پاکستان کی نئی نسل کیسی کتابیں پڑھنا چاہتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 فروری 2025ء) آج کل کے ڈیجیٹل دور میں پاکستان کی نئی نسل میں کتاب خوانی کے رجحانات میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان میں کتابوں کی اشاعت کے کاروبار بھی متاثر ہوئے ہیں۔
لاہور میں منعقدہ پانچ روزہ کتاب میلے میں شریک نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سے گفتگو کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسا بالکل نہیں کہ نوجوانوں میں کتاب پڑھنے کا شوق ختم ہو گیا ہے۔
آج بھی ایک خاص تعداد کتابوں کی شیدائی ہے اور طبع شدہ کتابیں پڑھنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ لیکن زیادہ تر نوجوانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ڈیوائسز اور سوشل میڈیا کے دور میں کتابیں پڑھنے کے رجحان میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ بیشتر نوجوان آن لائن ریسورسز کو ترجیح دینے لگے ہیں۔(جاری ہے)
لاہور کے ثقافتی و سماجی پس منظر میں لکھا گیا ناول جلایا کیوں گیا؟
ٹیکنالوجی کی طاقت، ترقی اور محروم طبقات کا استحصال
’’آج‘‘ کے ذریعے ادب کو عوامی بنانے کی کوشش
کتاب میلے میں موجود اسما نامی ایک لڑکی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ آج کے بچے ویزوئل دور والے بچے ہیں، ان کا کتابوں سے تعلق کم ہو رہا ہے۔
وہ ایسی کتابوں کو پسند کرتے ہیں جن پر ٹیکسٹ کم ہو اور اس کے ساتھ تصویریں زیادہ ہوں۔ اسما کے مطابق ابھی تک پاکستان میں آڈیو بکس پڑھنے کا رجحان فروغ نہیں پا سکا۔کتاب میلے میں شریک تانیہ نامی ایک طالبہ نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایاکہ نوجوان نسل بڑی حد تک کتابوں سے دور ہو چکی ہے۔ اب لوگ آن لائن ریڈنگ یا پی ڈی ایف فارمیٹ میں الیکٹرانک کتابیں پڑھنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔
ان کے بقول مذہب اور شاعری سمیت بہت سے دیگر موضوعات کی نسبت بچے فکشن زیادہ پڑھتے ہیں۔ اسما زیادہ تر جاپانی اور کوریا کے مصنفین کی ترجمہ کی ہوئی کتابیں پڑھتی ہیں۔ انہیں روحانیت، ٹائم ٹریول اور فینٹیسی پر مبنی کتابیں پسند ہیں۔ کچھ نوجوانوں نے بتایا کہ وہ سیلف ہیلپ اور ذہنی صحت کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابیں پڑھنے کے شوقین ہیں۔ زیادہ تر بچوں نے فکشن پڑھنے کو اپنی پسند بتایا۔فرسٹ ایئر کے طالب علم محمد شاہ زیب نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ کتابوں کے معاملے میں ہر طالب علم کا معاملہ مختلف ہے۔ کچھ کتابوں میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے اور کچھ اہتمام سے پڑھتے ہیں۔ ''مجھے دنیا کی مقبول ترین کتابیں پسند ہیں اور خوش قسمتی سے پاکستان میں بہت سی ایسی کتابوں کے تراجم پر مبنی کتابیں اب دستیاب ہیں۔ مجھے فکشن فلسفہ اور تاریخ کے موضوعات پر مبنی کتابیں پسند ہیں لیکن اب موضوعات بھی بدل رہے ہیں۔
