اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 فروری 2025ء) پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندے قانونی اور غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد اس تعداد میں مزید اضافہ ہوا۔ نئے آنے والوں میں سے بعض دیگر ممالک جیسا کہ یورپ اور امریکہ میں پناہ کے لیے پشاور اور اسلام آباد میں مقیم تھے۔

سال رواں کے شروع میں حکومت پاکستان نے افغان باشندوں کو سیکورٹی و معاشی وجوہات کی بنا پر واپس ان کے ملک بیجھنے کا فیصلہ کیا۔ فیصلے کے تحت دستاویزات کے بغیر اور موجود دستاویزات میں درج مدت سے زیادہ قیام کرنے والوں سمیت غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان باشندوں کو واپس ان کے ملک بھیجھا جائے گا۔

(جاری ہے)

گرفتاری اور جبری طور پر افغانستان منتقلی کے ڈر سے ایک بڑی تعداد میں افغان باشندے مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں رہائش اختیار کر رہے ہیں۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد مزید لاکھوں افغانوں نے پاکستان میں پناہ لی

مہاجرت سے متعلق اقوام متحدہ کے سربراہ کا دورہ پاکستان اور مہاجرین سے ملاقات

ایک افغان مہاجر کی پاکستان میں چالیس سالہ جدوجہد کی کہانی

پشاور میں کاروبار کرنے والے ایک افغان باشندے عبدالماجد نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''اسلام آباد اور پنجاب کے کئی شہروں میں افغان مہاجرین کو مشکلات کا سامنا ہے۔

کئی خاندان خیبر پختونخوا آ چکے ہیں۔ یہاں دستاویزات رکھنے والوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ عبدالماجد کا کہنا ہے کہ وہ تین دہائیوں سے پشاور میں کاروبار کر رہے ہیں اور ان کے کئی شہروں میں کاروباری رابطے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا، ''اب اتنا بڑا کاروبار کس طرح چھوڑوں؟ افغانستان میں مجھے پھر نئے سرے سے کاروبار شروع کرنا ہو گا اور وہاں اس وقت کاروبار آگے بڑھانے کے مواقع نہیں ہیں۔

‘‘

عبدالماجد کا مزید کہنا تھا کہ ان کے بچے پاکستان میں پیدا ہوئے اور پھر اسی ماحول میں تعلیم و تربیت کے بعد ان کے کاروبار میں ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ ان کے بچوں میں سے دو کبھی افغانستان نہیں گئے۔ ''کاروباری مجبوری اپنی جگہ ہے لیکن خاندان میں کوئی بھی واپس افغانستان جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ حالات بہتر ہوں، تو پھر جائیں گے، تو عبدالماجد کا کہنا تھا کہ ان کی تو خواہش ہے کہ وہ چلے جائیں لیکن بچے تو پاکستان کو اپنا ملک کہتے ہیں۔

‘‘ رجسٹرڈ افغان مہاجرین بھی غیر یقینی صورتحال سے دو چار

پاکستان میں مختلف ادوار میں دو سے آٹھ ملین افغان مہاجرین رہائش پذیر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے رضاکارانہ واپسی کے پروگرام کے تحت 2002ء سے 31 اکتوبر 2024ء تک چار ملین افغان واپس اپنے ملک جا چکے ہیں۔ البتہ طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد بڑی تعداد میں افغان مختلف راستوں سے واپس پاکستان پہنچ چکے ہیں۔

ان افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد اسلام آباد اور پشاور میں اس اُمید سے رہائش پذیر ہیں کہ انہیں کسی تیسرے ملک میں پناہ مل جائے گی۔ پاکستان میں بھی افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن

امریکہ میں پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی سامنے آنے کے بعد پاکستان نے بھی غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔

اسلام آباد اور راولپنڈی میں 200 سے زیادہ افغان باشندوں کو افغانستان بھیجنے کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔ زیادہ تر ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں۔

اس کریک ڈاؤن کی وجہ سے افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد خیبر پختونخوا کے مختلف شہر پہنچ رہی ہے۔ صوبائی صدر مقام پشاور میں سب سے زیادہ افغان رہائش پذیر ہیں، جن میں بعض کاروباری لوگ بھی شامل ہیں۔

