اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 فروری 2025ء) چین کی وزارت شہری امور کی طرف سے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں 2024 میں 6.1 ملین جوڑوں نے شادی کے لیے رجسٹریشن کروائی، جو کہ اس سے پچھلے سال کے 7.7 ملین سے کم ہے۔

چین میں شادیوں میں بیس فیصد سے زیادہ کی گراوٹ کا یہ مسلسل تیسرا سال ہے، جسے 2023 میں بھارت نے دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے طور پر پیچھے چھوڑ دیا۔

آبادی میں اضافے کے لیے چینی حکومت کی پالیسیاں ناکام کیوں؟

چین کی 1.

4 بلین کی آبادی اب تیزی سے عمر دراز ہو رہی ہے۔ پچھلے سال کے اواخر تک تقریباً ایک چوتھائی لوگوں کی عمریں 60 سال یا اس سے زیادہ تھی۔

ڈیموگرافی کے یہ رجحانات ملک میں حکام کے لیے تازہ چیلنجز پیش کرتے ہیں، جو طویل عرصے سے معاشی ترقی کے محرک کے طور پر اپنی وسیع افرادی قوت پر انحصار کرتا رہا ہے۔

(جاری ہے)

بیجنگ کی طرف سے حالیہ برسوں میں خاندان کو بڑھانے کی مہم کے باوجود شادیوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ اس نے شادی اور لوگوں کو بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے مختلف سبسڈیز اور دیگر مراعات کا اعلان کر رکھا ہے۔

چین میں 25 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی کرنے پر نقد انعام

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ، خاص طور پر تعلیم اور بچوں کی دیکھ بھال پر آنے والے زیادہ اخراجات اور نئے گریجویٹس کے لیے ملازمتوں کا انتظار ان عوامل میں شامل ہیں جو شادی کے خواہش مند ممکنہ والدین کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔

بچوں کی دیکھ بھال پر آنے والے اخراجات بھی ایک سبب

چینی مائیکروبلاگنگ سائٹ ویبو کے ایک صارف نےاعداد و شمار کے حوالے سے لکھا، "اگر میں اپنے والدین پر انحصار نہ کروں، تو میں گھر خریدنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتا، اور شادی کرنا تو اور بھی زیادہ بڑا خرچ ہے۔"

مذکورہ صارف نے مزید کہا، "اس سال مجھے اچانک محسوس ہوا کہ سنگل (غیرشادی شدہ) رہنا بھی بہت اچھا ہے۔

اتنا دباؤ نہیں ہے، میں خود کماتا ہوں اور خود خرچ کرتا ہوں۔"

چین نے سن انیس سو اسی کی دہائی میں زیادہ آبادی کے خدشات کے پیش نظر ایک سخت "ایک بچے کی پالیسی" نافذ کی تھی۔ یہ پالیسی 2016 میں ختم کی گئی۔

سن دو ہزار اکیس میں جوڑوں کو تین بچے پیدا کرنے کی اجازت دی گئی، لیکن چین کی ڈیموگرافک تبدیلی کے آثار پہلے ہی سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔

دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت میں کم ہوتی شادیوں سے پنشن اور صحت عامہ کے نظام پر آنے والے سالوں میں دباؤ بڑھنے کا خطرہ ہے۔

ایک طویل المدتی متوقع اقدام کے تحت، بیجنگ نے ستمبر میں اعلان کیا کہ وہ ریٹائرمنٹ کی قانونی عمر میں بتدریج اضافہ کرے گا، جو کہ فی الحال ساٹھ سال ہے۔

ج ا ⁄ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے

پڑھیں:

گلگت بلتستان کے کسانوں کے لیے ’آئس اسٹوپاز‘ رحمت کیسے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) شمالی پاکستان میں سارا سال برف کی سفید چادر سے ڈھکے رہنے بلند و بالا پہاڑوں کے وادیوں میں رہائش پذیر اور پانی کی کمی سے دوچار کسانوں نے اپنے آئس ٹاور یا برفانی ستون تعمیر کر لیے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سردیوں میں معمول سے زیادہ درجہ حرارت اور برف باری میں کمی کی وجہ سے گلگت بلتستان کو اب پانی کی قلت کا مسئلہ درپیش ہے۔

