقت کی نشاندہی کر رہا ہے کہ وہاں اب غیر قانونی طور پر پہنچنے والوں کو قیام کا موقع نہ ملے گا نہ کام کا۔
امریکی فضائیہ کا C-17 گلوب ماسٹر ٹرانسپورٹ ائر کرافٹ ۵ فروری کو بھارتی ریاست پنجاب کے شہر امرتسر میں اُترا۔ اِس میں وہ ۱۰۴ بھارتی باشندے سوار تھے جنہیں امریکا میں غیر قانونی قیام کی پاداش میں تحویل میں لینے کے بعد ملک بدر کیا گیا تھا۔ اِن کا امریکی خواب چکنا چور ہوچکا تھا۔ بھارت کی ریاستوں پنجاب، ہریانہ، گجرات، اتر پردیش اور راجستھان میں ہزاروں گھرانوں کے خواب راتوں رات چکنا چور ہوگئے ہیں کیونکہ اِن گھرانوں کے نوجوان غیر قانونی طور پر امریکا میں مقیم تھے اور ڈالر بھیج رہے تھے۔ اُن کی کمائی سے ہزاروں افراد اچھی زندگی بسر کرنے کی تمنا پوری کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ جن گھرانوں کے لیے لوگ بھیجے جاچکے ہیں وہ تو پریشان ہیں ہی، وہ ہزاروں گھرانے بھی ذہنی الجھن سے دوچار ہیں جن کے پیارے امریکا میں غیر قانونی قیام پر گرفتار کیے جاچکے ہیں اور شارٹ لِسٹ کیے جانے پر کسی بھی وقت ملک بدری کا سامنا کریں گے۔ اِن لوگوں کے متعلقین اِس لیے پریشان ہیں کہ امریکا میں غیر قانونی تارکین ِ وطن کو برداشت نہ کرنے کی فضا پنپ چکی ہے۔
جن ۱۰۴ بھارتی باشندوں کو امریکا سے نکالا گیا ہے اُن کا واپسی کا سفر ۴۰ گھنٹوں پر محیط تھا یعنی پرواز رُکتی ہوئی آئی تھی۔ اس دوران اُن کی ہتھکڑی نہیں کھولی گئی۔ ٹیکساس سے امرتسر تک اُنہیں شدید ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑا۔ کھانے پینے یا ٹوائلٹ جانے کے دوران بھی اُن کی ہتھکڑیاں نہیں کھولی گئیں۔ یہ معاملہ بھارتی پارلیمنٹ میں بھی اُٹھایا گیا۔ وزیر ِخارجہ ایس جے شنکر نے پارلیمنٹ کے فلور پر کہا کہ بھارتی حکومت ٹرمپ انتظامیہ سے رابطہ کرکے اِس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ جن بھارتی باشندوں کو غیر قانونی قیام کی پاداش میں واپس بھیجا جائے اُن سے بدسلوکی نہ کی جائے۔ دوسری طرف سابق حکمراں جماعت کانگریس اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں مودی سرکار سے سوال کر رہی ہیں کہ بھارتی باشندوں سے بیرونِ ملک ایسے گندے سلوک کی گنجائش پیدا ہی کیوں ہونے دی گئی۔
انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے بارہا کہا کہ غیر قانونی تارکین ِ وطن کے لیے امریکا میں قیام اور کام کی کوئی گنجائش نہیں۔ تب سے سوچا جارہا تھا کہ وہ دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہی اپنی بات پر عمل کریں گے۔ امریکا میں ایک کروڑ ۱۰ لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین ِ وطن ہیں جن میں سوا سات لاکھ بھارتی ہیں۔ یو ایس کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن ڈیٹا کے مطابق اکتوبر ۲۰۲۳ اور ستمبر ۲۰۲۴ کے دوران امریکا میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش کرنے والے ۹۰۴۱۵ بھارتی باشندوں کو گرفتار کیا گیا۔ ۴۳۷۶۴ بھارتیوں کو کینیڈین اور باقی کو میکسیکن سرحد سے گرفتار کیا گیا۔ اِن میں سے نصف گجرات کے تھے اور دیگر میں بیش تر کا تعلق پنجاب، ہریانہ اور آندھرا پردیش سے تھا۔
