پاکستان کا مقابلہ پاکستان سے کریں تو ہم نے بہت کامیابی حاصل کی ہے: احسن اقبال
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال—فائل فوٹو
وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ صحت کے شعبے میں ترقی کے لیے اقدامات ضروری ہیں۔
ایک تقریب سے خطاب میں وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ عوام کو صحت کی سہولت فراہم کرنا ہمارا عزم ہے، اگر آپ نےحقیقی معنوں میں ڈاکٹر بننا ہے تو آپ کو کم سے کم 10سال کا سفر کرنا ہے، آپ سب لوگوں کی محنت کا نتیجہ ہےجو آج سب یہاں بیٹھے ہیں۔
احسن اقبال نے کہا ہے کہ آج 77 سال ہوگئے ہیں ہمارے ذہنوں میں ایک سوال اٹھتا ہے کیا ہم نےاپنا وعدہ پورا کیا؟ پہلا جواب ہے اگر ہم پاکستان کا مقابلہ پاکستان سے کریں تو ہم نے بہت کامیابی حاصل کی ہے، آج یہ ملک دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ عوام پراپیگنڈے پر نہیں کارکردگی پر ووٹ دیتے ہیں۔
وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی نے بتایا کہ ہم پر لاکھوں مہاجرین کا بوجھ تھا، وہ ملک جس نے صفر سے آغاز کیا، 1960ء میں پاکستان کی برآمدات 200 ملین ڈالرز تھیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: احسن اقبال نے کہا ہے کہ منصوبہ بندی احسن اقبال وفاقی وزیر
پڑھیں:
مشرق وسطیٰ میں امریکی منصوبہ بندی اور جاپانی امن مشن
ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے متنازع بیانات اور پالیسیوں کے باعث بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ میکسیکو کے تارکین وطن کی واپسی کا معاملہ ہو یا چین، کینیڈا اور دیگر ممالک پر ٹیرف کے حوالے سے کیے گئے فیصلے، انہیں ہر محاذ پر تنقید اور نکتہ چینی کا سامنا ہے۔ ان کی امریکا فرسٹ کی پالیسی کے تحت روایتی اتحادیوں کا اعتماد بھی متزلزل ہوا ہے، خود امریکی پالیسی ساز ادارے ٹرمپ کے ارادوں کو امریکی استحکام کے لیے ایک سوالیہ نشان سمجھ رہے ہیں جن سے امریکا کی امتیازی حیثیت اب خطرے میں نظر آرہی ہے۔
ٹرمپ کی یہ پالیسیاں آج کا شاخسانہ نہیں بلکہ یہ ان کے پہلے دور اقتدار سے منسلک پالیسیوں کا تسلسل سمجھی جارہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ابراہم منصوبہ ہو یا غزہ کے مستقل مکینوں کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کا مجوزہ منصوبہ انہیں اسی تسلسل کی کڑی سے منسلک سمجھا جارہا ہے۔ اس سے قبل جنوری 2020 میں بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے “Peace to Prosperity” کے نام سے ایک منصوبہ پیش کیا تھا، جسے ’’صدی کی ڈیل‘‘ بھی کہا گیا۔ یہ منصوبہ فلسطینیوں کے لیے ایک محدود خودمختاری والی ریاست کی تجویز دیتا تھا، جس کے بدلے میں اسرائیل کو مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں پر مکمل اختیار حاصل ہوتا۔ مزید برآں، اس منصوبے میں یروشلم کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت قرار دیا گیا تھا اور فلسطینی عوام کو غزہ سے باہر دیگر علاقوں، بشمول اردن اور مصر، میں منتقل کرنے کے امکانات کا عندیہ دیا گیا تھا اور یہ معاملہ اس وقت بھی اتنا ہی متنازع تھا جتنا کہ آج۔
ٹرمپ کی غیر منطقی اور ناانصافی پر مبنی یہ تجویز نہ صرف فلسطینی عوام کی خواہشات کے خلاف بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔ اس منصوبے کو فلسطینی قیادت، اقوام متحدہ، یورپی یونین، عرب لیگ اور دیگر ممالک نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اسے یکطرفہ طور پر اسرائیل کے حق میں جھکاؤ اور فلسطینی عوام کے حق خودارادیت پر ڈاکا سمجھا گیا۔ مشرق وسطیٰ کی گمبھیر صورتحال میں یہاں بین الاقوامی سطح پر مختلف اقدامات کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے۔ اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً مختلف اقدامات کیے جاتے رہے ہیں جن میں امن مشن کی تعیناتی کے اقدامات بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں بین الاقوامی امن مشن کا بنیادی مقصد عالمی استحکام اور انسانی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔ فلسطین کے حوالے سے بھی اقوام متحدہ اور دیگر تنظیمیں مختلف سطح پر امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں، اقوام متحدہ کی دیگر ٹیمیں مغربی کنارے اور غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرتی ہیں اور امن کے قیام کے لیے سفارتی اقدامات تجویز کرتی ہیں لیکن عملی طور پر یہ مشن فلسطینیوں کو حقیقی ریلیف دینے سے قاصر نظر آتی ہیں۔