آن لائن مدد کی تلاش

یہ علاقہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کا مسکن بھی ہے۔ قراقرم کے پہاڑی سلسلے کے سائے میں وادی اسکردو کے کسانوں نے 2,600 میٹر (8,200 فٹ) تک کی بلندی پر اپنے سیب اور خوبانی کے باغات کو سیراب کرنے کے لیے آن لائن مدد تلاش کی۔

ایک مقامی کسان غلام حیدر ہاشمی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''ہم نے یوٹیوب پر مصنوعی گلیشیئر دریافت کیے۔

(جاری ہے)

‘‘ انہوں نے سرحد کے اس پار دو سو کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر بھارتی علاقے لداخ میں ماحولیاتی کارکن اور انجینئر سونم وانگچک کی ویڈیوز دیکھیں، جنہوں نے تقریباً دس سال قبل یہ تکنیک تیار کی تھی۔

اس تکنیک کے تحت پانی کو ندیوں سے گاؤں تک پہنچایا جاتا ہے اور سردیوں کے منجمد کر دینے والے درجہ حرارت کے دوران اس کا ہوا میں چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔

یونیورسٹی آف بلتستان کے پروفیسر ذاکر حسین ذاکر نے کہا، ''پانی کو ہوا میں اچھالا جانا چاہیے تاکہ جب درجہ حرارت صفر سے نیچے آجائے تو یہ جم جائے، جس سے برف کے ٹاور بنتے ہیں۔‘‘

اس کے بعد یہ برف ایک ایسی شکل اختیار کر لیتی ہے، جو بدھ مت کے مقدس اسٹوپاز سے ملتی جلتی ہے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے ایک نظام کے طور پر کام کرتی ہے، پھر جب موسم بہار میں درجہ حرارت بڑھتا ہے، تو برف کا یہ ذخیرہ تسلسل سے پگھلنے لگتا ہے۔

برفانی چوٹیوں کی سر زمین

گلگت بلتستان میں 13,000 گلیشیئرز ہیں، جو قطبی خطوں سے باہر زمین پر موجود اور کسی بھی ملک میں برفانی چوٹیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ان کی خوبصورتی نے اس خطے کو ملک کے اعلیٰ سیاحتی مقامات میں سے ایک بنا دیا ہے۔

قدیم شاہراہ ریشم پر یہ اونچی چوٹیاں اب بھی ایک شاہراہ سے دکھائی دیتی ہیں، جو سیاحوں کو چیری کے باغات، گلیشیئرز اور برف کی نیلی جھیلوں کے درمیان تک لے جاتی ہیں۔

افغانستان سے میانمار تک پھیلے ہوئے ہندوکش اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے ماہر شیر محمد کا کہنا ہے کہ اس خطے میں پانی کی زیادہ تر فراہمی موسم بہار میں برف کے پگھلنے اور گرمیوں میں کسی حد تک برفانی تودوں کے پگھلنے سے ہوتی ہے۔

انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ (ICIMOD) سے وابستہ محقق شیر محمد نے اے ایف پی کو بتایا، ''اکتوبر کے آخر سے اپریل کے شروع تک یہاں شدید برف باری ہوتی رہتی تھی۔

لیکن پچھلے کچھ سالوں سے یہ کافی خشک ہے۔‘‘ پہلے آئس اسٹوپا کی تعمیر سات سال قبل

اقوام متحدہ کے تحت پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ہم آہنگ ہونے کے لیے قائم منصوبے جی او ایل ایف۔ ٹو کے صوبائی سربراہ رشید الدین نے کہا کہ گلگت بلتستان میں پہلا ''آئس اسٹوپا‘‘ سن دو ہزار اٹھارہ میں بنایا گیا تھا اور اب بیس سے زائد دیہات ہر موسم سرما میں انہیں بناتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان اسٹوپاز کی بدولت ''سولہ ہزار سے زائد باشندوں کو آبی ذخائر یا ٹینک بنائے بغیر پانی تک رسائی حاصل ہے۔‘‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے سامنے سب بے بس