امریکی حکام نے غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے والے ۱۷۹۴۰ بھارتی باشندوں کی فہرست تیار کی ہے جو قانونی وسائل صرف کرچکے ہیں اور اب اُنہیں ملک بدر کیا جانا ہے۔ بھارتی میڈیا میں کہا جارہا تھا کہ حکومت کو ملک بدر کیے جانے والوں کا علم نہ تھا مگر ایس جے شنکر نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ امریکی حکام نے مودی سرکار کو مطلع کردیا تھا۔ امرتسر پہنچنے والے ۱۰۴ بھارتیوں میں سے ۳۳ گجرات کے، ۳۵ ہریانہ کے، ۳۱ پنجاب کے، ۳ اتر پردیش کے اور ۲ مہاراشٹر کے تھے۔ متعلقہ ریاستی حکومتوں نے اِن لوگوں کو اِن کے گھر پہنچانے کا اہتمام کیا تھا۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ جن لوگوں کو امریکا یا کہیں اور سے ڈی پورٹ کیا جاتا ہے پولیس اُن کی نگرانی کرتی رہتی ہے تاکہ انسانی اسمگلرز کے ریکٹ کو پکڑا جاسکے۔ اِن لوگوں کو پوچھ گچھ کا بھی سامنا رہتا ہے۔ بھارت میں انسانی اسمگلنگ کے بیسیوں گروہ کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ہر سال لاکھوں بھارتی باشندوں کو غیر قانونی طور پر امریکا اور یورپ میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں غیر قانونی داخلے کے انسانی اسمگلرز کو خطیر رقوم دی جاتی ہیں۔ کسی نہ کسی طور ملک سے نکلنے کے لیے لوگ گھر کی چیزیں بیچ دیتے ہیں، قرضے لیتے ہیں اور املاک گِروی بھی رکھنے سے گریز نہیں کرتے۔ دبئی، برطانیہ، افریقا اور جنوبی امریکا کے ممالک سے گزارتے ہوئے اِن لوگوں کو میکسیکن بارڈر تک پہنچایا جاتا ہے جہاں سے یہ غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
جنوری ۲۰۲۲ میں گجرات کے علاقے ڈِنگوچا سے تعلق رکھنے والی ایک فیملی امریکا اور کینیڈا کی سرحد پر ٹھٹھر کر مر گئی تھی۔ تب گجرات پولیس نے ۱۵ ایجنٹس اور دیگر ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کی تھی۔ بہر حال، انسانی اسمگلنگ کے سلسلے نے رُکنے کا نام نہیں لیا۔ عجیب اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ ایجنٹ غیر قانونی طور پر امریکا پہنچانے کے ۷۵ لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک لیتے ہیں۔ پنجاب میں یہ قیمت ۴۵ سے ۵۰ لاکھ روپے کے درمیان ہے۔ پاکستانی کرنسی میں کہا جائے تو یہ قیمت پونے دو کروڑ سے سوا تین کروڑ روپے کے درمیان ہے!
۲۰۰۹ سے اب تک ۱۵۷۵۶ بھارتی باشندے ڈی پورٹ ہوچکے ہیں۔ ۲۰۲۴ میں امریکا سے ۱۵۰۰ بھارتی باشندے ڈی پورٹ کیے گئے۔ واپس آنے والوں کو قرضوں اور افلاس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ذلت بھی جھیلیں گے کیونکہ اہل ِ خانہ، برادری اور علاقے کے لوگوں کے طعنے بھی تو سُننے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کا انداز دیکھ کر شاید بہت سوں کو ہوش آجائے وہ اپنے وطن ہی میں کام کرنے کا سوچیں۔ (انڈیا ٹوڈے)