ان افغانوں نے خیبر پختونخوا کے شہری اور دیہی علاقوں میں رہائش پذیر اپنے رشتہ داروں کے ہاں پناہ لے رکھی ہے۔ پشاور پہنچنے والے زیادہ افغان باشندےمالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ کیمپوں سے باہر رہنے والے افغان مہاجرین

خیبر پختونخوا میں 69 فیصد افغان باشندے مہاجر کیمپوں سے باہر رہائش پذیر ہیں، جن میں زیادہ تر یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔

پاکستانی اور غیر ملکی امدادی اداروں نے ان کی مالی معاونت بند کی ہے جس کی وجہ سے انہیں معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ انہیں افغانستان جانے سے ڈر لگتا ہے لیکن پاکستان میں گرفتاری کا خطرہ بھی ہے۔

غیر یقینی صورتحال کی وجہ سےافغان مہاجرین کے بچےکسی بھی تعلیمی ادارے میں نہیں پڑھ سکتے۔ خیبر پختونخوا کے سرکاری اسکولوں میں بڑی تعداد میں افغان بچے زیر تعلیم ہیں لیکن کسی کالج یا یونیورسٹی میں انہیں حصول علم میں مشکلات کا سامنا ہے۔ والدین سمیت بچوں کو بھی نفسیاتی مسائل کا سامنا ہےجبکہ علاج معالجے کے بھاری اخراجات ان لوگوں کے بس کی بات نہیں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خیبر پختونخوا کے تعداد میں افغان مشکلات کا سامنا رہائش پذیر ہیں افغان مہاجرین افغان باشندوں افغان باشندے پاکستان میں کا سامنا ہے بڑی تعداد پشاور میں میں پناہ رہے ہیں کے بعد

پڑھیں:

آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے باعث بڑھتے ہوئے خطرات کاروباری اداروں کے لیے مشکلات کا باعث ،کیسپرسکی تحقیق

اسلام آباد: جیسا کہ مصنوعی ذہانت سائبر سیکیورٹی کے منظر نامے کو نئی شکل دیتی ہے، دنیا بھر میں اداروں کو جدید ترین آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے ہونے والے حملوں سے تحفظ فراہم کرتے وقت بڑھتے ہوئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مہارت کی کمی، آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے چلنے والے ٹولز کی کمی، اور سائبر سیکیورٹی کے جدید انفراسٹرکچر کے انتظام کی پیچیدگی بہت سے اداروں کو کمزور بنا دیتی ہے۔

”سائبر ڈیفنس اور اے آئی: کیا آپ اپنی تنظیم کی حفاظت کے لیے تیار ہیں؟” کے عنوان سے اپنی تازہ ترین تحقیق میں، کیسپرسکی نے ایس ایم ایز اور بڑے کاروباری اداروں میں آئی ٹی اور انفارمیشن سیکیورٹی کے پیشہ ور افراد سے رائے اکٹھی کیں۔ عالمی سطح پر 19 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ ان کے سائبر تحفظ کے نظام میں کافی خامیاں موجود ہیں۔ تحقیق کے مطابق، 44 فیصد اداروں نے ملازمین کے لیے آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے متعلق سائبر سیکیورٹی کی تربیت کی کمی کو ایک اہم مسئلہ قرار دیا ہے۔ مزید 44 فیصد سائبر سیکیورٹی کے بنیادی ڈھانچے کے انتظام کی پیچیدگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو حملہ آوروں سے آگے رہنا مشکل بنا دیتا ہے۔