بہت سے نوجوان مصنوعی ذہانت، ای کامرس اور سوشل میڈیا سے پیسے کمانے والی معلومات رکھنے والی کتابیں بھی پسند کرتے ہیں۔ میرے خیال سے پاکستانی پبلشرز کو نوجوان بچوں کی کی نفسیات اور ان کی پسند و ناپسند کو سامنے رکھ کر کتابوں کی اشاعت کا اہتمام کرنا چاہیے۔‘‘نئی نسل خصوصاً جنریشن زی کے بچے کس طرح کی کتابیں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں اسما کا کہنا تھا کہ کتابوں کے معاملے میں ہر بچے کا ذوق مختلف ہوتا ہے۔ لیکن اسما کے بقول جنریشن زی کو ایسی کتابیں پسند ہیں جن کے چند صفحات پر مبنی چھوٹے چھوٹے چیپٹرز ہوں اور چیپٹرز بھی زیادہ نہ ہوں۔ ہر صفحے پر دو سو سے زائد الفاظ نہ ہوں اور ٹیکسٹ کی تصویروں کی مدد سے وضاحت کی گئی ہو۔ آج کل بھاری بھرکم مواد اور ثقیل زبان والی کتابیں بچوں کو پسند نہیں آتیں۔ آج کی جنریشن شیکسپئیر جیسی تحریروں کی بجائے عام فہم اسلوب پڑھنا پسند کرتی ہے۔ چھوٹے فقرے، آسان زبان، صاف اور سیدھی باتوں اور دلچسپ کہانیوں پر مبنی تصویروں والا ٹیکسٹ ہی بچے پڑھنا پسند کرتے ہیں۔اسما کے مطابق جس طرح کوک اسٹوڈیو نے مقامی میوزک کو جدید ٹچ کے ساتھ نوجوان نسل کے لیے دلچسپ بنایا اس طرح مقامی کہانیوں کو بھی انگریزی اور اردو کتابوں میں بیان کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹک ٹاک پر بک ٹاک سمیت انسٹا گرام اور ایکس پر کتابوں کی مارکیٹنگ نوجوان نسل کو کتابوں سے جوڑ رہی ہے۔ لوگ کتابوں پر تبصرہ کرتے ہیں اور کتابوں کے ویڈیو کلپ بناتے ہیں۔ اگر کسی کو کتاب اچھی لگے تو وہ خرید بھی لیتے ہیں۔ثنا نامی لاہور کی ایک طالبہ نے بتایا کہ بچوں کو فلموں سے واپس کتابوں کی طرف لانے کے لیے کتابوں کے معیار، مواد اور قیمتوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
کلاس دہم کے طالب علم محمد سمیر نے بتایا کہ انہیں خوشی ہے کہ کتاب میلوں میں ایک چھت کے نیچے ہزاروں کتابوں کی کولیکشن میسر آ جاتی ہے۔ اور وہ اپنی مرضی کی کتابیں خرید سکتے ہیں۔ ان کے مطابق اچھی کتاب کے لیے زیادہ قیمت بھی دی جا سکتی ہے۔ ای بکس میں وہ مزا نہیں جو ایک کتاب ہاتھ میں پکڑ کر اسے محسوس کرکے پڑھنے میں آتا ہے۔ اسما کا خیال ہے کہ پاکستان میں عام شہریوں کی قوت خرید کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہاں کتابیں مہنگی ہیں۔ میں نے دس ہزار روپے میں چار کتابیں خریدی ہیں باقی امپورٹڈ کتابیں اس سے بھی مہنگی ہیں۔ایک پبلشر کے بقول امیر لوگوں کو کتاب کی قیمت سے کوئی مسئلہ نہیں۔ لوئر مڈل کلاس کے لیے کتاب خریدنا آسان نہیں، انہیں دال روٹی کی فکر رہتی ہے لیکن مڈل کلاس صرف اچھی کتابوں کے لیے پیسے خرچ کرتی ہے۔
ایمان حسن نامی ایک طالبہ نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ وہ آرٹ ورک کی طرح اچھی کتابوں کو اکٹھا کرتی ہیں۔
ان کے بقول انہوں نے بچپن میں جو کتابیں پڑھی تھیں اب وہ ان کتابوں کے خوبصورت چھپے ہوئے مہنگے ایڈیشن خریدتی ہیں۔ ''مجھے انہیں بار بار پڑھنے میں مزا آتا ہے۔ میں نے بہت پہلے الکیمسٹ پڑھی تھی، اب میں نے اس کا جدید اور مہنگا والا ایڈیشن خریدا ہے۔ اچھی کتاب کا خوشگوار احساس ، اس کے کاغذ کی خوشبو اور اس کے ٹائیٹل کی فیل مجھے کتاب پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔‘‘کراچی سے آئے ہوئے ایک پبلشر شاہ فہد نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ پاکستان میں کتابوں کی دنیا کا منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ''دنیا بدل گئی ہم الف انار اور ب بکری سے باہر نہیں آ سکے۔ ہم نے بہت چھوٹے بچوں کے لیے ایک تصویری کتاب شائع کی ہے، جس میں بچہ تصویریں دیکھ کر ہسپتال، شاپنگ مال کی شناخت کرتا ہے اور باہر جا کر ان عمارتوں کو پہچانتا ہے۔
