فلسطین میں دہشت گردی کے جدِ امجد (قسط دوم)
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
جس طرح ہر بنیادی نظریے کا مقصد مشترک ہونے کے باوجود رفتہ رفتہ شخصی و فکری اختلافات گروہ بندی اور چشمک میں بدلنے لگتے ہیں۔ اسی طرح صیہونی نظریے کے ساتھ بھی ہوا۔
صیہونیت کا بنیادی ہدف تو فلسطین میں ایک یہودی مملکت کا قیام تھا مگر کچھ صیہونی یہ مقصد خالص سیاسی جدوجہد سے حاصل کرنے کے حق میں تھے۔اس گروہ کو ایک مشترکہ عرب یہودی مملکت کا تصور بھی قبول تھا۔
ان کے برعکس بہت سے سوشلسٹ نظریات سے متاثر صیہونی فلسطین کی یہودی پرولتاریہ ( مزدور کسان ) کو سیاسی ، معاشی و مزاحمتی شعور سے لیس کر کے منزل تک پہنچنا چاہتے تھے۔وہ قابض طاقت (برطانیہ ) اور اکثریتی طبقے ( عرب ) سے نمٹنے کے لیے سیاست و مزاحمت پر مبنی راستہ اختیار کرنے کے حامی تھے۔ان لیبر یا سوشلسٹ صیہونیوں نے جذباتی حکمتِ عملی کے بجائے منظم ادارہ سازی پر توجہ دی۔
یورپی یہودیوں کی منصوبہ بند فلسطین نقل مکانی کے لیے جیوش ایجنسی اور زمینیں خریدنے کے لیے جیوش نیشنل فنڈ تشکیل دیا۔ محنت کشوں کو طبقاتی و سیاسی طور پر منظم رکھنے کے لیے ہستار دوت لیبر یونین اور سیاسی جماعت مپائی اور یہودی بستیوں کے دفاع کے لیے ہگانہ نام سے مسلح ملیشیا قائم کی۔
مگر ہگانہ میں شامل کچھ کمانڈر سمجھتے تھے کہ محض سیاسی جدوجہد ، معاشی خودمختاری اور دفاعی حکمتِ عملی سے مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔فلسطین کو یہودی ریاست بنانے کے لیے اکثریتی آبادی ( عرب ) کو بزور نکالنا اور مارنا بھی پڑے تو جائز ہے۔
حتیٰ کہ قابض طاقت ( برطانیہ ) سے بھی لڑنا پڑ سکتا ہے۔اس ترمیم پسند نظریے کو بڑھاوا دینے میں نمایاں نام جواں سال پولش یہودی رہنما زیو جیبوٹنسکی کا ہے۔وہ سوشلسٹ صیہونیوں کو سبزی خور رہنما ہونے کا طعنہ دیتے تھے اور ایک طے شدہ سرحد میں قید ہونے کے بجائے اردن تا بحیرہ روم کا خطہ یہودی مملکت کا آسمانی حق سمجھتے تھے۔
انیس سو انتیس میں یروشلم میں عربوں اور یہودیوں کے مابین پرتشدد جھگڑے کے نتیجے میں ہگانہ کے اندرونی اختلافات بڑھ گئے۔کچھ کمانڈروں کا خیال تھا کہ ہگانہ کی عسکری پالیسی اگر جارحانہ دفاع پر مبنی ہو تو اسے عرب اور مقامی برطانوی انتظامیہ زیادہ سنجیدگی سے لے سکتی ہے۔جب کہ بن گوریان وغیرہ کا خیال تھا کہ یہ وقت جارحانہ حکمتِ عملی یا کھلم کھلا یہودی مملکت کے قیام کا نعرہ لگانے کا نہیں۔اس سے مسائل بڑھیں گے اور دشمن چوکنا ہو جائیں گے۔مگر فکری خلیج بڑھتی چلی گئی۔
جیبوٹنسکی کے نظریاتی ترمیم پسند گروہ نے ہگانہ سے علیحدہ ہو کر اپریل انیس سو اکتیس میں ارگون کے نام سے نیم فوجی تنظیم قائم کی اور مرکزی صیہونی قیادت سے بالا بالا اپنے تنظیمی و عسکری فیصلے کرنے شروع کیے۔
ارگون کی افرادی قوت ابتدا میں لگ بھگ دو ہزار تھی۔ نئے ریکروٹوں کو ان کے ذاتی پس منظر کی کڑی چھان بین کے بعد شامل کیا جاتا۔ڈسپلن اور رازداری پر نہائیت زور تھا۔ابتدائی چار ماہ نظریاتی تربیت ہوتی۔ ریکروٹ کی صلاحیت اور رجحان دیکھ کر چھوٹے ہتھیاروں اور دستی بموں کے استعمال ، سگنل کوڈنگ ، جاسوسی اور مزید باصلاحیت ارکان کو بم سازی اور بھاری ہتھیاروں کی تربیت یہودی آبادیوں میں قائم خفیہ مراکز ، بیابانوں اور سنسان ساحل کے علاوہ بیرونِ ملک (پولینڈ ) بھی دلوائی جاتی ( جب تک مسولینی نے ہٹلر سے اتحاد کا فیصلہ نہیں کیا تب تک ارگون اپنے ارکان کو فوجی تربیت کے لیے اٹلی بھی بھیجتی رہی )۔