جدید آلات کی کمی ایک اور اہم چیلنج ہے۔ تقریباً 43 فیصد جواب دہندگان نے اعتراف کیا کہ ان کی تنظیموں کے پاس جدید اے آئی سے چلنے والے سائبرسیکیوریٹی حل کی کمی ہے، جب کہ 41 فیصد آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے متعلقہ خطرے کے منظر نامے کے بارے میں بیرونی ماہرین سے معلومات کی کمی کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں۔ مزید برآں، 39 فیصد جواب دہندگان کو اہل انفارمیشن سکیورٹی پیشہ ور افراد کی کمی کا سامنا ہے، جس سے کاروبار تیزی سے جدید ترین خطرات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سروے کیے گئے پیشہ ور افراد میں سے 58 فیصد کو خدشہ ہے کہ سائبر حملوں کے خلاف منابس تیاری نہ ہونے کے نتیجے میں خفیہ ڈیٹا لیک ہو سکتا ہے، جب کہ 52 فیصد صارفین کے اعتماد میں کمی کی توقع رکھتے ہیں۔ ساکھ کو پہنچنے والا نقصان 47 فیصد جواب دہندگان کے لیے تشویش کا باعث ہے، جو سائبر حملے کے طویل مدتی نتائج کے بارے میں فکر مند ہیں۔ دیگر ممکنہ نتائج میں مالی جرمانے (33 فیصد)، سرمایہ کاروں کی واپسی (31 فیصد)، قانونی چارہ جوئی (29 فیصد)، اور یہاں تک کہ کاروبار کی جزوی بندش (23 فیصد) شامل ہیں۔

کیسپرسکی میں انفارمیشن سیکیورٹی ڈائریکٹر الیکسی وووک ن کا کہنا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے کیے جانے والے سائبر حملوں کا اضافہ سائبر سیکیورٹی کے منظر نامے میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اداروں کو اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے اب کام کرنا چاہیے۔ اس میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے چلنے والے ٹولز میں سرمایہ کاری، اے آئی سے متعلق خطرات کو پہچاننے کے لیے ملازمین کی تربیت، سائبر سیکیورٹی کنٹرولز کی ترقی اور نفاذ شامل ہے تیاری صرف ایک آپشن نہیں ہے – سائبر خطرات کے اس نئے دور میں یہ ایک ضرورت ہے۔

کیسپرسکی اس بات کو یقینی بنانے کی تجویز کرتا ہے کہ آپ کے آئی ٹی نیٹ ورک کی ہر سطح اور عنصر کو ٹھوس، کثیر پرتوں والے حفاظتی حل کے ساتھ محفوظ کیا جائے۔ کیسپرسکی نیکسٹ پروڈکٹ لائن سے شروع ہونے والے کاسپرسکی سلوشنز، جدید ترین اے آئی خطرات کو روکنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہیں۔ اگر آپ کے پاس اندرون ملک اس مہارت کی کمی ہے تو کیسپرسکی مینجڈ ڈیٹیکشن اینڈ ریسپانس کے ساتھ آن لائن اور لائیو کیسپرسکی چائبر سکیورٹی ٹریننگ مضبوط آپشنز ہیں۔ کیسپرسکی آٹومیٹد پلیٹ فارم کے ساتھ اپنے دفتری افرادی قوت کو دفاع کی ایک اضافی تہہ میں تبدیل کریں۔

متعلقہ مضامین

  • کشمیری مہاجرین کے مسائل پر طاہر کھوکھر کی بیوروکریسی پر سخت تنقید
  • اے این ایف کا تعلیمی اداروں، مختلف شہروں میں منشیات اسمگلنگ کیخلاف کریک ڈاؤن
  • پی ٹی سی ایل ورکرز اتحاد فیڈریشن پاکستان CBA کے سیکرٹری جنرل حافظ لطف اللہ خان ،چیف ایڈمنسٹریٹر آزاد خان قادری، سینئر وائس پریذیڈنٹ وحید حیدرشاہ، رب نواز قریشی، امتیاز راجپوت اور خلیق الزمان خان نے معروف ٹریڈ یونین لیڈر سجاد بھٹی کے بھائی زاہد بھٹی کی وف
  • میڈ اِن پاکستان’’ نمائش جدہ میں کامیابی سے اختتام پذیر 
  • لاہور، سی پی اے ایشیا اور جنوب مغربی ایشیاء کانفرنس اختتام پذیر
  • آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے باعث بڑھتے ہوئے خطرات کاروباری اداروں کے لیے مشکلات کا باعث ،کیسپرسکی تحقیق
  • پی ٹی آئی احتجاج: قافلے صوابی کی جانب رواں، پنجاب میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن
  • پاسپورٹ دفاتر کے باہر ایجنٹ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم
  • پرندوں کو بطور صدقہ فروخت کرنے والوں کیخلاف کریک ڈاؤن، درجنوں سانڈے بھی برآمد