‘‘ان کے بقول انہوں نے یورپی کتابوں کا جائزہ لے کر اپنی اشاعتی پالیسی بنائی ہے جس میں تھوڑے ٹیکسٹ کو استعمال کرکے تصویروں والے آرٹ ورک کے ساتھ بچوں کی کتابیں تیار کرتے ہیں اور وہ بچوں میں کافی مقبول ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بکرہ لیموں نہیں کھاتا اور شیر تھو تھو نہیں کرتا لیکن ہم تخلیقی انداز میں نئی نئی کہانیاں لا رہے ہیں، جس کا مطلب نوجوان ریڈرز کے ذہن کھولنا ہے۔
ہماری کتاب خریدنے والے ہماری ویب سائٹ پر جا کر اس کہانی کی ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں۔پاکستان کے ایک ممتاز پبلشر سلیم ملک نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ پاکستان کی بک انڈسٹری کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے نجی شعبے کو حکومت کا تعاون درکار ہے۔ ان کے بقول کچھ پبلشرز نے پہلے ہی نوجوان نسل کی بدلتی ضروریات کے مطابق کام شروع کر رکھا ہے۔ چند سال پہلے لاہور نے بولتی کتابوں کے نام سے پرنٹ اور سی ڈی پر مبنی بچوں کی کہانیاں تیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا، جو کہ ابھی تک چل رہا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کتابیں پسند ہیں پسند کرتے ہیں پاکستان میں نوجوان نسل ان کے بقول کتابوں کے کتابوں کی کے مطابق میں کتاب کے لیے
پڑھیں:
خود فریبی کی نفسیات
دوستو! ہم پاکستانیوں کے لیے ایک سمسیا یہ ہے کہ جب بھی افغان پناہ گزینوں کوان کے وطن واپس بھیجنے کاکام شروع ہوتا ہے، افغان مہاجرین کا واویلہ تو سمجھ میںآتا ہے لیکن پاکستانیوں کا ایک مخصوص گروپ پتہ نہیں کیوں بین ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔
بندہ پوچھے! پناہ گزینوں کو ان کے اپنے وطن واپس بھیجا جا رہا ہے،کالے پانی کی سزا تو نہیں دی جا رہی۔ اب جب کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں‘اور افغانستان کے لوگ حقیقی آزادی کی برکات سمیٹ رہے ہیں‘ایسے میںافغان پناہ گزینوں کا پاکستان میںٹکے رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ویسے بھی پاکستانیوں کا ایک مخصوص گروپ ہمیں یہی خوشخبریاں سناتا آ رہا ہے کہ افغانستان میں ڈالر پاکستان کی نسبت سستا ہے‘ افغانستان کی کرنسی روپے کے مقابلے میں طاقتور ہے۔
امن و امان ایساکہ چور چکے کہیں غائب ہو گئے ہیں‘کوئی خاتون ایک کلو سونے کے زیورات پہن کر پورے افغانستان کا تنہا سفر کر لے ‘کسی کی جرات نہیں کہ خاتون یا سونے کو ہاتھ لگا سکے۔ناجانے کیوں افغان پناہ گزین اپنے پرامن‘ خوشحال اورخوبصورت ملک میںواپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
پاکستان میں دائیں بازوکے سیاستدان اور دانشور پتہ نہیں کس مٹی کے بنے ہوئے ہیںکہ انھیں دنیا جہاںکی برائیاں اور خامیاںہم پاکستانیوں خصوصاً پنجاب کے رہنے والوں میں ہی کیوں نظر آتی ہیں۔ بلوچستان میں پنجاب کے مزدوروں کو قتل کر دیا جائے یا ایران میں پنجابی ہنرمندوں کو بیدردی سے کچل دیا جائے ‘تب بھی ان دانشوروں اور سیاستدانوںکے چہرے پر افسوس کی پرچھائی تک نظر نہیں آتی۔خود فریبی‘خود اذیتی اورخود فراموشی کی ایسی مثال شاید ہی کسی اور ملک کے باسیوں میں نظر آتی ہو۔
