جوڈیشل کمیشن اجلاس : جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے بائیکاٹ کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
جوڈیشل کمیشن کے ججز کی تعیناتی کے حوالے سے بلائے گئے اجلاس کا جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے بائیکاٹ کردیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان (ایس سی پی) کے 4 سینیئر ججز نے سپریم کورٹ میں ججز تعیناتی کا معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ ججز کی تعیناتی کے حوالے سے بلائے گئے 10 فروری کے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو مؤخر کیا جائے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو لکھے گئے خط پر جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ کے دستخط موجود ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینیئر ججز کے خط کے مندرجات میں چیف جسٹس آف پاکستان سےمطالبہ کیا گیا ہے کہ 10 فروری کے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو مؤخر کیا جائے ۔ خط کے مندرجات کے مطابق 26 ویں ترمیم کیس میں آئینی بنچ فل کورٹ کا کہہ سکتا ہے اس لیے نئے ججز آئے تو فل کورٹ کون سی ہو گی یہ تنازع بنے گا۔
خط کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز ٹرانسفر ہوئے، آئین کے مطابق نئے ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں دوبارہ حلف لازم تھا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ حلف کے بغیر ان ججز کا جج ہونا مشکوک ہوجاتا ہے، اس کے باوجود اسلام آباد ہائیکورٹ میں سنیارٹی لسٹ بدلی جا چکی ہے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں ججز لانے سے کورٹ پیکنگ کا تاثر ملے گا، پوچھنا چاہتے ہیں عدالت کو اس صورتحال میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ خط میں کہا گیا ہے کہ کس کے ایجنڈے اور مفاد پر عدالت کو اس صورتحال سے دوچار کیا جا رہا ہے؟۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چاروں سینیئر ججز نے چیئرپرسن، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان، اسلام آباد کے نام ’سپریم کورٹ آف پاکستان میں ججوں کی تقرری ملتوی کرنے کی درخواست‘ کے عنوان سے لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت تشکیل دیئے گئے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کا اجلاس 10 فروری 2024 کو طلب کیا گیا ہےجس میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں 8 ججز کی تقرری پر غور کیا جائے گا۔ موجودہ (اور جاری) حالات اور کچھ حالیہ پیش رفت نے ہمیں اجلاس کو ملتوی کرنے کی درخواست کرنے کے لیے آپ کو خط لکھنے پرمجبور کیا ہے۔
خط کے مندرجات میں لکھا گیا ہے کہ ’جیسا کہ آپ اور پوری قوم جانتی ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم (ترمیم) کے آئینی جواز کو سماج کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے متعدد درخواست گزاروں نے چیلنج کیا ہے۔
اگرچہ پہلی درخواستیں ترمیم نافذ ہونے کے فوراً بعد دائر کی گئی تھیں اور اس کے بعد درخواستوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا، لیکن یہ درخواستیں اب بھی التوا کا شکار ہیں اور فی الحال ترمیم کے ذریعہ تشکیل دی گئی سپریم کورٹ کے آئینی بنچ (سی بی) کے سامنے بھی التوا کا شکار ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اس چیلنج سے فوری طور پرفل کورٹ کو نمٹنے کی ضرورت تھی، پہلے ان کی سماعت کی جانی چاہیے تھی۔ اب نئے ججز کی تقرری کے لیے مذکورہ بالا اجلاس حیرت انگیز طور پر اور جلد بازی میں سی بی کے سامنے مذکورہ معاملات کی سماعت کی اگلی تاریخ سے پہلے ہی طے کر لیا گیا ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ ’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جغرافیائی، سیاسی یا معاشرتی اختلافات سے قطع نظر تمام عدالتی نظاموں کی مرکزی ذمہ داری یہ ہے کہ ان پر عوام کا اعتماد ہونا چاہیے۔ ہمارے خیال میں عدلیہ پر عوام کا اعتماد صرف دیے گئے فیصلوں کی قانونی خصوصیات پر منحصر نہیں ہے، بلکہ بنیادی طور پر اس کی غیر جانبداری اور آزادی پرعوام کے اعتماد بھی منحصر ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں عدلیہ پرعوام کا اعتماد اس بات پرمنحصر ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو مسترد کرنے کے حوالے سے دائر درخواستوں سے کس طرح نمٹا جاتا ہے۔ اس مرحلے پر نئے ججز جو واضح طور پر اس ترمیم سے مستفید ہو رہے ہیں، کی شمولیت سے ادارے پر عوام کے پہلے سے ’متزلزل‘ اعتماد پر مزید بھاری پڑے گا اور غیر ضروری طور پر معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دے گا۔
