Express News:
2025-02-11@07:19:25 GMT

جھنڈے ، درفش کاویانی

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

جھنڈے آپ نے رنگ برنگے دیکھے ہوں گے، سیاہ وسفید، نیلے پیلے، سرخ سبز، زرد مطلب یہ کہ جتنے رنگ اتنے جھنڈے اتنے ان کے فنڈے ، بظاہر یہ جھنڈے الگ، مختلف بلکہ اکثرمتضاد بھی دکھائی دیتے ہیں لیکن سارے جھنڈوں میں ایک قدر مشترک بھی ہے، اس قدرمشترک خصوصیت پر بات بعد میں بات کریں گے ،پہلے جھنڈوں کی تاریخ پر تحقیق کاجھنڈا لہراتے ہیں۔

اگرچہ جھنڈوں کی تاریخ انتہائی تاریک ہے لیکن جغرافیہ، تاریخ بھی زیادہ اندھیرے میں ہے ،شکوک کے گھیرے میں ہے اور روایات کے پھیرے میں ہے ۔ اس لیے ہم اگر تحقیق کا ٹٹو دوڑائیں گے تو تاریخ کے بجائے کہانیوں کی تاریکی میں دوڑائیں گے ،چاہے ہمارا ٹٹوئے تاریخ تاریک راہوں میں مارا ہی کیوں نہ جائے ۔

 پارسیوں کی کتاب ژنداوویشا اورشاہنامہ فردوسی کے مطابق بہت قدیم زمانوں میں بلخ کا ایک حکمران تھا ضحاک، جودراصل اساک خانہ بدوشوں کا استعارہ ہے یہ بہت ہی ظالم بادشاہ تھا، اس کے کندھوں پر شیطان اہرمن نے بوسہ دیا تھا جہاں دوسانپ اگ آئے تھے، ضحاک روزانہ دوآدمیوں کا مغز ان سانپوں کو کھلاتا تھا، ظاہر ہے ، مارے بغیر کسی کا مغز حاصل نہیں کیاجاسکتا ہے اس کو مجبوراً ان آدمیوں کو مارنا بھی پڑتا تھا۔

 ایک دن ’’کاوہ ‘‘ نامی لوہار کے دوبیٹے بھی اس اتیا چار کا شکار ہوئے جس پر کاوہ لوہار نے علم بغاوت بلند کیا، اس نے اپنی دھونکنی کو جھنڈا بنا کر بغاوت کاآغاز کر دیا تو ضحاک کا شکار ہونے والے اوربھی بہت سارے لوگ بغاوت میں ساتھ ہو گئے، پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ تلواریں لالا چلاتا ہے اورلقمے عبداللہ کھاتا ہے ۔

خیر کاوہ لوہار کی اس دھونکنی سے جھنڈوں کا سلسلہ چل نکلا ۔ درفش فارسی میں لوہاروں کی دھونکنی کوکہتے ہیں، یہ ایک صوتی نام ہے کہ پرانے زمانے کی چمڑے سے بنی ہوئی دھونکنی جب چلائی جاتی تھی تو اس سے در۔ فش۔ درفش کی آواز نکلتی تھی چنانچہ ایران کے جھنڈے کا نام ابھی تک درفش کاویانی ہے۔ 

آج کل کا تو پتہ نہیں لیکن شاہ ایران کے عہد تک ایرانی جھنڈے کاسرکاری نام درفش کاویانی ہی تھا ۔ شہنشاہ ایران نے جب اپنی تاج پوشی کا عظیم الشان جشن منایا تھا جس پر اربوں کروڑوں روپے عوام کے خون سے نچوڑ کر اڑائے گئے تھے، اس میں ایرانی شہنشاہیت کاتسلسل اسی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ سے جوڑا گیا تھا۔