ہتھیار مقامی برطانوی انتظامیہ کے اسلحہ خانوں سے چوری کیے جاتے اور بیرونِ ملک ( پولینڈ ) سے بھی اسمگل ہوتے۔بہت سے ارکان کو مقامی پولیس میں بھی بھرتی کروایا گیا جو ارگون کے کان ، ناک ، آنکھ کا کام کرتے تھے۔پیسے کی کمی پورا کرنے کے لیے بینک لوٹنے سے بھی دریغ نہ کیا جاتا۔
ارگون اپنے ارکان سے توقع کرتی تھی کہ وہ بظاہر نارمل زندگی گذاریں مگر اشارہ ملتے ہی مسلح مشن کے لیے بھی تیار رہیں۔ارگون نے اپنے خفیہ سیل یورپ تا امریکا اور شنگھائی تک منظم کیے۔ان کا کام لابنگ ، پروپیگنڈہ ، یہودی کمیونٹیز کو فلسطین ہجرت پر قائل کرنا اور بااثر و دولت مند یہودی کاروباریوں سے چندہ جمع کرنا تھا ( ہگانہ ملیشیا بھی یہی طریقے استعمال کرتی تھی )۔
جوں جوں جرمن یہودیوں پر عرصہِ حیات تنگ ہونے کی خبریں آنے لگیں ارگون کی بے صبری بھی بڑھتی چلی گئی اور اس نے برطانیہ پر یہودی پناہ گزینوں کے لیے فلسطین کے دروازے پوری طرح کھولنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی سوچ کے تحت عرب آبادیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری تنصیبات کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
انیس سو انتالیس میں دوسری عالمی جنگ کے آغاز پر ہگانہ اور ارگون نے ہٹلر کے خلاف برطانیہ کی عارضی حمائیت کا اعلان کیا اور برطانوی فوج میں فلسطینی یہودیوں کی بھرتی کی اس امید پر حوصلہ افزائی کی کہ برطانیہ اس حمائیت سے متاثر ہو کر یہودیوں کی فلسطین میں آمد کا کوٹہ محدود کرنے اور عربوں سے زمین خریدنے پر پابندی ختم کر دے گا۔
تاہم جب ارگون کو اندازہ ہوا کہ برطانوی انتظامیہ عربوں کی بے چینی میں بڑھاوے کے خدشے کے پیشِ نظر اس پالیسی کو شاید برقرار رکھے تو انیس سو چوالیس میں ارگون نے برطانیہ سے تعاون کی پالیسی ختم کر دی۔ارگون کے چوالیس سالہ فکری گرو زیو جیبوٹنسکی کے انیس سو چالیس میں اچانک انتقال کے بعد تنظیمی قیادت پولینڈ سے ہجرت کرنے والے مینہم بیگن کے ہاتھ میں آ چکی تھی۔
فروری انیس سو چوالیس کے بعد ارگون نے برطانوی سرکاری دفاتر اور مواصلاتی مراکز کو نشانہ بنانا شروع کیا۔سرکار نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کر کے سیکڑوں انتہاپسندوں کو فلسطین بدر کرنا شروع کیا۔ ہگانہ نے ان گرفتاریوں میں برطانوی انتظامیہ سے مخبرانہ تعاون کیا۔جیوش ایجنسی اور ورلڈ جیوش کانگریس نے بھی ارگون کی کارروائیوں کو دہشت گردی قرار دیا کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ برطانیہ کہیں یہودی وطن کے قیام کے وعدے سے بالکل ہی ہاتھ نہ اٹھا لے۔
جولائی انیس سو پینتالیس میں برطانیہ میں چرچل کی جگہ لیبر پارٹی کی حکومت آئی تو ہگانہ کی قیادت نے نئی حکومت سے یہودی پناہ گزینوں کی فلسطین آمد اور زمین کی خریداری پر سے پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیا۔برطانویوں نے گول مول جواب دیا۔
چنانچہ تین یہودی انتہا پسند مسلح تنظیموں ( ہگانہ ، ارگون ، لیخی ) نے اختلافات وقتی طور پر بالائے طاق رکھ کے جیوش ریزسٹنس موومنٹ کے نام سے مسلح اتحاد تشکیل دیا اور منظم دھشت گردی کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔برطانیہ نے تین دھشت گردوں کو مقدمہ چلا کے پھانسی دے دی۔اس کے بدلے دو برطانوی فوجیوں کی لاشیں درخت سے لٹکی ملیں۔ان واقعات کے بعد برطانیہ نے فلسطین چھوڑنے کا اصولی فیصلہ کر لیا۔یہ فیصلہ دھشت گرد حکمتِ عملی کی بہت بڑی جیت تھی۔
