جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ میں 6 ججز تعینات کرنے کی منظوری دیدی
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
اسلام آباد: جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں 6 ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا، جس میں 8 نئے ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی پر غور کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں جسٹس عامر فاروق کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی منظوری دی گئی، اس کے علاوہ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ شفیع صدیقی کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی بھی منظوری دی گئی۔
ذرائع کے مطابق بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہاشم کاکڑ کو سپریم کورٹ جج بنانے کی منظوری دی گئی، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اشتیاق ابراہیم کو سپریم کورٹ کو بھی جج بنانے کی منظوری دی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن نے سندھ ہائیکورٹ کے جج صلاح الدین پنور کو سپریم کورٹ جج کی منظوری دی اور پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس شکیل احمد کے بطور جج سپریم کورٹ تعیناتی کی منظوری دی گئی۔
ذرائع نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ ججز تعینات کرنے کا معاملہ موخر کردیا گیا۔
ذرائع کے مطابق جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ کو عارضی جج تعیناتی کی منظوری دی گئی، ان کی تقرری ایک سال کے لیے کی گئی ہے، سپریم کورٹ میں ٹیکس مقدمات کے بڑھتے بوجھ کیوجہ سے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی تقرری عمل میں لائی گئی ہے۔
ذرائع نے کہا کہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو مستقل کیا جا سکے گا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی تعیناتی آرٹیکل 181 کے تحت کی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے جوڈیشل کمیشن اجلاس کا بائیکاٹ کیا، ان کے علاوہ بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر گوہر نے بھی اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔
واضح رہے کہ ممبر جوڈیشل کمیشن اور پی ٹی آئی کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے گزشتہ روز چیف جسٹس کو خط میں آج کا اجلاس موخر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی منظوری دی گئی ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ میں جوڈیشل کمیشن ا کو سپریم کورٹ جج بنانے کی چیف جسٹس کورٹ کے
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے 9 مئی سے متعلق مقدمات کا ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کردی
سپریم کورٹ نے 9 مئی سے متعلق مقدمات کا ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی سے متعلق ضمانت منسوخی کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
فواد چوہدری نے مؤقف اپنایا کہ میرا کیس سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جو کیسز رہ گئے ہیں وہ آئندہ دو روز میں مقرر کر رہے ہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں ہمارے لیے ملٹری کورٹس بن چکی ہیں، سپریم کورٹ سے کوئی لیٹر بھی جاری ہوا ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے کہا کہ ایسا کوئی لیٹر جاری نہیں ہوا، نامزد ملزم رضوان مصطفیٰ کے وکیل ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے اور استدلال کیا کہ 143 گواہان ہیں،چار ماہ میں ٹرائل مکمل نہیں ہوسکے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ زرا اونچی آواز میں پڑھیں، قانون کیا کہتا ہے، ایک ماہ اضافی دیکر چار ماہ کا وقت اسی لیے دیا تاکہ ٹرائل مکمل ہو جائے۔
دوران سماعت خدیجہ شاہ کے وکیل سمیر کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے اور میری مؤقف اپنایا کہ موکلہ تین کیسز میں نامزد ہے، عدالت آبزرویشن دے مزید کیسز میں نامزد نہ کیا جائے، ہمارے حقوق متاثر نہ ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے خدیجہ شاہ کے وکیل سے مکالم کیا کہ بے فکر رہیں آپکے حقوق متاثر نہیں ہونگے، ہم آرڈر میں خصوصی طور پر لکھ دیں گے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ تمام کیسز میں یہ آبزرویشن دیدیں، بعض کیسز میں چلان کی کاپیاں نہیں فراہم کی جاتیں، چیف جسٹس پاکستان نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ تمام ریکارڈ فراہم کیا جانا چاہیے۔
ملزم خضر عباس کی میڈیکل گراؤنڈ پر ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی، وکیل درخواست گزار نے کہا کہ میرے موکل کی عمر بیس سال یے وہ بیمار ہیں، اس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا کریں گے تو جیل میں موجود تمام بیمار رہا ہو جائیں گے۔
عدالت نے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو چار ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے اور متعلقہ ہائی کورٹس کو ہر پندرہ روز میں عمل درآمد رپورٹس بھی پیش کرنے کی ہدایت کی اورنوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت پرسوں تک ملتوی کردی۔