غزہ کے لوگوں کو فلسطین سے بےدخل کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں، ترک صدر
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
ترک صدر رجب طیب اردوان ن نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ غزہ کے لوگوں کو ان کے آبائی وطن سے ہزاروں سالوں سے بے دخل کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے موجود ہے جہاں وہ ہزاروں سال سے آباد ہیں، غزہ، مغربی کنارے، مشرقی مقبوضہ بیت المقدس سمیت فلسطین فلسطینیوں کا ملک ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فلسطینیوں کی منتقلی کی تجویز کا حوالہ دیتے ہوئے رجب طیب اردوان نے کہا کہ صییونی حکومت کے دباؤ کے تحت غزہ کے بارے میں امریکی انتظامیہ کی تجاویز قابل بحث نہیں ہیں۔
ترک صدر نے اسرائیلی کوششوں کے باوجود حماس اسرائیل معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے اپنے وعدوں کو پورا کرنے پر حماس کی تعریف بھی کی۔
شام کی صورت حال کے بارے میں رجب طیب اردوان نے کہا کہ شام کے مختلف حصوں میں اجتماعی قبروں کے انکشاف سے سابق صدر بشار الاسد حکومت کا خونی چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے۔
ترک صدر نے عبوری شامی صدر احمد الشرع کی قیادت میں شام کے استحکام کے لیے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کی کہ ملک جلد ہی امن حاصل کر لے گا۔
انہوں نے کہا کہ شام میں دہشت گرد گروہوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ، شام کے صدر دہشت گرد گروہوں کے خلاف لڑیں گے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پی ٹی آئی میں اختلافات شدت اختیار کرگئی، صوابی جلسے میں رہنماؤں کے درمیان لفظی گولہ باری
صوابی: تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے، صوابی میں ہونے والے جلسے کے دوران شیر افضل مروت اور سلمان اکرم راجہ میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا جبکہ اسٹیج پر مخالف نعرے بھی لگائے گئے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق 8 فروری کو صوابی میں ہونے والے جلسے میں پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات واضح نظر آئے،شیر افضل مروت نے اسٹیج پر مخالف نعرے لگوائے تو سلمان اکرم راجہ نے انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ “کوئی بدتمیزی نہیں ہوگی”۔
دوسری جانب جلسے میں کارکنان کی کم حاضری پر پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے صدر جنید اکبر خان نے رپورٹ طلب کرلی، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ناراضی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ “عمران خان نے ملاقات میں ناراضی والی کوئی بات نہیں کی، البتہ ان کے دل میں کیا ہے، اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔”
تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آنے کے بعد پارٹی کی قیادت کے لیے ان اختلافات کو ختم کرنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