مارچ انیس سو سینتالیس میں جیوش ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان کی سربراہی میں ایک خفیہ اجلاس میں عربوں کی نسلی صفائی میں تیزی لانے کی اصولی منظوری دی گئی۔ ارگون نے عرب اکثریتی شہر جافا کی ناکہ بندی کر لی۔برطانوی دستوں نے عرب آبادی کو بچانے کے بجائے غیر جانبداری اختیار کی۔چنانچہ دو ہفتے کے محاصرے کے بعد مسلح یہودی دستے جافا میں داخل ہو گئے اور عرب آبادی کی بے دخلی شروع ہو گئی۔
اس کے بعد ٹرانس اردن سے متصل فلسطینی سرحدی گاؤں دیر یاسین کا سانحہ رونما ہوا جہاں ہگانہ کی خاموش رضامندی سے ارگون اور لیخی کے دھشت گردوں نے لگ بھگ ڈھائی سو فلسطینی مردوں ، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کر کے پورا گاؤں جلا دیا۔یہ خبر پھیلتے ہی فلسطینی ہجرت میں مزید تیزی آتی چلی گئی۔
اسرائیل کے قیام کے بعد ارگون کی قیادت نے وزیرِ اعظم بن گوریان کی حکومت کی جانب سے غیر مسلح ہو کر خود کو نوزائیدہ اسرائیلی فوج میں ضم کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔سرکاری دستوں اور ارگون کی مسلح جھڑپیں بھی ہوئیں۔البتہ ستمبر انیس سو اڑتالیس میں جب اسرائیلی فوج نے یروشلم میں ارگون کا مرکزی دفتر گھیر لیا تو مسلح قیادت نے تنظیم توڑ کر خود کو اسرائیلی فوج میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا۔
جنوری انیس سو انچاس میں پیرس میں ارگون نے اپنا یورپی مرکز اپنی سیاسی شاخ ہیروت کے حوالے کر دیا گیا۔ہیروت انیس سو سڑسٹھ کے بعد لیخود پارٹی بن گئی۔مینہم بیگن ، آئزک شمیر اور نیتن یاہو اسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے وزیرِ اعظم بنے۔
مگر ارگون جیسی انتہا پسند تنظیم کے اندر بھی کچھ عناصر تھے جنھیں ارگون کی حکمتِ عملی اعتدال پسند نظر آتی تھی۔اس گروہ نے لیخی کے نام سے سپر دھشت گرد دھڑے کا روپ دھارا۔اس کے کارنامے اگلے مضمون میں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: برطانوی انتظامیہ میں ارگون ارگون نے ارگون کی کرنے کے کے لیے کے بعد
پڑھیں:
طالبان حکومت دہشت گردی میں ملوث ، پاکستان سے لاشوں کی وصولی ثبوت
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) افغان حکومت پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث نکلی۔ دہشتگردوں کی لاشوں کی وصولی سب سے بڑا ثبوت ہے۔ ذرائع کے مطابق افغان حکومت نے پاک فوج کے ہاتھوں 6 فروری 2025ء کو دوران آپریشن ہلاک ہونے والے افغان دہشتگرد کی لاش بھی قبول کرلی۔ ہلاک ہونے والے دہشتگرد کی شناخت لقمان خان ولد کمال خان کے نام سے ہوئی تھی جو ضلع خوست کا رہائشی تھا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں ہلاک کئے جانے والے دہشتگرد احمد الیاس عرف بدر الدین کی لاش کو بھی افغان طالبان نے وصول کیا تھا۔ احمد الیاس صوبہ باغدیس کے نائب گورنر مولوی غلام محمد کا بیٹا تھا جس کی ہلاکت پر افغان عبوری حکومت نے نام نہاد شہادت کا جشن منایا۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے مختلف آپریشنز میں اب تک بڑی تعداد میں افغان دہشتگرد ہلاک کئے جا چکے ہیں۔ ہلاک افغان دہشتگردوں کی لاشوں کی وصولی افغان عبوری حکومت کی فتنہ الخوارج کے ساتھ ملی بھگت کا واضح اقرار ہے۔ افغان عوام کو سمجھنا ہوگا کہ وہ افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے دہشتگردوں سے ہوشیار رہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ دہشتگرد گروہ افغان شہریوں کو مختلف قسم کا لالچ دیکر انہیں پاکستان میں دہشتگردی پر مجبور کرتے ہیں۔ فتنہ الخوارج اور افغان عبوری حکومت کے گٹھ جوڑ سے افغان عوام کو سمجھنا ہوگا کہ وہ ان کیلئے نہیں بلکہ اپنے مذموم مقاصد پر کام کررہے ہیں۔