خط کے مطابق اگراجلاس اپنے بیان کردہ مقصد تک پہنچنے کے لیے آگے بڑھایا جاتا ہے تو جو مخمصہ پیدا ہوگا کہ اگر ’سی بی‘ درخواستوں کو قبول کرتی ہے اور ترمیم کو درپیش چیلنجز کی سماعت اور فیصلہ کرنے کے لیے فل کورٹ کے اجلاس کو ہدایت دیتا ہے، تو یہ سوال ہر حال میں اٹھے گا کہ اس مقصد کے لیے فل کورٹ میں کون شامل ہوگا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اس وقت تک تجویز کے مطابق 8 نئے ججوں نے عہدہ سنبھال لیا تو اس سے غیر معمولی صورتحال پیدا ہوگی۔ ایک نقطہ نظر سے فل کورٹ میں نئے ججز شامل ہوں گے۔ لیکن وہ ترمیم کے تحت ہی آ جاتے۔ اس سے عدالت کی پیکنگ کے بارے میں عوامی تاثر کو تقویت ملے گی، جس سے ملک میں انصاف کے سب سے بڑے ادارے کی غیر جانبداری اور آزادی کے بارے میں امیج کو شدید نقصان پہنچے گا۔
دوسری نظر میں ان مقاصد کے لیے فل کور ٹ میں صرف وہ جج ہو سکتے ہیں جو اس ترمیم کے نفاذ کے وقت عدالت میں موجود ہوں اور اب بھی اپنے عہدے پر فائز ہوں۔ لیکن کچھ لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ یہ فل کورٹ نہیں ہوگا۔
خط میں ججز نے لکھا ’ہم پوچھتے ہیں کہ عدالت کو اس پوزیشن میں کیوں رکھا گیا؟ عدالت کی بے عزتی اور شاید (ہمیں افسوس کے ساتھ) مذاق اڑانے میں کس کا ایجنڈا ہے اور اس سے کون سے مفادات حاصل ہوتے ہیں؟
عدالت کو ایک ایسے مخمصے کے سینگوں پر کیوں رکھا جائے جس سے بچا جا سکتا ہے؟ کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ نئے ججز کی تقرری کے معاملے کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور فی الحال اسے ایک طرف رکھا جائے؟
خط میں سینیئر ججز نے لکھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سوالات خود ہی جواب دیتے ہیں۔ عدالت کو اپنی سالمیت اور ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے فل کورٹ کے وقت اور اس کی تشکیل پراحتیاط سے غور کرنا چاہیے، جو نہ صرف اعلیٰ ترین عدالتی ادارے بلکہ پورے قانونی نظام کے لیے اہم ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ فل کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ (اگر نئے ججوں کی تقرری کے بعد تشکیل دیا گیا ہو) عوام کے اعتماد کو حاصل کرنے میں ناکام ہوسکتا ہے۔ لہٰذا موجودہ حالات میں واحد قابل عمل حل اور آپشن یہ ہے کہ اجلاس کو ملتوی کردیا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خط میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن ا ف پاکستان آف پاکستان سپریم کورٹ اسلام آباد کے لیے فل کی تقرری عدالت کو کے مطابق کورٹ میں ترمیم کے اجلاس کو فل کورٹ ججز کی کیا جا
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے 9 مئی سے متعلق مقدمات کا ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کردی
سپریم کورٹ نے 9 مئی سے متعلق مقدمات کا ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی سے متعلق ضمانت منسوخی کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
فواد چوہدری نے مؤقف اپنایا کہ میرا کیس سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جو کیسز رہ گئے ہیں وہ آئندہ دو روز میں مقرر کر رہے ہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں ہمارے لیے ملٹری کورٹس بن چکی ہیں، سپریم کورٹ سے کوئی لیٹر بھی جاری ہوا ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے کہا کہ ایسا کوئی لیٹر جاری نہیں ہوا، نامزد ملزم رضوان مصطفیٰ کے وکیل ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے اور استدلال کیا کہ 143 گواہان ہیں،چار ماہ میں ٹرائل مکمل نہیں ہوسکے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ زرا اونچی آواز میں پڑھیں، قانون کیا کہتا ہے، ایک ماہ اضافی دیکر چار ماہ کا وقت اسی لیے دیا تاکہ ٹرائل مکمل ہو جائے۔
دوران سماعت خدیجہ شاہ کے وکیل سمیر کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے اور میری مؤقف اپنایا کہ موکلہ تین کیسز میں نامزد ہے، عدالت آبزرویشن دے مزید کیسز میں نامزد نہ کیا جائے، ہمارے حقوق متاثر نہ ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے خدیجہ شاہ کے وکیل سے مکالم کیا کہ بے فکر رہیں آپکے حقوق متاثر نہیں ہونگے، ہم آرڈر میں خصوصی طور پر لکھ دیں گے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ تمام کیسز میں یہ آبزرویشن دیدیں، بعض کیسز میں چلان کی کاپیاں نہیں فراہم کی جاتیں، چیف جسٹس پاکستان نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ تمام ریکارڈ فراہم کیا جانا چاہیے۔
ملزم خضر عباس کی میڈیکل گراؤنڈ پر ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی، وکیل درخواست گزار نے کہا کہ میرے موکل کی عمر بیس سال یے وہ بیمار ہیں، اس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا کریں گے تو جیل میں موجود تمام بیمار رہا ہو جائیں گے۔
عدالت نے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو چار ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے اور متعلقہ ہائی کورٹس کو ہر پندرہ روز میں عمل درآمد رپورٹس بھی پیش کرنے کی ہدایت کی اورنوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت پرسوں تک ملتوی کردی۔