اوردنیا کے حکمرانوں اور مشہور شخصیات کو مدعو کیاگیا، پرتعیش عمارت تعمیر کی گئی تھی، ٹاپ کلاس لگژری مہمان نوازی کا انتظام کیا گیا تھا، سیکڑوں تو نئی مرسیڈیز گاڑیاں خریدی گئی تھیں، دنیا بھر سے انٹرٹینر بلوائے گئے تھے جن میں چنیدہ قسم کی حسینائیں شامل تھیں۔ 

کئی دن تک اعلیٰ پیمانے پر خور ونوش کا وافر انتظام تھا ، ڈھائی ہزار تو صرف دنبے قربان کیے گئے تھے حالانکہ ان بے چاروں کا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں تھا نہ ہی وہ ضحاک کے رشتہ دار تھے ، بیلوں، بکریوں، مرغیوں وغیرہ یادوسرے کئی اقسام کے کچے پکے گوشت کاتو کوئی حساب ہی نہیں لگایا جاسکا البتہ قربانی کے بیلوں کی تعداد ڈھائی ہزار تھی۔

درفش کاویانی لہرا کر شہنشاہ کی تاج پوشی کی گئی تھی اوراس پر قدیم خطابت آریا مہر کو چسپاں کیا گیا تھا ۔ جھنڈوں کا ایک میلہ افغانستان کے شہر مزار شریف میں بھی لگتا تھا،ایران وافغانستان میں اسے نوروز ، میلہ گل سرخ اورجھنڈوں کا میلہ بھی کہاجاتا ہے۔

اس سلسلے میں بہت ساری روایتیں گڈمڈ ہوکر الجھنیں بن چکی ہیں، سب سے پہلی اوربڑی الجھن تو یہ ہے کہ مزار شریف میں جو مزار ہے اورعام طورپر اسے مزارسخی یاسخی بابا کہا جاتا ہے اس پر موٹے موٹے الفاظ میں مزار حضرت علی کرم اللہ وجہہ لکھا ہوا ہے حالانکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کامزار نجف اشرف عراق میں بھی ہے۔ 

دوسری روایت یہ ہے کہ اس جشن نوروز کو جمشید سے بھی منسوب کیا جاتا ہے اورعراقی بہارکی دیوی عشار سے بھی منسوب کیاجاتا ہے، وہ بہار سبزے اورہریالی بارآوری کی دیوی تھی اورجب وہ اپنے محبوب تموز کی بیماری کا علاج لانے چار مہینے کے لیے پاتال چلی گئی تو زمین کی ساری ہریالی چلی گئی اورسردیوں کے چار مہینے بعد جب وہ لوٹ آئی تو پھر بہار آگئی اوراس دن کو اس استورے سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔

جس دن جھنڈے لہرانے یاپرچم کشائی کی تقریب ہوئی تھی اس دن ایران ،افغانستان پاکستان بلکہ ہندوستان کے لوگوں کا اتنا اژدہام ہوجاتا ہے کہ اس رات نہ عمارتوں میں کوئی جگہ ہوتی ہے نہ پارکوں میں نہ سڑکوں پر نہ ارد گرد کھیتوں میں ۔صبح سویرے شہر اورملک کے چنیدہ عمائدین جمع ہوجاتے ہیں۔ 

پہلے رنگ برنگے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں پھر کبوتر چھوڑے جاتے ہیں اورپھر اچانک تیس چالیس لوگ اٹھ کھڑے ہوکر چلانے لگتے ہیں ، بینا شویم بینا شویم۔ یعنی ہماری آنکھوں میں بینائی آگئی ، تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ لوگ اندھے تھے اوراب بینا ہوگئے ،کیسے ؟ کیوں؟ عقیدتوں میں ایسے پوچھنا منع ہے کیوں کہ فارسی کہاوت ہے کہ پیران نمی پرد بدان می پرانند۔ پیر اڑتے نہیں لیکن مرید انھیں اڑاتے ہیں ۔