ایک صاحب تو آج کل غزہ کی تباہی کا ذمے دار بھی انگریز دور کی فوج میں شامل پنجابی سپاہیوں کو قرار دے رہے ہیں۔میں نے ایک نام نہاد قوم پرست سیاستدان کے یہ الفاظ بھی سنے ہیںکہ افغان اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو نہیں بھولتے۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ لالہ جی!کرزئی ‘عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے دور حکومت میں طالبان گوریلوں نے جولوگ قتل کیے ‘وہ کس کھاتے میں گئے۔ افغان نیشنل آرمی نے جو لوگ قتل کیے ‘وہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں۔نجیب اللہ حکومت کے خاتمے کے بعد کابل اور افغانستان کے شہروں میں جو لوٹ مار ہوئی اور جو قتل عام ہوا وہ لٹیرے اور قاتل کون ہیں؟میرا خیال ہے کہ مزید آگے جانے کی ضرورت نہیں ہے تھوڑے کو ہی بہت سمجھا جاناچاہیے۔
امریکا‘یورپ اور عرب ممالک غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرتے رہتے ہیں، اس پر تو کوئی احتجاج نہیں کرتا،اب تو امریکا کے ہوم ڈیپارٹمنٹ نے باقاعدہ طور پر مراسلہ جاری کر دیا ہے کہ 14سال سے زائد عمر کے تمام لوگ اپنے شناختی کاغذات اور دستاویزات ہر وقت اپنے ساتھ رکھیں‘ یہ اقدام غیر ملکیوں کو امریکا سے نکالنے کے لیے کیا گیا ہے۔اس پر تو کسی نے کوئی واویلا نہیں کیا ہے۔ امریکا نے میکسیکو ‘کولمبیا اور بھارت کے شہریوں کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر ان کے ملکوں میں واپس بھیجا ہے۔سب خاموش رہے ہیں۔پاکستان تو افغان مہاجرین کو عزت کے ساتھ بھیج رہا ہے۔اس پر بھی پاکستانیوں کا شور سمجھ سے باہر ہے۔
پاکستان سے غیرملکیوں کو نکالا جائے تو ظلم ہے، زیادتی ہے کی گردان شروع ہوجاتی ہے۔مارچ میں افغانستان کی طالبان رجیم نے بھی درخواست داغ دی کہ پاکستان میں موجود افغانوں کو نہ نکالا جائے۔ پاکستان کی حکومت نے یہ درخواست مسترد کر دی تھی۔ پاکستان واحد ملک نہیں ہے جو غیرملکی مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیج رہا ہے، ایران نے بھی افغانستان کے لاکھوں مہاجرین کو واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے کیونکہ ایران بھی افغان مہاجرین کی وجہ سے پیچیدہ مسائل کا شکار ہورہا ہے، پاکستان بھی مسلسل دہشت گردی کا شکار چلا آرہا ہے ، پاکستان کی معاشرت اور معیشت متاثر ہو رہی ہے۔
ملک کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے۔اسمگلنگ،منشیات فروشی، ڈاکا زنی، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کو اس پہلو پر ضرور غورکرنا چاہیے کیونکہ شرپسند اور دہشت گرد عناصر افغانستان کے بھی ہمدرد نہیں ہیں۔
پاکستان، ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے۔اس کی سسٹر آرگنائزیشنز بھی پاکستان میں سرگرم ہیں۔ بلوچستان میں بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں اور ٹی ٹی پی کے درمیان گہرے اسٹرٹیجک تعلقات زبان زدعام ہیں۔ دونوں گروپوں کے ایک دوسرے کے لیے سہولت کاری کے امکانات کو رد کرنا انتہائی مشکل ہے۔
پاکستان کے اندر سے بھی انھیں سہولت کار میسر ہیں۔ورنہ پاکستان میں دہشت گردی نہیں ہو سکتی۔ امریکا 2021ء میں اپنے انخلا کے وقت افغانستان میں اپنا جدید اسلحہ چھوڑ کر گیا تھا، ایک طرح سے یہ ہتھیار طالبان کے سپرد کیے گئے تھے ، افغان نیشنل آرمی کے پاس جو اسلحہ تھا، وہ بھی امریکا نے واپس نہیں لیا تھا، اس کی مالیت اربوں ڈالرز بنتی ہے، پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں یہ اسلحہ استعمال ہوا ہے ، عالمی ذرایع ابلاغ میں بھی اس کی تصدیق ہو رہی ہے۔ یقیناً افغانستان کی طالبان حکومت کے بڑوں کوبھی اس حقیقت کا بخوبی علم ہو گا، پاکستان کی حکومت بھی انھیں حقائق سے آگاہ کرچکی ہے ، امریکا کے صدر ٹرمپ بھی افغانستان سے کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکی اسلحہ واپس کردے لیکن افغان طالبان اس حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
