اسلام آ باد:

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان سے قانونی امور سے متعلق ذمہ داری واپس لے لی گئی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ایک اور فیصلہ کرتے ہوئے ایڈیشنل جج جسٹس راجہ انعام امین منہاس کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا قانونی امور کا جج مقرر کردیا ہے، جبکہ جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان سے قانونی امور سے متعلق ذمہ داری واپس لے لی گئی ہے۔ 

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی منظوری سے ڈپٹی رجسٹرار نے نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ 

  نوٹیفکیشن کے مطابق جسٹس راجہ انعام امین منہاس اسلام آباد ہائیکورٹ کے قانونی ونگ کے امور کو سپروائز کریں گے، انہیں عوامی مفاد میں فوری طور پر قانونی امور کا جج مقرر کیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ 2022 میں جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق کو قانونی ونگ کو سپروائز کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: باد ہائیکورٹ کے

پڑھیں:

ججز تعیناتی مؤخر کر کے آئینی ترمیم پر فل کورٹ بنایا جائے: سپریم کورٹ کے 4 ججوں کا چیف جسٹس کو خط

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ میں ججز تعیناتی کے معاملے پر 4 ججز نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ دیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ نے خط تحریر کیا۔ خط میں 10 فروری کے جوڈیشل کمشن کے اجلاس کو مؤخر کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم جوڈیشل کمشن کا اجلاس 10فروری کو شیڈول ہے، لاہور ہائی کورٹ میں ایک جج 15 ویں نمبر پر تھا، اسلام آباد تبادلے بعد سپریم کورٹ کیلئے اہل کیسے ہوگیا؟، آئینی پر طور پر مشکوک تبادلے کے بعد ایک جج کیسے سپریم کورٹ کیلئے اہل ہوسکتا ہے؟۔ قانون واضح ہے جو براہ راست نہیں کیا جا سکتا وہ بلاواسطہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ججز نے خط میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ میں ججز تعیناتی کے معاملے میں 26ویں ترمیم کیس میں آئینی بینچ فل کورٹ کا کہہ سکتا ہے، نئے ججز آئے تو فل کورٹ کون سی ہو گی یہ تنازعہ بنے گا، اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین ججز ٹرانسفر ہوئے، آئین کے مطابق نئے ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں دوبارہ حلف لازم تھا۔ آئینی ترمیم کا کیس ترمیم کے نتیجہ میں بننے والا آئینی بنچ سن رہا ہے، آئینی ترمیم کا مقدمہ فوری طور پر فل کورٹ میں مقرر ہونا چاہیے، پہلے بھی آئینی ترمیم کا کیس فل کورٹ میں مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا، آئینی بینچ نے بھی کیس کافی تاخیر سے مقرر کیا گیا، آئینی ترمیم کیس کی آئندہ سماعت سے قبل ہی نئے ججز کی تعیناتی کیلئے جلدبازی میں اجلاس بلا لیا گیا، آئینی ترمیم کیس زیر سماعت ہے، ترمیم سے فائدہ اٹھانے والے ججز کے آنے سے عوامی اعتماد متاثر ہوگا۔ آئینی بنچ اگر فل کورٹ کی درخواستیں منظور کرتا ہے تو فل کورٹ تشکیل کون دے گا؟۔ اگر فل کورٹ بنتی ہے تو کیا اس میں ترمیم کے تحت آنے والے ججز شامل ہوں گے؟۔ اگر نئے ججز شامل نہ ہوئے تو پھر سوال اٹھے گا کہ تشکیل کردہ بنچ فل کورٹ نہیں، اگر موجودہ آئینی بنچ نے ہی کیس سنا تو اس پر بھی پہلے ہی عوامی اعتماد متزلزل ہے، عوام کو موجودہ حالات میں ’’کورٹ پیکنگ‘‘ کا تاثر مل رہا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ 26ویں ترمیم کیس میں آئینی بنچ، فل کورٹ کا کہہ سکتا ہے۔ حلف کے بغیر ان ججز کا جج ہونا مشکوک ہو جاتا ہے اس کے باوجود اسلام آباد ہائیکورٹ میں سنیارٹی لسٹ بدلی جا چکی ہے، موجودہ حالات میں ججز لانے سے کورٹ پیکنگ کا تاثر ملے گا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین ججز ٹرانسفر ہوئے۔ آئین کے مطابق نئے ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں دوبارہ حلف لازم تھا۔ پوچھنا چاہتے ہیں عدالت کو اس صورتحال میں کیوں ڈالا جا رہا ہے۔علاوہ ازیں اسلام باد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق کو 6 صفحات پر مشتمل خط لکھ دیا۔ جسٹس بابر ستار نے ٹرانسفر ججز کی سنیارٹی لسٹ جاری کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا اور  ہائیکورٹ ایڈمنسٹریشن کمیٹی تبدیلی کو بھی غیرقانونی قرار دے دیا۔ جسٹس بابر ستار نے خط میں سنیارٹی لسٹ کے خلاف ریپریزنٹیشن فائل کرنے کا ذکرکیا۔ اور کہا ہے کہ سنیارٹی لسٹ اور ایڈمنسٹریشن کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری کرنا غیرآئینی اور غیرقانونی ہے، بغیر اسلام آباد ہائیکورٹ جج کے حلف اٹھائے ٹرانسفر ججز کو کمیٹی میں رکھنا غیرقانونی ہے، ٹرانسفر نوٹیفکیشن میں کہیں نہیں لکھا کہ ٹرانسفر عارضی ہے یا مستقل ہے۔ آرٹیکل194 کے تحت ہمارے معزز ساتھی ججز نے اپنی اپنی ہائیکورٹس کا حلف اٹھا رکھا ہے، حلف میں تینوں ججز نے کہہ رکھا ہے وہ اپنی اپنی ہائیکورٹس میں بطور جج اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفرکے بعد تینوں ججز نے حلف نہیں اٹھایا جو ضروری تھا، حلف کے بغیر وہ ججز اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنی ڈیوٹی شروع نہیں کرسکتے تھے۔ ان ججز کو حلف کے بغیر جوڈیشل اور انتظامی کام کے لحاظ سے اسلام آباد ہائیکورٹ کا جج نہیں کہا جاسکتا،  آپ کی زیرنگرانی تینوں ججز آرٹیکل 194 کی خلاف ورزی میں بغیر حلف 3 فروری سے جوڈیشل کام شروع کرچکے ہیں، آرٹیکل194 کے تحت بطور چیف جسٹس آپ کی ذمہ داری تھی کہ آپ تینوں ججز سے حلف لیتے، بغیر حلف ججز سے جوڈیشل اور انتظامی کام لینا ان کیلئے بعد میں شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ ایڈمنسٹریشن کمیٹی کا نوٹیفکیشن اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز2011 کی خلاف ورزی ہے، اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز کے مطابق ایڈمنسٹریشن کمیٹی چیف جسٹس اور 2 ججز پر مشتمل ہوگی، نویں نمبر کے جج جسٹس خادم سومرو کو کمیٹی میں شامل نہیں کرسکتے تھے، بے تکے طریقے سے ایڈمنسٹریشن کمیٹی کی دوبارہ تشکیل کی گئی، انتظامی کمیٹی میں سندھ اور لاہور ہائیکورٹ کے 2 ججز کو شامل کیا گیا جن کا اسلام آباد ہائیکورٹ کا انتظامی کوئی تجربہ نہیں، تین دن پہلے ان کی ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری ہوا ساتھ ہی کمیٹی میں شامل کرلیا گیا۔ ہم تقریباً روزانہ جوڈیشل سائیڈ پرکہہ رہے ہوتے ہیں ایگزیکٹو قانون کے مطابق شفاف طریقے سے اختیار استعمال کرسکتا ہے، آپ اتفاق کریں گے ججز بھی صوابدیدی اختیارات استعمال کے اتنے ہی پابند ہیں جتنا ہم ایگزیکٹو کو کہتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سنیارٹی تبدیل کرنے کیخلاف 5 ججز کی ریپریزنٹیشن مسترد
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز سے قانونی امور کی ذمہ داری واپس لے لی گئی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق سے قانونی امور سے متعلق ذمہ داری واپس
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان سے اہم ذمہ داریاں واپس لے لیں
  • آرٹیکل 200 اور سیاسی ہنگامہ
  • صدر سپریم کورٹ بار کی سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سے ملاقات
  • صدر سپریم کورٹ بارکی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی ، چیف جسٹس ہائیکورٹ سے ملاقاتیں
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: آئندہ ہفتے ججز کا ڈیوٹی روسٹر جاری
  • ججز تعیناتی مؤخر کر کے آئینی ترمیم پر فل کورٹ بنایا جائے: سپریم کورٹ کے 4 ججوں کا چیف جسٹس کو خط