لیبیا کے قریب ایک اور کشتی حادثہ، پاکستانیوں سمیت 65 مسافر سوار تھے
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
طرابلس ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 10 فروری 2025ء ) لیبیا کے ساحل کے قریب پاکستانی شہریوں سمیت غیرقانونی تارکین کی ایک اورکشتی حادثے کا شکارہو گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ نے لیبیا میں پاکستانی سفارتخانے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ افریقی ملک میں 65 مسافروں کو لے جانے والی کشتی الٹ گئی، کشتی الٹنے کا یہ حادثہ مرساڈیلا کی بندرگاہ کے قریب پیش آیا، لیبیا کشتی حادثہ میں متاثرہ پاکستانیوں کی تفصیلات جمع کی جارہی ہیں۔
ترجمان دفتر خارنہ کا کہنا ہے کہ حادثے کے بعد طرابلس میں پاکستانی سفارتخانے کی ٹیم کو زاویہ ہسپتال روانہ کردیا گیا جہاں حادثے کے شکار مسافروں کو پہنچایا گیا، پاکستانی سفارتخانہ کی ٹیم وہاں مقامی حکام کی معاونت کرے گی، اس کے علاوہ وزارت خارجہ میں کرائسز مینجمنٹ یونٹ کو بھی متحرک کردیا گیا۔(جاری ہے)
بتایا جارہا ہے کہ لیبیا کے جنوب مشرقی صحرا میں دو اجتماعی قبروں سے تقریباً 50 لاشیں بھی برآمد ہوئی ہیں، یہ لاشیں یورپ پہنچنے کے خواہش مند تارکین وطن افراد کی ہیں، پہلی اجتماعی قبر ملک کے جنوب مشرقی شہر کفرہ کے ایک فارم سے جمعے کے روز دریافت ہوئی جس میں سے 19 لاشیں نکالی گئیں، ان لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا۔
تارکین وطن افراد کی مدد کرنے والے ایک مقامی فلاحی ادارے نے بتایا کہ جن افراد کی لاشیں ملی ہیں ان میں سے بعض افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا اور پھر اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا جب کہ دوسری اجتماعی قبر بھی کفرہ میں ایک انسانی سمگلنگ کے اڈے پر چھاپے کے دوران دریافت ہوئی جس میں کم از کم 30 لاشیں موجود تھیں۔ .ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
’ایران آٹھ پاکستانیوں کے قتل کی تحقیقات میں مکمل تعاون کرے‘
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اپریل 2025ء) پاکستان نے ایرانی حکام سے آٹھ پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے ''مکمل تعاون‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ہلاکتیں ہفتے کے روز صوبہ سیستان-بلوچستان کے ایک علاقے مہرستان میں اس وقت ہوئیں، جب نامعلوم افراد نے ایک ورکشاپ میں گھس کر پاکستانی مزدوروں پر حملہ کیا۔
حملہ آوروں نے ان مزدوروں پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں تمام آٹھ افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد حملہ آور وہاں سے فرار ہو گئے۔ یہ علاقہ پاکستان-ایران سرحد سے تقریباً 230 کلومیٹر دور ہے۔
ایران میں پاکستان کے سفیر محمد مدثر نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ یہ آٹھوں مزدور تھے اور اسلام آباد اور تہران لاشوں کی وطن واپسی میں سہولت فراہم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔
(جاری ہے)
فوری طور پر کسی نے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ ایران، پاکستان اور افغانستان کے بلوچ علاقوں کو دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے آزادی کے خواہاں بلوچ قوم پرستوں کی بغاوت کا سامنا ہے۔پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں، بلوچ لبریشن آرمی، جسے 2019 میں امریکہ نے ایک دہشت گرد گروپ قرار دیا تھا، اکثر سکیورٹی فورسز اور شہریوں کو نشانہ بناتی ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ نے پیر کو ان ہلاکتوں کی مذمت کی اور پاکستانی عوام اور حکومت سے تعزیت کا اظہار کیا۔ وزارت نے ایک بیان میں کہا، ''ایران اس ظلم میں ملوث مجرموں اور ماسٹر مائنڈ کی شناخت کرنے اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔‘‘ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے اس قتل کی واردات کو ’دہشت گردی کی کارروائی‘ اور ’ایک مجرمانہ فعل‘ قرار دیا، جو ان کے بقول بنیادی طور پر اسلامی اصولوں اور قانونی اور انسانی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔افغانستان، ایران اور پاکستان میں بلوچ عوام کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ایڈوکیسی گروپ حال وش نے یہ اطلاع دی تھی کہ مسلح افراد نے ایران میں گاڑیوں کی مرمت کا خاندانی کاروبار چلانے والے آٹھ پاکستانی شہریوں پر فائرنگ کر کے انہیں ہلاک کر دیا۔ تاہم اس کی آزادنہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
شکور رحیم اے پی کے ساتھ
ادارت: افسر بیگ اعوان