بظاہر یورپی یونین فلسطینی علاقوں میں اقتصادی ترقی، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے مالی امداد بھی فراہم کرتی ہے جبکہ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) فلسطینی عوام کی حمایت میں مختلف قراردادیں منظور کر چکی ہے لیکن قیام امن اور فلسطینیوں کو ان کے جائز حق کی جانب پیش رفت کے ضمن میں یہ تمام اقدامات کوئی موثر حکمت عملی بنانے میں قاصر نظر آتے ہیں۔ عرب لیگ نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ٹرمپ کی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے حقوق پر زور دیا لیکن اس کی حیثیت شطرنج کے مہرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایسے میں مشرق وسطیٰ میں ہمیں جاپان کا کردارایک غیر جانبدار اور انسان دوست ملک کے طور پر نظر آتا ہے، جو اقوام متحدہ کے امن مشن میں فعال کردار ادا کرتا ہے۔ فلسطین کے حوالے سے جاپان کی پالیسی جن بنیادی نکات پر مشتمل ہے ان کے تحت وہ غزہ اور مغربی کنارے میں بنیادی ڈھانچے، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے مالی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔
جاپانی حکومت نے فلسطینی مہاجرین کے لیے UNRWA کے ذریعے غذائی امداد اور دیگر فلاحی منصوبے شروع کیے ہیں۔ جاپان نے اقوام متحدہ کے امن مشنز، جیسے کہ UNDOF (United Nations Disengagement Observer Force) اور UNIFIL (United Nations Interim Force in Lebanon) میں شمولیت اختیار کی ہے، جو مشرقِ وسطیٰ میں تنازعات کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ جاپان نے مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے سفارتی کوششیں بھی کی ہیں اور عالمی امن کانفرنس میں فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کی وکالت کی ہے۔ جاپان نے ہمیشہ غیر جانبداری برقرار رکھی ہے اور کسی بھی ایسی پالیسی کی مخالفت کی ہے جو فلسطینی عوام کے حقوق کو نظر انداز کرے تاہم جاپان کی جانب سے فلسطین میں دو ریاستی حل کا بیانیہ ایک متنازع معاملہ سمجھا جاتا ہے اور فلسطینی اس رائے کو تسلیم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ اس ضمن میں مزاحمتی تنظیم حماس کا نقطہ ٔ نظر سمجھے بغیر اس مسئلے کا کوئی حل ممکن نظر نہیں آتا، حماس نے ہمیشہ بین الاقوامی امن مشن اور مغربی ممالک کے کردار پر شبہ ظاہر کیا ہے۔ حماس کی نظر میں بین الاقوامی طاقتیں اکثر اسرائیل کے حق میں فیصلے کرتی ہیں، جبکہ فلسطینی عوام کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جاپان کا موقف اس حوالے سے مختلف ہے۔ جاپان فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیتا ہے، مگر حماس کے ساتھ براہ راست سفارتی تعلقات نہیں رکھتا۔ مشرق وسطیٰ امور کے بعض ماہرین کی رائے میں جاپان اس پورے منظر نامے میں اس وقت تک کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہوگا جب تک وہ حماس کو اعتماد میں نہیں لیتا۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حماس اس پورے معاملے کا انتہائی اہم اسٹیک ہولڈر ہے اور اسے اعتماد میں لیے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن ممکن نہیں۔ جاپان سمیت عالمی برادری کی ذمے داری بنتی ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کا احترام یقینی بنایا جائے اور فلسطینی عوام کو جبری نقل مکانی سے بچا کر انہیں ان کے گھروں میں محفوظ رکھا جائے۔ اس سلسلے میں جاپان جیسے ممالک اقوام متحدہ کے امن مشن میں اپنی شرکت کو مزید فعال کرکے اور فلسطینی عوام کے لیے مزید عملی اقدامات کرسکتے ہیں، جس کے لیے جاپانی سفارت کاری کو فلسطینی عوام کی حمایت میں مزید واضح اور مضبوط موقف اختیار کرنا ہوگا۔ جاپان اس سے قبل بھی اس بات کا اعادہ کرتا رہا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ محض مشرق وسطیٰ کا نہیں، بلکہ ایک بین الاقوامی انسانی مسئلہ ہے۔ چنانچہ جاپان سمیت بین الاقوامی امن مشن کو چاہیے کہ وہ فلسطینی عوام کی حفاظت، ان کے بنیادی حقوق کے دفاع اور ایک منصفانہ حل کے لیے مزید مؤثر اور عملی اقدامات کریں، تاکہ خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