بی ایل اے اور ٹی ٹی پی الگ الگ گروپ ہیں مگر انھیں اکٹھا کون کررہا ہے؟، ٹریننگ دے کر، پیسے دے کر پاکستان کے خلاف اکٹھا کون کر رہا ہے؟ اس حوالے سے بہت سے حقائق منظر عام پر بھی آچکے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین پر ٹی ٹی پی ، داعش، بی ایل اے وغیرہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ،افغانستان اپنے وعدے پورے نہیں کررہا اور پاکستان میں پراکسی وار لڑ رہا ہے۔پاکستان کا محل وقوع اسٹرٹیجکلی عالمی اہمیت کا حامل ہے۔
اس خطے میں تین ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ پاکستان وسط ایشیا اور چین کا دروازہ ہے۔ یہاں سے گزرے بغیر وسط ایشیا تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان کے شمال مغرب میں افغانستان اور ایران میں بدامنی یا دہشت گردی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
افغانستان میں عوام کی نمایندہ جمہوری حکومت نہیں ہے ‘ افغانستان کا سسٹم بھی یکطرفہ اختیارات کا حامل ہے۔ جدید تجارتی میکنزم موجود نہیں ہے۔ اس ملک میں دہشت گرد تنظیموں کا آزادانہ نقل و حرکت کرنا پورے خطے کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہے۔ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کا مسلسل قیام بھی آج کے حالات میں سود مند نہیں رہا ہے۔
خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ترقیاتی سرگرمیاں اس وقت تک شروع نہیں ہوسکتیں جب تک ان علاقوں سے دہشت گردوں کی سہولت کاری کا خاتمہ نہیں ہوتا‘ اس مقصد کے لیے افغان پناہ گزینوں کو ان کے وطن واپس بھیجنا انتہائی ضروری ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ افغانستان کی حکومت کو بھی پتہ چلے گا کہ اپنے باشندوں کی دیکھ بھال کرنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے۔ طالبان کا کام محض اقتدار انجوائے کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرنا ہے۔
جو نام نہاد ہمدرد حلقے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے واویلا کر رہے ہیں، تو کیا ایران سے افغان مہاجرین کو بیدخل نہیںکیا گیا ہے، کیا ایران نے نرمی برتی ہے؟ ایسا معاملہ جس سے پاکستان کی سالمیت، اس کی معیشت اور معاشرت کو نقصان ہورہا ہو، اس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے۔
اسی میں ہم سب کا بھلا ہے‘ افغانستان کی قیادت اور اشرافیہ کو بھی اپنے آپ کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم قرار دینے کی نفسیات سے چھٹکاراپانا چاہیے۔کوئی قوم یا ملک کسی دوسرے ملک یا قوم کا دشمن نہیں ہوتا اور نہ ہی دوست ہوتا ہے۔ مفادات ہی ایک دوسرے کو دشمن اور دوست بناتے ہیں۔جو ملک اور قومیں خود احتسابی کرتی ہیں‘ وہی مفادات کا درست ارینجمنٹ کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔افغانستان اور پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