کسان محمد رضا نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس موسم سرما میں ان کے گاؤں حسین آباد میں آٹھ اسٹوپا بنائے گئے تھے، جن میں تقریباً 20 ملین لٹر پانی برف کی شکل میں ذخیرہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا، ''ہمارے پاس اب پودے لگانے کے دوران پانی کی کمی نہیں ہے۔‘‘

وادی کے ایک اور کسان علی کاظم نے کہا، ''اس سے پہلے ہمیں پانی حاصل کرنے کے لیے جون میں گلیشیئرز کے پگھلنے کا انتظار کرنا پڑتا تھا، لیکن اب ان اسٹوپاز نے ہمارے کھیتوں کو بچا لیا ہے۔‘‘

قریبی پاری گاؤں میں آلو، گندم اور جو اگانے والے نوجوان بشیر احمد نے کہا کہ اسٹوپا بنانے سے قبل وہ مئی میں اپنی فصلیں بویا کرتے تھے۔

ان کا کہنا ہے، ''پہلے ہمارے پاس پیداوار کے لیے صرف ایک موسم تھا، جبکہ اب ہم سال میں دو یا تین بار فصل اگا سکتے ہیں۔‘‘

پاکستان میں1981 اور 2005 کے درمیان اوسط درجہ حرارت عالمی اوسط کے مقابلے میں دو گنا تیزی سے بڑھا، جس نے اس جنوبی ایشیائی ملک کو اب پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ اثرات والے ممالک کی صف اول میں لا کھڑا کیا ہے۔

240 ملین کی آبادی والے اس ملک میں زیادہ تر باشندے ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں، جو 80 فیصد بنجر یا نیم خشک ہے اور اس کو درکار پانی کے تین چوتھائی سے زیادہ حصے کا انحصار پڑوسی ممالک سے نکلنے والے دریاؤں اور ندیوں پر ہوتا ہے۔

پاکستان اور دنیا بھر میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جن میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے سمیت چند مستثنیات شامل ہیں۔

اس صورت حال کی وجہ سے سیلابوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور طویل المدتی بنیادوں پر پانی کی فراہمی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

ایک اور مقامی رہائشی یاسر پروی نے کہا، ''موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے، یہاں نہ امیر ہے نہ غریب، نہ شہری اور نہ ہی دیہی، پوری دنیا غیر محفوظ ہو چکی ہے۔ ہمارے گاؤں میں برف کے اسٹوپاز کی تعمیر کے ذریعے ہم نے ایک چانس لینے کا فیصلہ کیا۔‘‘

ش ر ⁄ م م (اے ایف پی)

متعلقہ مضامین

  • راجن پور: گزشتہ رات اغوا ہونے والے 3 مزدور واردات کے چند گھنٹوں میں بازیاب
  • گلگت بلتستان کے کسانوں کے لیے ’آئس اسٹوپاز‘ رحمت کیسے؟
  • کل جماعتی حریت کانفرنس کا مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی ہوئی بھارتی ریاستی دہشت گردی پر اظہار تشویش
  • اداکار سمیع خان کا سوشل میڈیا پر منفی رجحانات پر اظہارِ تشویش
  • روبوٹ کے ذریعے حمل ٹھہرانے والی خاتون کے ہاں بچے کی پیدائش
  • امریکی ایٹمی ری ایکٹر میں یورینئم افزودگی کا نیا ریکارڈ کیا ہے؟
  • پاکستان میں 2025 میں کس کمپنی کی گاڑیاں زیادہ فروخت ہوئیں؟
  • امریکا کی نصف سے زیادہ بالغ آبادی کا اسرائیل کےلئے ناپسندیدگی کا اظہار، سروے رپورٹ
  • بیٹی کی شادی سے 10 دن قبل خاتون اپنے ہونے والے داماد کیساتھ بھاگ گئیں
  • امریکا میں پہلی بار کمرشل ری ایکٹر میں 5 فیصد سے زائد افزودہ جوہری ایندھن تیار