ویسے بھی ہمارا موضوع جھنڈے اورجھنڈوں سے وابستہ فنڈے ہیں اورآخر میں حسب وعدہ اس سوال کاجواب کہ دنیا بھر کے تمام اورہررنگ وشکل اورسائز کے جھنڈوں میں قدر مشترک کیا ہے ، اور وہ قدر مشترک ہے ڈنڈا۔ جھنڈا کوئی بھی ہوسب میں ایک جیسا ہی ڈنڈا ہوتا ہے جو دکھائی نہیں دیتا لیکن جب پڑتا ہے تو ہڈیاں توڑ دیتا ہے اوریہی ہر جھنڈے کا کام ہوتا ہے ، وہ ہاتھی کے دانتوں جیسا معاملہ ہے ، اوپر تو کسی کپڑے کاخوبصورت نقش ونگار والا جھنڈا ہوتا ہے لیکن نیچے سارے جھنڈے ایک ہی ڈنڈے میں مرتکز ہوجاتے ہیں اوراپنا وہی کام کرتا ہے جو ڈنڈے کا تھا،ہے اورہمیشہ رہے گا۔

ہزاروں رنگ بدلے گا یہ جھنڈا

مگر ہرگز نہ بدلے گا یہ ڈنڈا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جھنڈے ا جاتا ہے سے بھی

پڑھیں:

میرا بس چلے تو ٹیکس 15 فیصد ابھی کم کردوں، وزیراعظم

اسلام آباد:

وزیراعظم شہباز شریف نے کاروباری طبقے کو برآمدات میں اضافے کے لیے اقدامات پر زور دیتے ہوئے زیادہ ٹیکس کا اعتراف کیا اور کہا کہ  میرا بس چلے تو ٹیکس 15 فیصد ابھی کم کردوں، لیکن اس کا وقت آئے گا۔

اسلام آباد میں وفاقی حکومت کی جانب سے یوم تعمیر و ترقی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ حکومت کا ایک سال کا سفر کامیابیوں کا سال رہا اور ملک کی ترقی کا سفر شروع ہوچکا ہے، پائیدار ترقی کے لیے ہم نے متحد ہو کرکام کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کاروباری طبقے کے ساتھ مشاورت سے پالیسیاں مرتب کریں گے، ہم نے مشکل فیصلے کیے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے اور ایک سال میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ستمبر میں آئی ایم ایف کے ساتھ 7 ارب ڈالر کا معاہدہ ہوا، ٹیم ورک سے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا، گزشتہ حکومت پر تنقید نہیں کرنا چاہتا لیکن معیشت کا برا حال تھا، سرمایہ کاروں کے ساتھ زیادتی ہوئی اور گزشتہ حکومت میں مہنگائی 40 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔

وزیراعظم نے کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، تنخواہ دار طبقے نے 300 ارب روپے ٹیکس ادا کیا۔

شہباز شریف نے کہا کہ افغانستان سے اسمگلنگ روکی گئی اور رواں برس 211 ملین ڈالر کی چینی برآمد کی۔

ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں دہشت گردی ختم ہوگئی تھی لیکن بدقسمتی سے پھر واپس آگئی ہے، یہ دہشت گردی کیوں واپس آئی، سوال پوچھنا پڑے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ میرا بس چلے تو ٹیکس 15 فیصد ابھی کم کردوں، لیکن اس کا وقت آئے گا۔

متعلقہ مضامین

  • جب اللّٰہ کو منظور ہو گا تب دوسری شادی کر لوں گا: آغا علی
  • اَب جج فیصلے نہیں، خط لکھتے ہیں!
  • سعدیہ امام کو کس چیز سے ڈر لگتا ہے؟ اداکارہ نے بتادیا
  • ہانیہ عامر بالی ووڈ سے کام کی پیشکش قبول کریں گی لیکن کس شرط پر؟
  • محسن اسپیڈ بمقابلہ عاقب اسپیڈ
  • 8 فروری… ووٹ کی بیحرمتی کا دن
  • میرا بس چلے تو ٹیکس 15فیصد فوری کم کردوں،وزیراعظم
  • سلمان خان نے موٹویشنل باتوں کو فضول قرار دے دیا
  • میرا بس چلے تو ٹیکس 15 فیصد ابھی کم کردوں، وزیراعظم